مسلمانوں کے شہر کہاں ہیں؟

0

عمیر انس

ترکی کے سابق وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے اسلامی تہذیب میں شہروں کی اہمیت پر اہم مضامین لکھے ہیں، ان کا بنیادی نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمانوں کا معاشرتی، سیاسی اور ثقافتی تصور ان کے ذریعے آباد کیے گئے شہروں سے ہوتا ہے، مسلمان اپنی تخلیقیت، اپنی صلاحیت کا مکمل استعمال اور اظہار ایک مثالی شہر میں ہی کر سکتے ہیں، اپنی گفتگو کی دلیل میں انہوں میں بتایا کہ اگرچہ دور نبوت کے عربوں میں شہری تہذیب کا کوئی خاص رجحان نہیں تھا لیکن اسلام کے بعد عربوں نے اپنے زمانے کے سب سے بہترین شہر آباد کیے، اندلس، مغرب، مصر، عراق، شام، کے سبھی بڑے شہر زیادہ تر خلافت اسلامیہ کی اولین صدیوں میں آباد کر لیے گئے تھے، ایسا نہیں ہے کہ اسلام سے قبل شہر تعمیر نہیں کیے گئے تھے، لیکن مسلمانوں نے جس طرح سے شہر بنائے وہ اپنے زمانے میں ترقی، تعلیم، خوشحالی، شہری وسائل سے بھرپور تھے جس کی طرف دوردراز رہنے والے انسان بغیر کشش کے نہیں رہ سکتے تھے، دنیا بھر کے علم اور ہنر سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اسلامی دنیا کے شہر ان کے خوابوں کی تعبیر تھے، ابن سینا جیسے مشہور زمانہ علماء بغداد اور شام آنے کے بعد ہی مکمل ہوئے، بے شمار عربی، فارسی اور ترکی قصیدوں میں شہروں کا تذکرہ ہے، آج کے کالم میں یہ تذکرہ اس لیے کہ میں نے یوروپ اور مشرق وسطیٰ کے بہت سارے شہر دیکھے ہیں، گزشتہ مہینے دہلی، دوحہ، دبئی، برلن، بون، ایمسٹرڈم اور استنبول کے طویل سفر کے بعد واپس انقرہ پہنچا ہوں، میں کسی شہر میں سب سے پہلے بغیر کسی منزل کے شہر کے چاروں طرف کی بس اور ٹرین پر بیٹھ کر پورے شہر کا معائنہ کرتا ہوں، اس کی سڑکیں، آبادیاں، شہری منصوبہ بندی، ٹرانسپورٹ، وغیرہ، بلکہ کوشش کرتا ہوں کہ وہاں کے گاؤں اور مضافات کے علاقے بھی دیکھنے جاؤں، بہت سارے قارئین ان ملکوں میں رہتے ہیں اور آتے جاتے رہتے ہیں، یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ بر صغیر ہند و پاک میں گزشتہ سو سالوں میں شہر بالعموم بس اپنے آپ بستے جارہے ہیں، اکثر شہر یتیموں کی طرح پھیل رہے ہیں، پہلے آبادی بس جاتی ہے وہ اپنی ضرورتوں کا سامان کسی طرح سے کرلیتی ہے اور آخر میں حکومت اور اس کے اداروں کو لگتا ہے کہ اب وہاں کچھ ہونا چاہیے۔ حکومت کا شکوہ ایک طرف اس کے ساتھ ہی بلڈرس اور تاجروں نے نئی آبادیوں کو معمولی منافع کے لیے کسی لائق نہیں چھوڑا ہے، مثال کے طور پر گزشتہ پچیس سالوں میں جن جن علاقوں میں نئی مسلم آبادیاں آباد ہوئی ہیں اور جہاں مسلمان بلڈرس نے ہی کام کیا ہے، ان سبھی علاقوں اور شہروں کو دیکھیں، ان مدارس یا ملی اداروں کو دیکھیں جو بڑی زمینوں پر آباد کیے گئے ہیں یا اچھی عمارتوں میں آباد کیے گئے ہیں، جو حضرات شہری منصوبہ بندی پر توجہ دیتے ہیں وہ صاف طور پر محسوس کر سکتے ہیں کہ بیشتر مسلمان علاقے خاص طور پر نئی آبادیاں ضروری منصوبہ بندی کے بغیر آباد ہوتی جا رہی ہیں۔ بظاہر اس بد نظمی کا کوئی نقصان نہیں ہے کیونکہ سبھی لوگ اپنے اپنے گھروں کے اندر سکون سے رہ رہے ہیں، لیکن انسانی زندگی کے سارے مقاصد اور ضرورتیں صرف گھر کے اندر ہی نہیں بلکہ گھر کے باہر سے پوری ہوتی ہیں، کیا آپ کے بچوں کو روزانہ کھیلنے کودنے اور اپنے دوستوں کے ساتھ باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے؟ کیا آپ کے علاقے میں بریانی کباب کے علاوہ اچھی کتابوں کی دکانیں ہیں، کیا وہاں کلچرل سرگرمیوں کے لیے مناسب جگہ موجود ہے، کیا وہاں علمی اور فکری گفتگو کرنے اور تفریحی سرگرمیاں کرنے کے مناسب مواقع اور جگہیں ہیں؟ کیا وہاں روزگار حاصل کرنے کے لیے مناسب تیاری اور ٹریننگ کا ماحول ہے؟ اور سب سے اہم بات کیا وہاں آپ اپنے دین کے اہم اخلاقی اور معاشرتی اقدار کا ایک قابل اتباع اور وہاں آنے والوں کے لیے باعث کشش طریقے سے اظہار کرسکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اذان کی آواز کانوں میں پڑنا اور مسجد نزدیک ہونا تو اکیلی شرط نہیں ہے۔ مسلم آبادیوں میں مسجدوں کی حالت زار پر پہلے بھی لوگوں نے بہت لکھا ہے، مسلم علاقے بنیادی شہری سہولتوں اور ان کی حفاظت اور رکھ رکھاؤ کے معاملے میں کتنے بہتر ہیں سب جانتے ہیں، کیا یہ ممکن نہیں تھا اور کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ مسلمان بھی اپنے رہائشی علاقے بہتر بنائیں؟ دیکھنے میں آیا ہے کہ مسلمان بلڈرس زیادہ بد دیانت اور زیادہ منافع پرست واقع ہوئے ہیں، مزید یہ کہ مسلمان بلڈرس اور سرمایہ داروں نے منصوبہ بند آبادی کے بجائے منافع خوری پر توجہ مرکوز کی ہے جس کے نتیجے میں مسلمان رہائشی علاقے جیتے جاگتے عبرت کا نشان بن گئے ہیں، دہلی کے اوکھلا علاقے میں اور فلسطین کے غزہ پٹی میں زیادہ فرق باقی نہیں رہا ہے، بلکہ غزہ میں کم از کم اسکولز، اسپتال، پارک، اور بہتر رہائش تو موجود ہے، کانپور، لکھنؤ، بنارس، اعظم گڑھ، علی گڑھ، مرادآباد، سمیت اتر پردیش، بہار، بنگال، آسام، مدھیہ پردیش کی گھنی مسلم آبادیاں اُبلنے کو تیار ہیں، خواتین اوربچے اس بد انتظام اور غیر منصوبہ بند شہر کے سب سے بڑے شکار ہیں، مسلمان نوجوان اپنے علاقوں میں اپنی تخلیقیت کو فروغ دینے اور اس کو استعمال کرنے سے محروم ہیں، جب ملت کا سب سے قیمتی طبقہ اپنی استعداد کو ہی استعمال کرنے سے محروم ہو تو اس ملت کی ترقی محض استثنائی حالات میں ہی ممکن ہے، اس کا اندازہ آپ مسلم اور غیر مسلم نوجوانوں میں آمدنی کے بڑھتے فاصلے سے دیکھ سکتے ہیں، ملک میں ایک ہزار کامیاب نئی کمپنیاں جنہیں عام نوجوانوں نے شروع کیا ہو، اس کی فہرست دیکھیں۔غیر ملکی زبانیں سیکھنے میں، مقابلہ جاتی کوچنگ میں، بہترین کورسز چلانے والوں میں مسلمان علاقے بیحد پسماندہ ہیں۔
لیکن اب کیا ہو سکتا ہے؟ مکانات تو توڑ کر پھر سے نہیں بنائے جا سکتے، لیکن پھر بھی سارے متبادل ہیں، سب سے پہلے تو جو نئے علاقے آباد کیے جارہے ہیں ان کو برباد ہونے سے بچائیں، وہاں بلڈرس اور زمین مافیا کے خلاف سخت عوامی پریشر بنائیں، اگرچہ وہ بظاہر کتنے ہی دیندار نظر آئیں، ایک بہتر رہائشی علاقہ کا نقشہ کوئی بھی آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم کے با صلاحیت نوجوان اور ان کی کمپنیاں بنا کر دے سکتی ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ جو علاقے آباد ہوچکے ہیں ان میں شہری سہولیات کے لیے عوامی بیداری کی تحریک ہو، اس کے لیے مساجد اور مدارس بھی آگے آئیں، گلیوں اور محلوں کی سطح پر کمیٹیاں بنیں جو آپسی اتفاق سے لازمی سہولتوں کے لیے جگہ نکالیں، مثلاً بچوں کے لیے جھولے، کھیلنے کی جگہ، خواتین کے لیے ورزش کی جگہ، لڑکیوں کے لیے ریڈنگ رومز، اسی طرح سے علاقے کو صحت مند بنانے کے لیے صفائی کا اہتمام ہو، اپنی اپنی گلیاں صاف رکھنے پر کمیٹیاں سختی سے نگرانی کریں، مسلمان علاقوں سے پیڑ پودے اور ہریالی تو گویا ناپید ہوچلی ہے، کیا مسلمان محلوں میں پیڑ پودوں کا اہتمام کرنا اتنا مشکل ہے؟ میرے مشاہدے میں شمالی ہند کے مسلمانوں نے اپنے علاقوں سے پیڑ پودے ختم کر دیے ہیں، اب تو گھروں میں بھی پودوں کا اہتمام نہیں ہوتا، مسلمان اپنے بچوں کو کس قسم کا شہری شعور دینا چاہتے ہیں جس میں نہ صفائی ہے، نہ ماحولیات ہے، نہ پڑھنے لکھنے ،روزگار، صلاحیتوں کے ارتقا پر خصوصی توجہ میں ہے۔ سوشل میل ملاپ کے لیے جرمنی کے ہر اسلامی مرکز میں یوم پیدائش، ختنہ، عقیقہ، نکاح کے لیے لوگوں نے اسلامی مراکز بنا رکھے ہیں، جہاں مناسب قیمتوں پر لوگ اپنی تقریبات انجام دیتے ہیں۔ ہندوستانی مساجد مسلسل اپنا اصلی کردار کھوتی جارہی ہیں اور یوروپ میں مساجد زیادہ بہتر اور زیادہ سرگرم ہورہی ہیں، ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی آبادیوں کو ایک رفیوجی کیمپ کی طرح بسانے کے بجائے ایک تہذیبی، ثقافتی، علمی اور اخلاقی ماڈل بنانے کے لیے بسانا ہوگا، ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے اچھے شہروں اور آبادیوں کو بسانے کی ضرورت ہے جہاں سے وہ دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی والی معیشت اور آخرت میں کامیاب بنانے والی اخلاقی قدروں کو ایک ساتھ برت سکیں۔
(مضمون نگار انقرہ یلدرم بیازت یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور دہلی میں قائم سینٹر فار اسٹڈیز آف پلورل سوسائٹیز کے ڈائریکٹر ریسرچ ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS