ایس آئی ٹی رپورٹ : کارروائی ضروری

0
Image: Live Law

زرعی قوانین کی واپسی اور کسانوں سے معافی مانگنے کے معاملے میں حکومت کی ’صاف نیت ‘پر شبہات کے بادل گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ لکھیم پور کھیری سانحہ پر اسپیشل انویسٹی گیٹو ٹیم (ایس آئی ٹی )کی رپورٹ کے بعد بھی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشر کے خلاف کارروائی نہ کیے جانے کی وجہ سے حزب اختلاف کوبھی حکومت کے خلاف بزن بولنے کا نیا ایشو ہاتھ لگ گیا ہے اور اسے چاروں جانب سے گھیرکر ایسے مقام پر لے آئی ہے جہاں سے جائے فرار مشکل ہی نظر آرہا ہے۔ رواں سرمائی اجلاس کے دوران آج کا دن بھی اس وقت ہنگاموں کی نذر ہوگیا جب حزب اختلاف کے ارکان نے لکھیم پور کھیری سانحہ میں تازہ ترین پیش رفت پر نوٹس لیااور کانگریس کی جانب سے دونوں ایوانوں میںالتوا کا نوٹس پیش کرکے وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔لوک سبھا میں راہل گاندھی نے تحریک التوا پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ لکھیم پور کھیری واقعہ پر خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کو زیر بحث لایا جائے۔ جب کہ راجیہ سبھا میں کانگریس کے دیپیندر سنگھ ہڈا نے یہ نوٹس پیش کیا۔ لیکن دونوں ہی ایوانوں میں حکومت نے اس کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا جس کی وجہ سے اجلاس کی کارروائی ہنگاموں کی نذر ہوگئی اور صدر نشیں کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔
اترپردیش کے لکھیم پور کھیری معاملے کی جانچ کرنے والی ایس آئی ٹی نے اعتراف کیا ہے کہ یہ واقعہ کسانوں کو مارنے کی منظم اور منصوبہ بند سازش تھی۔ ایس آئی ٹی نے ملزمین پر لگائی گئی دفعات کو بھی بدل دیا ہے۔ اب اس معاملے کے مرکزی ملزم وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشر ٹینی کے بیٹے آشیش مشر سمیت دیگر14 ملزمان پر غیر ارادتاًقتل کے بجائے باقاعدہ قتل کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ ایس آئی ٹی نے تمام ملزمان پر آئی پی سی کی دفعہ 279، 338، 304 اے کو ہٹا کر 307، 326، 302، 34، 120 بی، 147، 148، 149، 3/25/30 کے تحت فردجرم عائد کردی ہے۔
لکھیم پور کھیری کے ٹکونیا میں 3 اکتوبر کو زرعی قوانین کے خلاف پرامن احتجاج سے واپس آنے والے کسانوں کو ایک ایس یو وی کار نے کچل کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد ہونے والے تشدد میں ایک صحافی سمیت کچھ دوسرے لوگ ہلاک کردیے گئے تھے۔ کسانوں نے الزام لگایا تھا کہ ایس یو وی ریاستی وزیر داخلہ اجے مشر کی تھی اور اس پر ان کا بیٹا آشیش مشر سوار تھا۔ لیکن حکومت شروع سے ہی آشیش مشر کی حفاظت کر تی رہی۔ اترپردیش کی یوگی حکومت نے بھی جلد بازی میں معاملے کو دبانے کی کوشش کی لیکن جب معاملہ نے سیاسی رخ اختیار کیا تو حکومت نے کارروائی کا یقین دلایا۔اس کے با وجود اس معاملے کا کلیدی ملزم آشیش مشر پولیس کی گرفت سے باہر رہا۔ بعدمیں عدالت عظمیٰ کی مداخلت پر اس کی گرفتاری عمل میں آئی۔ وزیر داخلہ اجے مشراس معاملے میں اپنے بیٹے کے ملوث ہونے کی تردید کرتے رہے تھے اور یہ بھی دعویٰ کیاتھاکہ اگریہ ثابت ہوگیا کہ ان کا بیٹا جائے وقوع پر موجود تھا تو وہ اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیں گے۔
اب جب کہ ایس آئی ٹی کی رپورٹ یہ بتارہی ہے کہ کسانوں کی ہلاکت ایک منظم اور منصوبہ بند قتل کی سازش تھی اوراس کا کلیدی ملزم آشیش مشر ہے تو حسب وعدہ وزیر مملکت امورداخلہ اجے مشر کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا یا پھر وزیراعظم نریندر مودی کو ہی انہیں کابینہ سے رخصت کردینا چاہیے تھا۔ لیکن اس معاملہ میں حکومت کا رویہ شرو ع سے ہی غیر واضح رہا ہے۔ بی جے پی کے ساتھ ساتھ حکومت بھی اس معاملے میں متاثرین کے بجائے ملزمین کے ساتھ ہی کھڑی نظرآتی رہی اور اجے مشر بدستور کابینہ کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
صورتحال تو یہ تقاضا کررہی ہے کہ نہ صرف اجے مشر کو کابینہ سے باہر کا راستہ دکھایاجائے بلکہ اس سازش میں ان کے بیٹے کے ساتھ ساتھ خود وزیرمملکت کے کردار پر بھی تحقیقات کی جائے لیکن حکومت اس معاملے میں لیپاپوتی اور قیل و قال کا رویہ اپنا رہی ہے۔ حزب اختلاف کا مطالبہ اتنا سنگین نہیں ہے کہ اس پر غور نہ کیا جا سکے۔قانون کی حکمرانی اور متاثرین کی داد رسی کا فریضہ بھی یہی ہے کہ حکومت اس معاملہ کو طول نہ دے اوروقت رہتے ہوئے کارروائی کرکے اس کی یکسوئی کی راہ نکالے۔ ورنہ کسانوں سے معافی پرا ٹھنے والے سوالات کا سلسلہ دراز ہوتا رہے گا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا ’زرعی قوانین‘ کے مضمرات حکومت کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ حکومت کی ’صاف نیت‘ اور کسانوں سے ’معافی‘ کی صداقت ثابت کرنے کا یہی صحیح وقت ہے۔اس کا درست استعمال کرتے ہوئے حکومت نہ صرف حزب اختلاف کی زبان بند کرسکتی ہے بلکہ ’کسان مخالف ‘ ہونے کا تاثر ختم کرتے ہوئے اپنی شبیہ بھی بہتر بناسکتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS