کون بنے گا کانگریس کا صدر؟

0

کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی ’بھارت جوڑو‘ یاترا‘ پرنکل چکے ہیں ، اس سے پارٹی کو انتخابات میں کتنا فائدہ پہنچے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ،لیکن فی الحال پارٹی کے اندر صدارتی انتخاب کو لے کر جو سوالات ہورہے ہیں ،جیسا کہ 5ممبران پارلیمنٹ نے مکتوب بھیج کر انتخاب کو غیرجانبدار انہ اورشفاف بنانے کی مانگ کی ،اور ایک کے بعد دوسرے لیڈر استعفیٰ دے رہے ہیں ۔ تازہ معاملہ آسام کی کانگریس اکائی کے جنرل سکریٹری قمرالاسلام کا استعفیٰ ہے ، ان سے نہ صرف پارٹی کیلئے صدارتی انتخاب کرانا بہت بڑا چیلنج بلکہ پارٹی کو جوڑنا وقت کی ضرورت اورتقاضابن گیا ہے ۔اب تک جتنے لیڈران نے استعفیٰ دیا، انہوں نے 2باتیں ضرورکہی ہیں ، ایک پارٹی بے سمت ہوگئی ہے ، دوسری قیادت کے تعلق سے پارٹی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ پارہی ہے ۔کہاں پہلے الیکشن کے بعد ممبران اسمبلی جوڑکر رکھنا اورانہیں تقسیم سے بچاناپارٹی کیلئے ایک چیلنج بناہواتھا ، اب تو عام حالات میں لیڈران پارٹی چھوڑرہے ہیں ۔ انہیں نہ کوئی روکنے یا منانے والا ہے اورنہ ان سے کوئی بات کرنے والا ۔صدرکے انتخاب کی تاریخ کا اعلان تو ہوگیا لیکن صورت حال یہ ہے کہ سونیاگاندھی خرابی صحت کی بنیادپر یہ ذمہ داری نبھانے کو تیار نہیں ہیں جبکہ راہل گاندھی صدر بننے سے انکار کررہے ہیں۔حالانکہ ’بھارت جوڑ و‘ یاترا کے آغازپر پارٹی کے لیڈران نے ان کیلئے پچ تیار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔رہی بات گاندھی کنبہ سے باہر کی تو کوئی چہرہ ایسانظر نہیں آرہا ہے ، جس پر اتفاق رائے ہوسکے ۔اگرگاندھی کنبہ سے باہر کسی کو بنابھی دیا گیا توبڑا سوال یہ ہے کہ وہ پارٹی کو جوڑ کر رکھ سکے گا اوراس کی کھوئی ہوئی زمین کو واپس دلاسکے گا؟ یاصدرکوئی اوررہے گا اوراس کا ریموٹ کسی اورکے پاس رہے گا ؟ صدر توکوئی بھی بن جائے لیکن کیا وہ اس کی ذمہ داریوں کو نبھانے اوراس سے کی جانے والی توقعات کی کسوٹی پر کھرااترنے میں کامیاب ہوسکے گا ؟
گزشتہ 24سال سے کانگریس کی کمان سونیاگاندھی اورراہل گاندھی کے پاس ہے۔سونیا گاندھی 1998سے 2017تک پھر 2019سے اب تک صدارت کی ذمہ داری نبھارہی ہیں ۔بیچ میں صرف 2سال کیلئے 2017سے 2019 تک راہل گاندھی صدر رہے اورلوک سبھا انتخابات میں پارٹی کی شکست فاش کے بعد خود ہی استعفیٰ دے دیا ۔جن کے دورصدارت میں کانگریس بری طرح ہاری تھی اورانہوں نے ناکامی کی بنیادپر ہی استعفیٰ دیا تھا۔پتہ نہیں کس بنیادپر ان ہی سے پارٹی کے احیاکی امید کی جارہی ہے ؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس صدارتی انتخاب سے پارٹی میں بہتری کی امیدکی جارہی ہے ،اس کی حتمی تاریخ کا اعلان 20اگست کو کرتودیا گیا لیکن اس کے بعد کم ازکم 6لیڈران انتخاب کی غیر جانبداری اورشفافیت کو لے کر سوال اٹھاچکے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب انتخاب سے پہلے اس طرح کے حالات ہوں گے تو انتخاب کے وقت کیاحال ہوگا؟بہرحال صدرکے انتخاب کیلئے پہلے آوازیں اٹھائی گئیں تو انتخاب ہورہا ہے ، اب اس میں شفافیت اورغیرجانبداری کو لے کر سوالات اٹھائے گئے تو انتخابی ضوابط میں تبدیلی کی گئی اورپہلی بار الیکٹورل کالج کے ان مندوبین کی فہرست عام کی جارہی ہے جن کے دستخط کی ضرورت پرچہ نامزدگی میں پڑتی ہے۔ مرکزی الیکشن اتھارٹی اورپارٹی کے لیڈرمدھوسودن مستری نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ جوبھی پرچہ نامزدگی داخل کرنا چاہتاہے کہ اس کیلئے پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے ایام 20تا 24ستمبرسے پہلے ہرریاست کے پارٹی دفترمیں وہاں کے10 مندوبین کی فہرست اورتمام 9000+ مندوبین کی فہرست آل انڈیا کانگریس کمیٹی اورمیرے دفتر میں دستیاب ہوگی ۔ان میں سے ضروری 10حامیوں کے نام منتخب کرکے امیدوار پرچہ نامزدگی پران سے دستخط کراسکتے ہیں ۔
کانگریس میں صدر کے انتخاب کیلئے سب کچھ ہورہا ہے لیکن کسی امیدوار کا چہرہ سامنے نہیں آرہا ہے اورنہ ہی کوئی انتخابی مہم چل رہی ہے ۔جبکہ پرچہ نامزدگی داخل کرنے کاعمل شروع ہونے میں 10دن سے بھی کم وقت بچاہے۔ایسے میں سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا امیدوار بنائے جائیں گے ؟ یا اندرونی طور پر کچھ نام طے ہیں اوران ہی سے پرچہ نامزدگی داخل کروایا جائے گا ۔جیساکہ دیگر پارٹیوں میں ہوتا ہے کہ سب کچھ پہلے سے طے ہوتا ہے اور عین موقع پر نام پیش کرکے انتخاب کی رسم اداکردی جاتی ہے ۔ کانگریس میں بھی صدر کے امیدوار کے تعلق سے کچھ اسی طرح کی صورت حال نظر آرہی ہے ، کہاضرور جارہا ہے کہ انتخاب کے ذریعہ صدر بنایاجائے گا لیکن انتخاب کیلئے امیدواروں کا ہونا ضروری ہے ، جو فی الحال ندارد ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS