انہیں ضروری لگام سے پرہیز کیوں

ایک معاشرہ کے طور پر ہمیں مطالبہ کرنا چاہیے کہ ایک مناسب، شفاف عمل اور آزاد ایجنسی کے ذریعہ سوشل میڈیا منظم ہو

0

پرانجل شرما

سوشل میڈیا کے شعبہ میں حال ہی میں دو مختلف لیکن اہم واقعات ہوئے ہیں۔ ایک جانب حکومت نے کنٹینٹ پر اپنے یکطرفہ خیالات کے لیے ٹوئیٹر پر سوال اٹھائے ہیں۔ دوسری جانب ایک دیگر محاذ پر وہاٹس ایپ(فیس بک کے ملکیت والے) نے دہلی ہائی کورٹ میں ہندوستان کے ریگولیٹری قوانین کو چیلنج کردیا ہے۔ آئیے دیکھیں کہ ان دونوں واقعات میں کیا مماثلت اور کیا فرق ہے۔ تنازع طویل عرصہ سے چل رہا ہے لیکن ابھی جو مختلف و نیا ہے، اس سے ہم شروعات کرسکتے ہیں۔ وہاٹس ایپ نے اپنے پرائیویسی رولس کا اعلان کیا ہے جو اسے یوزرس یعنی استعمال کنندہ کی ذاتی اطلاعات جمع کرنے اور اپنے صارفین (کمپنیوں) کو دینے کی اجازت دیں گے۔ فیس بک اب وہاٹس ایپ، انسٹاگرام اور میسنجر کا مالک ہے اور وہ ان سبھی کے یوزرس کی اطلاعات کو جمع کرنا چاہتا ہے۔ ایسے ضوابط سے متعلق حکومت ہند نے فیس بک پر سوال کھڑے کیے ہیں۔
حکومت فرضی اور بدنیتی پر مبنی اطلاعات کے تیزپھیلاؤ سے متعلق بھی فکر مند ہے۔ اس تعلق سے اس نے فیس بک اور وہاٹس ایپ کو ایسا التزام کرنے کو کہا ہے، جہاں ضرورت پڑنے پر کنٹینٹ کے پروموٹر یا اصل منصف کی پہچان کی جاسکے۔ جہاں تک دو لوگوں کے درمیان کے پیغام کا سوال ہے، تو وہ محفوظ ہیں اور حکومت کے مطالبہ سے متاثر نہیں ہوں گے۔ لیکن کچھ معاملات میں ایک طے شدہ عمل کے ذریعہ جاننا چاہتی ہے کہ کون ایسے کنٹینٹ تیار کررہا ہے جو مجرمانہ یا نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔ نئے آئی ٹی ضوابط میں ایک ’ٹریسبلیٹی کلاز‘ شامل ہے، جس کے تحت افسر اطلاع کے پہلے پروموٹر کا پتا لگانے کے لیے کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے معلومات فراہمی کا مطالبہ کرسکیں گے۔

فون ٹیپ کے لیے بھی ایک طے عمل ہے اور حکومت میں کوئی نہ کوئی ایسے فیصلوں کے لیے جواب دہ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ پرائیویٹ کمپنیاں اپنے فائدے کے لیے ہماری رازداری پر حملہ کریں اور جب چاہیں، ہمارے ڈاٹا کا استعمال کریں۔ ایک مناسب عمل اور قوانین کے ساتھ حکومت کو اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے معلومات حاصل کرنے کا پورا حق ہے۔ رازداری اور اظہاررائے کی آزادی پر کوئی بھی فیصلہ پرائیویٹ کمپنیوں کو نہیں، قومی اداروں کو لینا چاہیے۔

وہاٹس ایپ کا کہنا ہے، اس کی تکنیک اس کی اجازت نہیں دیتی اور اس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس سے صارف کی رازداری کو ٹھیس پہنچے گی۔ حالاں کہ فیس بک جیسی کمپنی کے ایسے خیالات کو ماننا مشکل ہے۔ اس نے تو رازداری پر حملہ کرنے اور پرسنل ڈاٹا فروخت کرنے کا کاروبار کیا ہے۔ اگر وہاٹس ایپ کے دعوے کے مطابق ، تکنیک ’ٹریسبلیٹی‘ (کنٹینٹ کے اصل مصنف کی تلاش) کی اجازت نہیں دیتی تو اسے اس کا حل تلاش کرنا چاہیے جو ’ٹریسبلیٹی‘ کو ممکن کرسکے۔
اب ٹوئیٹر کے ایشو پر نظر ڈالتے ہیں۔ سوال ہے، کیا کارپوریٹ ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے کچھ لوگ طے کرسکتے ہیں کہ دنیا کے لیے اچھا مواد کیا ہے؟ جنوری2021میں امریکہ کے اس وقت کے صدر ڈونالڈٹرمپ کو ہٹانے کے لیے ٹوئیٹر، فیس بک ساتھ آگئے تھے۔ کیا یہ کمپنیاں یکطرفہ فیصلے کرسکتی ہیں، کسے منظوری ہو اور کسے نہیں؟ ایسی کمپنیوں کے ناقدین کے پاس ان کے جانبدار اور مبہم فیصلوں سے متعلق کئی واجب سوالات ہیں۔ ہر جمہوریت میں سینسرشپ اور اظہاررائے کی آزادی کا ایشو قانون کے مناسب عمل کے ذریعہ طے ہوتا ہے۔ مخصوص قوانین، عدلیہ اور سرکاری ایجنسیاں ایک عمل کے تحت اظہاررائے کی آزادی کے ایشوز پر فیصلے کرتی ہیں۔ کیا ہم کچھ کمپنیوں کے کچھ لوگوں کو دنیا کے لیے اظہاررائے کی آزادی طے کرنے کو منظوری دے سکتے ہیں؟ ٹوئیٹر نے تو مواد کے ساتھ چھیڑچھاڑ یا ’مینوپلیٹڈ میڈیا‘ کا ٹیگ لگانا شروع کردیا ہے، لیکن ایسے فیصلے کیسے لیے جاتے ہیں، اس میں کوئی شفافیت نہیں ہے۔
آئیے اب ان ایشوز پر نظر ڈالتے ہیں جو ہندوستان میں وہاٹس ایپ اور ٹوئیٹر سے وابستہ تنازعات کے درمیان عام ہیں۔ بنیادی طور پر ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوستان سوشل میڈیا کی بڑی کمپنیوں کے لیے سب سے بڑا کھلا بازار ہے۔ چین نے ان کمپنیوں کو بلاک کررکھا ہے اور اپنی الگ گھریلو سوشل میڈیا کمپنیاں بنارکھی ہیں۔ اس لیے ان کمپنیوں کے پاس اپنی توسیع کے لیے صرف ہندوستان جیسا خطہ ہے۔ ہندوستان کی آبادی اور بازار کا سائز امریکہ اور یوروپ سے بھی بڑا ہے۔ یہ کمپنیاں بغیر کسی اصول و ضوابط کے ان بازاروں میں اپنی توسیع چاہتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کی سبھی جمہوریتیں اب ان کمپنیوں کی طاقت پر سوال اٹھارہی ہیں اور چیلنج دے رہی ہیں۔
بھلے ہی ٹوئیٹر اور فیس بک کا ڈونالڈ ٹرمپ کو ہٹانے میں کردار رہا ہو، لیکن نئے صدر جوبائیڈن کی حکومت بھی ان کمپنیوں کی لگام کسنے میں لگی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کو بھی علم ہے کہ اظہاررائے کی آزادی اور رازداری طے کرنے کی طاقت پرائیویٹ کمپنیوں پر نہیں چھوڑی جاسکتی۔ یوروپ نے سخت قانون بنائے ہیں۔ امریکی سینیٹ نے بھی سوشل میڈیا ’دگّجوں ‘ سے سوال کیے ہیں۔ امریکہ میں ان کمپنیوں کو چھوٹے انٹرپرائزز میں تقسیم کردینے کے لیے بڑی تحریک چل رہی ہے، تاکہ وہ اپنے بڑے سائز کا غلط استعمال نہ کرسکیں۔
ہندوستان کو ان کمپنیوں پر سخت ہونا پڑے گا اور ایسے اصولوں کو نافذ کرنا ہوگا، جو معاشرہ کے لیے اچھے ہوں۔ اگر امریکہ اوریوروپی یونین ان کمپنیوں کے ضابطوں کو سخت کرسکتے ہیں تو ہندوستان بھی کرسکتا ہے۔ کچھ ناقدین ہندوستان پر شمالی کوریا جیسا بننے یا اظہاررائے کی آزادی پر قدغن لگانے کا الزام لگارہے ہیں۔ یہ بالکل گمراہ کن ہے۔
ایک معاشرہ کے طور پر ہمیں مطالبہ کرنا چاہیے کہ ایک مناسب، شفاف عمل اور آزاد ایجنسی کے ذریعہ سوشل میڈیا منظم ہو۔ یہ ایجنسی طے کرے کہ آزادی اور رازداری کیا ہے۔ ٹوئیٹر اور وہاٹس ایپ کو بھی ایسا قانونی عمل منظور کرنا چاہیے تاکہ حکومت کے ذریعہ طلب کیے جانے پر ضروری اطلاعات اسے مہیا ہوں۔ یاد رہے کہ ٹیلی مواصلات سروس آپریٹر بھی حکومت کے ذریعہ طلب کیے جانے پر متعلقہ معلومات شیئر کرتے ہیں اور اس کی بدولت لاکھوں جرائم کے معاملات حل ہوئے ہیں۔ جب حکومت نے مطالبہ کیا تھا کہ ہر سم کارڈ خریدار کو ایک آئی ڈی پروف جمع کرنا ہوگا، تب ٹیلی مواصلات کمپنیوں نے مخالفت کی تھی۔ لیکن حکومت نے انہیں مجبور کردیا اور ہم اب اس کے فوائد دیکھ سکتے ہیں۔
فون ٹیپ کے لیے بھی ایک طے عمل ہے اور حکومت میں کوئی نہ کوئی ایسے فیصلوں کے لیے جواب دہ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ پرائیویٹ کمپنیاں اپنے فائدے کے لیے ہماری رازداری پر حملہ کریں اور جب چاہیں، ہمارے ڈاٹا کا استعمال کریں۔ ایک مناسب عمل اور قوانین کے ساتھ حکومت کو اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے معلومات حاصل کرنے کا پورا حق ہے۔ رازداری اور اظہاررائے کی آزادی پر کوئی بھی فیصلہ پرائیویٹ کمپنیوں کو نہیں، قومی اداروں کو لینا چاہیے۔
(مضمون نگار ڈیجیٹل پالیسی کے ایکسپرٹ ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS