کردار جودل موہ لے کب سامنے آئے گا

0

لوگ تنہا نہیں رہ سکتے، ایک دوسرے کے ساتھ مل کررہتے ہیں۔ ان کا یہ میل ملاپ اور مزاج سماج کے تانے بانے کو بنتا ہے۔ لوگ یہ جانے بغیر کہ ان کے پاس موجود شخص کون ہے، کہاں کا ہے، نام کیا ہے، رنگ ونسل کیا ہے عام حالات میں اس کے لئے اپنے اندر ہمدردی کا جذبہ پاتے ہیں۔ اس کا مشاہدہ ہر کوئی اپنے روز مرہ کے معمولات میں کرتا ہے۔ سفر کے دوران یا راہ چلتے اچانک اگر کوئی لڑکھڑا جائے تو اس کو سہارا دینے کے لئے آس پاس موجود لوگوں کے ہاتھ بڑھ جاتے ہیں۔ اگر کوئی کسی بھی قسم کے حادثہ کا شکار ہوجائے تو لوگ فوراًاس کی مدد کو دوڑ پڑتے ہیں۔ کسی کو کوئی پریشانی لاحق ہو یا ضرورت پیش آجائے تو لوگ بلا تردد اپنی خدمات پیش کردیتے ہیں۔ یہ سماجی مزاج ہے جو ایسے کسی بھی موقع پر یہ نہیں دیکھتا کہ سامنے کون ہے، اس کی ذات، مذہب، رنگ ونسل اور علاقہ کیا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنا اپنی بنیادی ذمہ داری اور اپنا اہم کردار تصور کرتے ہیں۔
سماج کا یہ کرداریقینا بنیادی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کو پیدا کرنے والے نے بغیر کسی امتیاز کے اسے بڑی خوبیوں سے نوازا ہے اور بہت عزت بخشی ہے’’ اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی‘‘(الاسراء :70)۔ پیدا کرنے والے نے یہ بھی بتادیا کہ ’’ ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا‘‘۔ اس عزت، فضیلت اور برتری کا تقاضہ ہے کہ انسان اپنے بنیادی کردار کو کبھی فراموش نہ کرے بلکہ یہ جاننے کی کوشش کرے کہ پیدا کرنے والے نے اس کو وجود کیوں بخشا۔ لیکن انسان نہ تو اپنے وجود کے مقصد کو جان پایا ہے اور نہ ہی اپنے اس کردار کو صحیح طریقہ سے محفوظ رکھ پایا ہے۔ اس کے برخلاف اس وقت جو صورت حال ہے وہ سامنے ہے۔ آج کا سماج عمومی طور پر الٹی سمت میں چل پڑا ہے۔ وہ اس کام میں لگ گیا ہے جس سے اس کو پیدا کرنے والے نے منع کیا تھا کہ ’’اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپاؤ‘‘(البقرۃ:42)۔ خاص طور پر ہمارے ملک میں اس وقت حق اور باطل کو آپس میں خلط ملط کرنے کی کوشش پر زور طریقہ سے کی جارہی ہے۔ جان بوجھ کر حق اور سچ کو چھپایا جارہا ہے اور کھلے عام پوری شدت کے ساتھ غلط باتوں کا پرچار کیا جارہا ہے۔
اس وقت بڑے پیمانے پر ادھورا سچ وہ بھی پیشہ ورانہ طریقہ پر پیش کیا جارہا ہے۔کوشش ہورہی ہے کہ کسی صورت سماج کو جھوٹ کے ملبے کے نیچے دبا دیا جائے۔ اس کوشش کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو گمراہ کیا جائے، ان کے ذہنوں کو پراگندہ کیا جائے، انہیں ورغلایا جائے، اپنے مقاصد کے لئے انہیں استعمال کیا جائے۔ گویا انسانوں کو ان کے حقیقی کردار سے ہٹانے کی یہ ساری کوشش اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی خاطر ہو رہی ہے۔ اس کا اثر دکھ بھی رہا ہے اور لوگ بہکاوے میں آ بھی رہے ہیں لیکن ان کی تعداد وہ نہیں ہے جو انہیں گمراہ کرنے والے بتاتے ہیں یا بتانا چاہتے ہیں۔ تعداد تو تھوڑی ہے لیکن طاقت و اختیار سے قریب ہے، اس لئے یہ اپنے مقصد کو پورا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کے بالمقابل بڑی تعداد اب بھی اس گمراہی کو قبول کرنے سے انکار کر رہی ہے۔ وہ ان حالات میں بھی انسانیت اور انسان کے بنیادی کردار کو زندہ رکھنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ لوگ گمراہی کے مکڑجال میں نہ پھنسیں بلکہ اس مقصد کی طرف توجہ کریں جس کی طرف ان کا ضمیر انہیں متوجہ کرنا چاہتا ہے۔
ضمیر جو لوگوں کو اچھائی کے لئے آمادہ کرتا ہے اور برائی سے خبردار کرتا ہے اس کو انسانوں کے پیدا کرنے والے نے ہر ایک کے اندر رکھا ہے۔ کچھ اس کی سنتے ہیں، اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور کچھ ہیں جو اسے نظرانداز کرتے ہیں اور اسے کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ضمیر کی آواز کو سننا ان لوگوں کے لئے انتہائی لازم ہے جن کے پاس اپنے پیدا کرنے والے کا پیغام پوری وضاحت، حفاظت اور اصل شکل میں موجود ہے اور وہ خود کو پیدا کرنے والی ہستی کو پہچانتے ہیں اور اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انسان کے حقیقی کردار کو لوگوں کے سامنے چلتا پھرتا پیش کریں۔ ان پر نظر پڑتے ہی لوگ چین وسکون کی سانس لیں۔ ان سے معاملات کرتے وقت لوگوں کو یہ یقین ہوکہ ان کے ساتھ دھوکہ نہیں ہوگا، بے ایمانی نہیں ہوگی، جھوٹ نہیں بولا جائے گا، کوئی فریب نہیں دیا جائے گا، ان کی عزت اور حرمت پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ اس لئے کہ ان کا کردار لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ہے، ہمدردی اور خیر خواہی کرنا ہے، سچ بولنا ہے، انصاف کرنا ہے، بلند اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے، ہر صورت انسانیت کی بقا اور انسان کا تحفظ کرنا ہے اور ضروت پڑنے پر اس کے لئے اپنا نقصان بھی برداشت کرلیناہے۔
لوگوں کو یہ یقین ہو کہ جب یہ کسی سے وعدہ کرتے ہیں تو پورا کرتے ہیں، معاہدہ کرتے ہیں تو اسے نبھاتے ہیں۔ یہ برائی، فواحش اور حرام کاموں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ کسی سے ناراض ہوتے ہیں تو ان کی ناراضگی انہیں انصاف اور حق سے نہیں ہٹاتی ہے۔ انسان کو پیدا کرنے والے کا یہ حکم ہمیشہ ان کے سامنے رہتا ہے کہ ’’ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو‘‘(المائدہ:2)۔ کیا واقعی اپنے خالق اور مالک کو پہچاننے والے لوگ اس وقت اپنے مطلوبہ کردار پر قائم ہیں یا اس کردار کو کھوچکے ہیں، یہ بات دیکھنے والی ہے۔ ایمان والے اپنے کردار کو کھونے کے نتیجہ میں لوگوں کے لئے نمونہ اور امید بننے کی جگہ خود کو ذلت اور بیچارگی کا ٹھکانہ بنا بیٹھے ہیں۔ اگر یہ واقعی چاہتے ہیں کہ اپنا کھویا ہوا مقام واپس پالیں تو انہیں اپنے کردار کو مثالی بنانا ہوگا۔ ایسا کردار جو لوگوں کے دلوں کو موہ لے، اسے دیکھ کر رشک آئے، اس کا حسن لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلے اور اس کی خوشبو چہار جانب پھیل جائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS