ڈبلیو ایچ او نے تنہائی کو عالمی صحت کے لیے خطرہ قرار دے دیا

0

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے تنہائی کو عالمی صحت کے لیے خطرہ قرار دے دیا ہے۔اس نے تنہائی کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے ایک کمیشن قائم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر چار میں سے ایک بالغ شخص تنہائی کا شکار ہے جبکہ پانچ سے 15 فی صد نوعمر افراد کو بھی تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ماہرین کے مطابق کرونا وبا کے دوران محدود ہونے والی معاشی اور سماجی سرگرمیوں کے دوران لوگوں میں تنہائی کی شرح بڑھی، لیکن اسی دوران اس مسئلے کی اہمیت بھی اُجاگر ہوئی۔ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ کوئی بھی، کہیں بھی، تنہا یا سماجی طور پر الگ تھلگ ہو سکتا ہے۔ تمام عمروں اور خطوں میں، تنہائی ہماری جسمانی اور ذہنی صحت اور ہماری کمیونٹیز اور معاشرے کی فلاح و بہبود پر سنگین اثرات مرتب کرتی ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ کمیشن آن سوشل کنیکشن (2026-2024) کا مقصد اسی مسئلے کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنا اور اسے صحتِ عامہ کے مسئلے کے طور پر اہمیت دلانا ہے۔کمیشن صحتِ عامہ کے اس مسئلے کے حوالے سے ایک عالمی ایجنڈا تجویز کرے گا اور ماہرین کے ساتھ مل کر عملی اقدامات کے لیے سفارشات پیش کرے گا۔کمیشن میں امریکہ سمیت خطے کے مختلف ملکوں کے ماہرین شامل کیے گئے ہیں۔
تنہائی جلد موت کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ سماجی طور پر الگ تھلگ افراد میں جلد موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے باعث کسی فرد میں ڈپریشن، بے چینی، ڈیمنشیا کی علامات بھی سامنے آ سکتی ہیں۔اس کی وجہ سے امراضِ قلب اور فالج کے خطرات بھی بڑھ سکتے ہیں اور خودکشی کے خیالات بھی جنم لے سکتے ہیں۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق سماجی تنہائی صرف ایک شخص پر اثراانداز نہیں ہوتی بلکہ اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ تحفظ، خوشحالی اور مؤثر حکمرانی کا دارومدار بھی اسی بات پر ہوتا ہے کہ اسکولوں، دفاتر اور محلوں میں لوگ کس طرح سماجی طور پر آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
تنہائی کے مضر اثرات روزانہ 15 سیگریٹ پینے جتنے ہی ہیں۔اس سے قبل رواں برس امریکی سرجن جنرل وویک مورتی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ تنہائی اتنی ہی خطرناک ہے جتنا روزانہ 15 سیگریٹ پینا۔اُن کا کہنا تھا کہ تنہائی کا سامنا کسی بھی عمر اور کسی بھی جگہ رہنے والے افراد کو ہو سکتا ہے۔وویک مورتی کا کہنا تھا کہ تنہائی کے اثرات اُن افراد پر زیادہ پڑ سکتے ہیں جو زیادہ ورزش نہیں کرتے اور موٹاپے جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ll

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS