اسپتالوں میں اردو :ایک خوش آئند قدم

0

ڈاکٹر خالد اختر علیگ

اس مضمون نگار نے گزشتہ کئی سالوں میں اردو کی صورت حال پر جو چند مضامین لکھے ہیں ،ان میں یہ اعادہ کیا گیا ہے کہ اردو بستر مرگ پر پڑی ہوئی کسی ایسے معالج کی راہ دیکھ رہی ہے جو اس کے جسم میں بے اعتنائی ،بدسلوکی اور سوتیلے پن کے سبب لگنے والے گہرے زخموں کو مرہم لگا سکے ۔لیکن یہ خواہش تو پوری نہیں ہوئی ہاں یہ ضرور ہوا کہ یکم ستمبر کوریاست اتر پردیش کے ڈائریکٹر ہیلتھ ڈاکٹر سیلیش کی جانب سے تمام اضلاع کے چیف میڈیکل افسران کو یہ ہدایت جاری کی گئی ہے کہ گاؤوں میں قائم873 کمیونٹی ہیلتھ سنٹرز(سی ایچ سی)، 2934پرائمری ہیلتھ سنٹرز(پی ایچ سی) اور 167 ضلع اسپتالوں کے سائن بورڈوں ،معالجین اور اہلکاروں کے نام کی تختیوں اور دیگر نشانیوں پر بھی ہندی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی معلومات درج کی جائیں۔لکھنؤ سے متصل شہر اناؤ کے باشندے محمد ہارون نے ایک خط لکھ کر شکایت کی تھی کہ اردو کو دوسری سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کیے جانے کے باوجود اتر پردیش کے مختلف محکموں میں اس پر عمل نہیں کیا جارہا ہے،اس خط میں میڈیکل اینڈ ہیلتھ محکمہ میں بھی اس کی عدم تعمیل کی شکایت کی گئی تھی۔ اردو اتر پردیش ریاست کی دوسری سرکاری زبان ہے،محکمہ زبان نے یوپی آفیشل لینگویجز ایکٹ 1951 میں سیکشن 3 کا اضافہ کرتے ہوئے یوپی سرکاری زبان (ترمیمی) ایکٹ کے تحت 7؍اکتوبر 1989کو اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا،اردو کے عملی اظہار کے لیے 19؍ نومبر1990ء کو ایک سرکاری حکم نامہ جاری کیا گیا ،وقفہ وقفہ سے اس پر عمل درآمد کے لیے ہدایات بھی جاری کی جاتی رہی ہیں ،لیکن اس پر کبھی بھی سختی سے عمل نہیں کیا جاسکا،اب ایک بار پھر محکمہ میڈیکل اور ہیلتھ نے اس حوالے سے ہدایات جاری کی ہیں۔ اب اس پر کتنا عمل ہوتا ہے ،یہ تو تب ہی پتہ چلے گا،جب اس کے عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے گا۔اس خبر نے مجھ جیسے اردوخواندگان میں یقینا خوشی کی ایک لہر دوڑا دی ہے، عوامی سطح پر اردو کا ظہور آنکھوں کو خیرہ کرتا اور دل کو سکون بخشتا ہے۔ اتر پردیش کے ضلع لکھیم پور کھیری میں مرکزی حکومت کے ادارے مرکزی تحقیقی کونسل برائے طب یونانی کے ذریعہ امراض غیر متعدیہ کی روک تھام اور اس کے یونانی علاج کے لیے تحقیقی پروگرام کے تحت ایک کمیونٹی ہیلتھ سنٹر پر تقریباً پانچ سال تک بطور یونانی معالج اور تحقیقی معاون کا م کرنے کے دوران اردو کی ناموجودگی بڑے قلق کا سبب بنتی تھی ،ہمارے پروگرام میں مریضوں کو کینسر،ذیابیطس،ہائی بلڈ پریشر،فالج،خون میں کولیسٹرول کی زیادتی سے متعلق معلومات کے کتابچے بھی تقسیم کرنا تھا ،جس میں مرض سے بچاؤ اور اس کے لیے تحفظی تدابیر درج ہوتی تھیں۔سی ایچ سی میں آنے والی آبادی کی بڑی تعداد ان لوگوں پر مشتمل تھی جو اردو پڑھ سکتے تھے لیکن وہ انگریزی اور ہندی سے واقف نہیں تھے ،لیکن وہاں جو کتابچے بھیجے گئے تھے وہ صرف انگریزی اور ہندی میں تھے۔جس کی وجہ سے اردوداں طبقہ وہ فائدہ نہیں اٹھا پا رہا تھا جو دیگر زبانوں سے واقف لوگ اٹھا سکتے تھے۔ اس مضمون نگار نے متعلقہ پروگرام کے اعلیٰ افسران سے کئی بار اردو زبان میں کتابچے فراہم کرنے کے لیے کہا لیکن اس میں کامیابی نہیں مل سکی۔یہ بس ایک مثال تھی جس کو بتانے کا مقصد یہی ہے کہ اگر صحت سے متعلق معلومات لوگوں کو ان کی زبان میں دی جائیں تو نہ صرف لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ مشوروں پر بھی عمل کرتے ہیںجو ایک صحت مند معاشرہ تشکیل کرنے میں مدد کرتا ہے ۔سرکاری اسپتالوں میں عموماً ساری معلومات ہندی زبان میں لکھی جاتی ہیں،جو لوگ ہندی اور انگریزی سے واقف ہوتے ہیں وہ سہولیات سے زیادہ سرعت سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں لیکن ان سے نا واقف لوگ ادھر ادھر بھٹکتے رہتے ہیں،محکمہ صحت کی جانب سے اکثر و بیشتر متعدی امراض سے متعلق معلومات کی بڑی بڑی ہورڈنگ لگائی جاتی ہیںتاکہ اسپتال آنے والے مریض ان سے واقف ہوسکیں اور اپنی و اہل خانہ کی حفاظت کرسکیں،اسی طرح صحت سے متعلق مالی معاونت کی بہت ساری اسکیمیں چلائی جاتی ہیں جن سے غریب و نادار طبقات فائدہ اٹھا سکتے ہیں ،لیکن یہ ساری معلومات اردو داں طبقہ تک مناسب ذرائع سے نہیں پہنچ پاتی ہیں ۔ گھریلو خواتین جنہوں نے گھر پر تعلیم حاصل کی ہے ،وہ بزرگ جو صرف اردو ہی جانتے ہیں حکومت کے اس فیصلے سے یقیناراحت محسوس کریں گے ۔
لکھنؤ کے پرانے شہر میں واقع کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی جہاں روزانہ ہزاروں لوگ علاج کے لئے ریاست بھر سے آتے ہیں، جن میں بہت بڑی تعداد اردو دانوں پر مشتمل ہے، لیکن اتنی بڑی یونیورسٹی میں ایک چھوٹا سابھی بورڈ یا احکامات اردو میں لکھے ہوں ،نظر نہیں آتا۔ایسی صورت حال میں وہ لوگ جو صرف اردو جانتے ہیں ان کی پریشانیاں دو بالا ہوجاتی ہیں،وہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک چکر لگاتے رہتے ہیں۔ اہل لکھنؤ بالخصوص اردو محافظین کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اردو کے مرکز وہ بھی قدیم شہر میں موجود اس ادارے میں اردو زبان میں شعبہ جات کی نشاندہی کرنے والے بورڈ آویزاں کرانے کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ سے گفت و شنید کرتے ،لیکن میری دانست میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے کہ جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ اس حوالے سے کوئی گفت و شنید ہوئی ہو۔
اب یہاں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ محکمہ کی جانب سے اردو میں جو بورڈ لگائے جائیں گے کیا وہ اردو میں ہوں گے ،یاصرف ان کا رسم الخط ہی اردو والا ہوگا۔واقعہ یہ ہے کہ مطالبات کے نتیجے میں بورڈ تو لکھ دئے جاتے ہیں مگر ان کی زبان ہندی ہوتی ہے اور رسم الخط( فارسی،نستعلیق جس میں اردو لکھی جاتی ہے )ہوتا ہے ۔کئی بار تو کوئی ماہر فن پینٹر اپنے فن کا مظاہرہ اردو عبارت کے ساتھ ہی کرتا ہے ،جس کا پڑھنا مشکل امر ہوتا ہے۔یہاں قابل ذکر نکتہ یہی ہے کہ ہندی میں کسی شخص کے نام کو چھوڑ کر جو کچھ بھی لکھا ہے اس کا مناسب اردو متبادل تحریر کیا جائے ،مثال کے طور پر پراتھمک سواستھ کیندر کو ابتدائی صحت مرکز لکھاجائے،سامودایک سواستھ کیندر کو کمیونٹی صحت مرکز،چکتسا ادھیکاری کو صحت افسر لکھا جائے وغیرہ۔اردو اکادمی حکومت کا ہی اہم ادارہ ہے، جس کے ذمہ اردو کی ترویج و اشاعت ہے ،یہ اس کی اہم ذمہ داری ہے کہ صحت سے متعلق جو ہندی اور انگریزی الفاظ استعمال ہورہے ہیں ،ان کے مناسب اردو مترادفات کی ایک فہرست اردو ،ہندی اور انگریزی کے ماہرین کی نگرانی میںتیار کراکے محکمہ صحت کے ذمہ داران کواس عرضداشت کے ساتھ پیش کرے کہ جو کچھ بھی اردو میں لکھا جائے و ہ اس فہرست کے مطابق ہو ،اس طرح اردو اکادمی بھی اردو کی کچھ خدمت کرسکے گی ۔اتر پردیش میں اردو کی حالت دگر گوں ہے، اردو میڈیم اسکول ناپید ہیں، سرکاری اسکولوں میں اردو اساتذہ ناپید ہیں، جہاں اساتذہ ہیں وہاں اردو پڑھنے والے بچے نہیں ہیں ،وہ جو خود کومحافظ اردو کہتے نہیں تھکتے ان کی تگ دو اردو کے عملی نفاذ کے بجائے بس چند عدد سیمنار، کانفرنس اور سرٹیفیکٹ تک محدود ہے ،ایسے میں ایک خاموش محب اردو محمد ہارون کی کوشش کو صدہا سلام پیش کرتا ہوں ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS