کانگریس ’غلامی‘ سے کب ہوگی آزاد

0

جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور ہندوستانی سیاست کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے آخر کار کانگریس کو الوداع کہہ ہی دیا۔ پارٹی کی عبوری صدر سونیا گاندھی کو لکھے پانچ صفحات کے لمبے استعفیٰ نامے میںانہوں نے پارٹی کی ابتدائی رکنیت سمیت سبھی عہدوں سے استعفیٰ دینے کا ذکر کیا۔ پارٹی سے رشتہ تو ایک لائن لکھ کر بھی توڑا جاسکتا تھا لیکن اتنا لمبا استعفیٰ نامہ شاید اس لئے کیونکہ پانچ دہائیوں سے بھی زیادہ وقت تک وہ جس پارٹی کے ساتھ رہے، اس سے ہاتھ چھڑانے کے لئے گلے شکوے کی فہرست بھی کافی لمبی ہونی چاہئیے تھی۔ مگر استعفیٰ میں ان کے من کی بہت ساری باتیں ہیں، لیکن خاص طور سے نشانے پر راہل گاندھی ہیں، جن پر غلام نبی آزاد نے ’پارٹی کے پورے مشاورتی ڈھانچے اور بحث کی روایت کو ختم کرنے اور اپنے ناتجربہ کار چاپلوسوں کے دم پر پارٹی چلانے‘ کا الزام لگایا ہے۔
استعفیٰ دے کر غلام نبی آزاد اب کانگریس لیڈران کی اس لمبی قطار میں شامل ہوگئے ہیں، جنہوں نے راہل گاندھی کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے اپنے لئے سیاست کی نئی راہ چننے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھی المیہ ہے کہ حال کے دور میں کانگریس چھوڑنے والے زیادہ تر لیڈر یا تو غلام نبی آزاد کی طرح گاندھی کنبے کے پرانے ’وفادار‘ تھے یا پھر راہل گاندھی کے قریبی اور تقریباً سبھی راہل میں قیادت کی کمی اور ان کی جوابدہی کو لے کر ایک رائے نظر آئے ہیں۔
7سال پہلے جب ہیمنت بسوا سرما نے کانگریس چھوڑی تھی تو ان کے استعفیٰ کے بجائے راہل کے پالتو شوان کوبسکٹ کھلانے والے قصے کا زیادہ ذکر ہوا تھا۔ یہ بتاتا ہے کہ کانگریس ہی نہیں، ہندوستانی سیاست نے بھی سرما کے استعفیٰ کو استثنیٰ مان کر کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی۔ ’ایک وقت آئے گا جب کانگریس میں صرف ’گاندھی‘ ہی رہ جائیں گے اور باقی سبھی چلے جائیں گے‘ والی ان کی پیش گوئی کو بھی ایک ناراض نوجوان لیڈر کا بڑبولا پن سمجھ کر خارج کردیا گیا تھا، لیکن اس واقعہ کو ہلکے میں لینا کانگریس کو بھاری پڑا ہے۔ گزشتہ 8سال میں 400سے زیادہ لیڈر کانگریس چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں 33بڑے لیڈر شامل ہیں۔ موجودہ سال کے 8مہینوں میں ہی 12بڑے لیڈر کانگریس سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں۔ اور اب جب غلام نبی آزاد پارٹی سے دور ہوئے ہیں تو استعفیٰ کی ان کی زبان بھلے الگ ہو، لیکن منزل وہی ہے جو سرما کی تھی۔ آزاد نے اپنے استعفیٰ میں کہا ہے کہ کانگریس اب اس حالت میں پہنچ گئی ہے جہاں سے اس کی واپسی ممکن نہیں ہے۔
اتنے بڑے معاملے پر بھی کانگریس کی طرف سے حیران کرنے والا رد عمل آیا ہے۔ کانگریس نے ایک بار پھر وہی ’پرانی ہویلی کے زمیندار‘ والی صورت دکھائی ہے۔ وزیر اعظم سے ان کی نزدیکیوںکا حوالہ دے کر پارٹی کے 5دہائی کے ’خدمتگار‘ کو ’جی این اے (غلام نبی آزاد) کے ڈی این اے کا ’مودی فائڈ‘ ہونے‘ جیسے طعنوں سے وداع کیا جارہا ہے۔ سینئر سے لے کر نوجوان کانگریسی خود کو راہل کے پیروکار بتانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔
لیکن پارٹی کے اندر ’بغاوت نہیں، بلکہ اصلاح کا بیڑا اٹھانے‘ کی بات کہہ کر آزاد کے استعفیٰ پر سوال تو گروپ 23-میں شامل ناراض لیڈر سابق ممبر پارلیمنٹ سندیپ دیکشت نے بھی اٹھائے ہیں۔ آخر ایسی کیا بات ہوئی کہ آزاد کو بغاوت کا جھنڈا اٹھانے کے لئے مجبور ہونا پڑا۔ اس کی دو وجہیں دکھائی دیتی ہیں۔ پہلی وجہ ذاتی ہے۔ کانگریس نے جب انہیں جموں و کشمیر میں ریاستی سطح کی کمیٹی کا سروے سروا بنایا تو آزاد کو یہ ذمہ داری اپنے قد کے مناسب نہیں لگی۔ اشارہ واضح تھا کہ پارٹی اب ان کے بارے میں زیادہ دور تک نہیں سوچ رہی ہے۔ دوسری وجہ پارٹی کے مستقبل سے جڑی دکھائی دیتی ہے۔ دو سال سے کانگریس اپنا صدر نہیں تلاش کرپائی ہے۔ بار بار الیکشن ٹالنے کے بعد اس بار 20اگست سے 21ستمبر کے بیچ انتخابی عمل پورا ہونا تھا، لیکن اسے لے کر کوئی تیاری نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ پھر الیکشن ٹلنے کے اندیشے اور جوں کے توںصورت حال برقرار رہنے کی ناامیدی نے بھی آزاد کو کانگریس سے ’آزاد‘ ہونے کی ترغیب دی ہوگی۔
اتنے لمبے وقت سے کانگریس کا الیکشن ملتوی ہونے کے پیچھے بھی کئی لوگ راہل گاندھی کو ذمہ دار مانتے ہیں۔ چھوٹے موٹے اندرونی اختلاف اور تمام انتخابی ناکامیوں کے باوجود ابھی بھی زیادہ تر کانگریسیوں کی نظر میں راہل ہی کانگریس کا بیڑا پار لگاسکتے ہیں،لیکن راہل بغیر ذمہ داری والی سیاست کرنا چاہتے ہیں اور عہدۂ صدارت سے استعفیٰ دینے کے بعد سے ہی اس عہدے پر غیر گاندھی کو لانے کی ضد پکڑے ہوئے ہیں۔ آخری غیر گاندھی صدر 1996اور 1998کے بیچ سیتا رام کیسری تھے۔ پھر سال 2001میں جب آنجہانی کانگریس لیڈر جتیندر پرساد نے سونیا گاندھی کے خلاف الیکشن لڑا تھا تو انہیں صرف 94ووٹ ملے تھے۔
عہدۂ صدارت کو لے چہ می گوئیاں صرف کانگریس ہی نہیں، جی23-میں بھی ہے۔ آزاد کی ہی طرح ناراض چل رہے آنند شرما آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ 2019میں جب راہل گاندھی نے انتخابی ہارکی ذمہ داری لیتے ہوئے استعفیٰ دیا تو کسی نے انہیں ایسا کرنے کے لئے نہیں کہا تھا۔ کانگریس کے لئے یہ اہم ہے کہ نہرو -گاندھی کنبہ پارٹی کاجزء لاینفک بنا رہے ہیں۔ آزاد کو لگا کہ انتخابی عمل سے منتخب ہو کر آیا صدر بھی کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہوگا۔ پھر آزاد نے ایک ایسے وقت میں پارٹی چھوڑی ہے، جب کانگریس بھارت جوڑو یاترا کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ ان کے جیسے لیڈر کا کانگریس سے نکلنا پرسیپشن کے معاملے میں بھی پارٹی کو کمزور کرتا ہے۔ پارٹی کے لیڈران سے ملاقات میں ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ قیادت تو دور، سپریم لیڈر کسی طرح کی دانشورانہ یا نظریاتی رہنمائی کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔حال کے دنوں میں، پارٹی صرف تبھی سڑکوں پر اتری ہے، جب سونیا اور راہل سے نیشنل ہیرالڈ معاملے میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے پوچھ گچھ کی۔ ایسا لگتا ہے کہ کانگریس ابھی بھی 70کی دہائی سے بدنام رہی کوٹری میں الجھی ہے، جبکہ ملک آگے بڑھ چکا ہے۔ اب جبکہ ملک 2024میں اپنی اگلی بڑی انتخابی لڑائی کی تیاری کررہا ہے، تو راہل گاندھی یہ طے نہیں کرپارہے ہیں کہ ان کا دشمن نمبر ایک کون ہے۔ بی جے پی یا ان کی دادی اور ماں-باپ کے زمانے کے پرانے کانگریسی؟ وہیں کانگریس کے اندرون خانہ اس بات کی فکر ہے کہ اگر پارٹی اپنے داخلی الیکشن نہیں کراسکتی ہے، تو وہ ملک کو جیتنے کا بڑا کام کیسے کرے گی؟
بڑا چیلنج اس بات کا ہے لوک سبھا کی لڑائی میں منتشر،بکھری ہوئی اپوزیشن کی قیادت کون کرے گا؟ اپنے قومی خاکہ کے سبب عام طور پر کانگریس کو وہ کام کرنا چاہیے تھا، لیکن اب نتیش، کجریوال، ممتا بنرجی اور تلنگانہ کے کے سی آر جیسے دیگردعویدار بھی ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ شردپوار اور ممتا سمیت کئی سینئر اپوزیشن لیڈر نہ تو راہل کا احترام کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں راہل اپوزیشن کو متحد ہونے کی راہ کا روڑہ بنتے بھی دکھائی دے رہے ہیں اور ان کے وزیر اعظم بننے کے خواب کو حکمراں پارٹی بی جے پی ہی نہیں، بلکہ پوری اپوزیشن ایک مذاق ماننے لگی ہے۔ بی جے پی تو مانتی ہے کہ نریندر مودی کے خلاف وزیر اعظم عہدے کے اپوزیشن چہرے کی شکل میں راہل کی دعویداری اس کے لئے وردان سے کم نہیں ہے، حالانکہ یہ گاندھی کنبے کو میدان سے ہٹانے کی حکمت عملی بھی ہوسکتی ہے، لیکن مسائل توہیں۔
المیہ یہ ہے کہ کئی ناکامیوں اور چیلنجز کے باوجود کانگریس کے پاس ابھی بھی ایک باصلاحیت اور تجربہ کار تنظیمی بنیاد والی ایسی تنظیم ہے جو رائے دہندگان کو کسی بدلائو کے لئے ترغیب دے سکتی ہے ، لیکن اس کے لئے ضرورت ہے ایک ایسی قیادت کی جو نئے پرانے لیڈران کے گلے شکوے مٹاکر پارٹی میں نئی جان پھونک سکے، لیک سے ہٹ کر نیا سوچ سکے اور کانگریس کو زیادہ عملی بناسکے۔ سوال ہے کہ کانگریس خود اس کے لئے کہاں تک تیار ہے؟
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS