احمدآباد سے حیدرآباد تک کا منظرنامہ: جمہوری طرز عمل ہی کامیابی کا ضامن

0

پروفیسر اختر الواسع

15 اگست کو جب پورا ملک وزیر اعظم کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے ہندوستان کی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا تھا اور 76ویں یومِ آزادی کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی لال قلعہ کی فصیل سے قوم کو خطاب کر رہے تھے اور اس میں عورتوں کی تعظیم، ان کی خود اختیاری، قومی تعمیر و ترقی میں ان کی بھاگیداری کی تلقین کر رہے تھے اسی وقت ان کی آبائی ریاست گجرات میں انہیں کی پارٹی کی ریاستی حکومت کچھ اور ہی فیصلہ کیے بیٹھی تھی اور ابھی وزیر اعظم کی لال قلعہ سے کی گئی تقریر کی گونج ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ حکومت گجرات نے وزیر اعظم کی خواتین سے متعلق تقریر پر نکیر کرتے ہوئے یہ دھماکہ خیز اعلان کردیا کہ وہ لوگ جو ساڑھے پانچ مہینے کی ایک حاملہ خاتون بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی طور زنا بالجبر کے مرتکب ہوئے تھے، جنہوں نے بلقیس کی تین ساڑھے تین سال کی معصوم بچی کو بھی تقریباً ایک درجن افراد کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور پھر گجرات میں جن کی داد رسی بھی نہ ہوئی اور پھر ممبئی میں سی بی آئی کی عدالت نے 11 افراد کو اس بہیمانہ جرم اور وحشیانہ حرکت کے لئے عمرقید کی سزا سنائی۔ خطاکار اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں بھی گئے لیکن ممبئی ہائی کورٹ نے بھی سزا کو جوں کا توں بحال رکھا اور اب ان کو باعزت طور پر نہ صرف رہائی دی گئی بلکہ تلک لگاکر، پھولوںکاہار پہنا کر، مٹھائی کھلا کر ان کا استقبال بھی کیا گیا۔ اتنا ہی نہیں گجرات کے ایک بی جے پی کے ایم ایل اے نے جو کہ اس سرکاری کمیٹی کا ممبر بھی تھا جس نے ان کی رہائی کی سفارش بھی کی تھی، ان کی رہائی کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ یعنی سزایافتگان برہمن تھے، سنسکاری تھے، اس لئے ایسا کرنا صحیح تھا۔ اگر برہمن ہونے کی وجہ سے ہر شخص کو ہر طرح کے بدترین جرم کی اجازت ہے جس میں عورتوں کی عصمت دری اور معصوموں کا قتل عام شامل ہے تو اس منطق کے تحت ہندوستان کی ساری جیلوں سے ان تمام لوگوں کو جو برہمن ہیں اور کسی بھی وجہ سے جیلوں میں ہیں، فوری طور پر رہا کر دینا چاہیے۔ برہمنوں کے حق میں یہ بات تو مَنو اسمرتی تیار کرتے وقت منو مہاراج کے ذہن میں بھی نہیں آئی۔
یہ بھی خدا کا شکر ہے کہ ہندوستان کا ضمیر اس فیصلے سے تقریباً پوری طرح جاگ گیا ہے اور ہندوستان کی تقریباً تمام خاتون تنظیمیں، انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے یہیں نہیں دنیا بھر میں اس فیصلے کے خلاف کھل کر سامنے آئے ہیں۔ انتہا یہ کہ مہاراشٹرا کے موجودہ نائب وزیر اعلیٰ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے قدآور لیڈر دیویندر فڑنویس اور ہماچل پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور سابق مرکزی وزیر شانتا کمار نے بھی سزایافتگان کے استقبال کئے جانے کی مذمت کی ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی چیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ نے اس پر داخل کی گئی پی۔ آئی۔ ایل پٹیشنس کو سنوائی کے لئے قبول کر لیا ہے اور گجرات سرکار سمیت تمام فریقین کو نوٹس دیے گئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے کیافیصلہ ظہور میں آتا ہے؟ حکومت گجرات نے سپریم کورٹ اور مرکزی وزارت داخلہ کے 1992کے بعد کے فیصلوں کو اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ وہ ان کو خاطر میں لاتی اور اس طرح اس نے وزیر اعظم نریندر مودی کی نہیں، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی بھی سراسر اندیکھی اور توہین کی ہے۔ ہمارا اب بھی یہی ماننا ہے کہ خطاکاروں کو دوبارہ جیلوں میں ڈال دیا جائے اور بلقیس اور اس کے ساتھ ظلم و ستم، عصمت دری اور قتل و غارت گری کے شکار افراد کو محض مسلمان نہیں ایک ہندوستانی کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ خاطیوں کی رہائی سے بلقیس کے گاؤں کے مسلمانوں اور خاص طور سے عدالت میں ان کے خلاف پیش ہوئے گواہوں کے تحفظ اور سلامتی کو خطرہ درپیش ہے۔
ابھی بلقیس بانو کے دکھ درد سے ابھر بھی نہ پائے تھے کہ مذہبی رواداری کے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کے گوشہ محل حلقے کے بی جے پی ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ نے نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نازیبا باتیں ویڈیو میں ریکارڈ کرکے انہیں عام کیا۔ ان کے جرم کی سنگینی کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی قیادت نے ان کی اس ہرزہ سرائی کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں فوراً معطل کر دیا اور ساتھ میں دس دن کے اندر جواب دہی کے لیے نوٹس بھی جاری کر دیا کہ کیوں نہ انہیں ہمیشہ کے لئے پارٹی سے برخاست کر دیا جائے۔ نیز فیس بک کے ذمہ داروں نے ان کے اکاؤنٹ کو بلاک کر دیا۔ حیدرآباد میں اس کے نتیجے میں فطری طور پر جو اشتعال پھیلا اس کا اندازہ ان احتجاجی مظاہروں سے لگایا جا سکتا ہے جو کہ حیدرآباد شہر میں دیکھنے کو ملے۔ غنیمت یہ ہوا کہ پولیس نے راجہ سنگھ کو فوری طور پر گرفتار بھی کر لیا اور ان کو ضمانت ملنے پر حکومت تلنگانہ نے دوبارہ گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے۔ نیز کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور حیدرآباد سے ممبر پارلیمنٹ جناب اسدالدین اویسی نے نہ صرف راجہ سنگھ کے ذریعے اہانتِ رسولؐ کئے جانے کی مذمت کی اور پرامن احتجاج کئے جانے کی حمایت کرتے ہوئے اس بات کو بھی واضح کر دیا کہ کسی بھی طرح کا تشدد چاہے وہ زبانی ہی کیوں نہ ہو قابلِ قبول نہیں ہے اور کسی کو بھی اپنے ہاتھ میں قانون لئے جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
نوپور شرما اور نوین جندل کے بعد راجہ سنگھ کے ذریعے اہانتِ رسول کریمؐ کے حوالے سے یہ سوال ضرور سامنے آتا ہے کہ جب اس ملک کا دستور اور خود بی جے پی کی مرکزی قیادت و حکومت اس کے خلاف ہے تو پھر اس کے ذمہ داروں کی اتنی ہمت کیسے پڑ رہی ہے کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف اس طرح کے بیان دے رہے ہیں؟
ہم یہاں یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ وہ کتابِ برحق جسے قرآنِ کریم کہتے ہیں، جو ہر مسلمان کے عقیدے کے مطابق آخری کتابِ ہدایت ہے اور تمام انسانوں کے لئے ضابطہ حیات ہے اور جو سراپا رحمت جناب محمد رسول اللہؐ کے ذریعے اللہ رب العزت نے ہم تک پہنچائی ہے اس میں صاف ارشادِ باری تعالی ہے کہ ’’دوسروں کے خداؤں کو برا مت کہو‘‘ اور اس لئے کسی مسلمان کو نہ یہ حق ہے اور نہ اجازت کہ وہ دوسروں کے معبود یا مذہبی پیشواؤں کو برا کہے۔ اسی طرح ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں صدیوں سے چلی آ رہی روایتی مذہبی رواداری اورخیرسگالی کی بحالی کے لئے سرکار کو ایسے قوانین بنانے چاہئیں جس سے کہ کسی شخص کو بھی کسی کے معبود، مذہبی صحیفے اور مذہبی پیشواؤں کو برا کہنے کی ہمت ہی نہ پڑے اور اگر اس کے باوجود کوئی اس کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کو ایسی سخت سزا ملنی چاہیے کہ وہ دوسروں کے لئے سامانِ عبرت ثابت ہو۔ وہ سرکاریں جو تبدیلیِ مذہب کے خلاف سخت ترین قوانین بنا سکتی ہیں انہیں اس سلسلے میں بھی ضروری قانون سازی کرنی چاہیے اور ان سے زیادہ یہ کام مرکزی سرکار کا ہے کہ وہ ہر مذہب کے مقتدر مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو بلائے اور ان کے مشورے سے اس طرح کا قانون بنائے۔
یہ ہم صرف اس لئے نہیں کہہ رہے کہ ہم جناب محمد رسول اللہ ﷺکو اہانت سے بچانا چاہتے ہیں، اسلام کی ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ بقولِ اقبالؔ:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی
لیکن پھر بھی اسلام کے فروغ اور اس کی حقانیت کو دبایا نہیں جا سکا۔ رب العالمین نے جب خود ہی رحمت للعالمینؐ کے لئے ورفعنا لک ذکرک کہہ کر ان کی عظمت و بلندی کو یقینی بنا دیا تو کسی کے لاکھ چاہنے سے بھی ان کی شخصیت اور ان کے لائے ہو ئے دین کی حقانیت پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ لیکن دنیا کو اتنا ضرور پتہ رہنا چاہیے کہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن وہ اپنے رسولؐ سے اتنی محبت رکھتا ہے کہ ان پر اپنے ماں، باپ اور اولاد سب کو قربان کر سکتا ہے لیکن ان کی عزت و حرمت پر کسی حرف گیری کو برداشت نہیں کر سکتا۔ کچھ لوگ اس کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے اہانتِ رسولؐ اور قرآن کریم کی توہین کو ایک ہتھیار بنا لیا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اس سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہوتی ہے اور ایک ایسا ملک جو کثرت میں وحدت کی اپنی جلوہ گری کے لئے دنیا میں جانا جاتا رہا ہے۔ جو مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور لسانی تکثیریت کے اعتبار سے دنیا میں اپنا جواب نہیں رکھتا ہے، اس کو دنیا میں مذہبی عدم رواداری کا ملک بنا کر پیش کرنے سے کیا فائدہ ہوگا؟ کس کا فائدہ ہوگا؟ یہ سوچنا چاہیے اور یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ نفرت کا کاروبار اور زخموں کی تجارت زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ اسی طرح سے ہم اپنے مسلمان بہنوں اور بھائیوں سے بھی یہ کہنا چاہیں گے کہ ایک مہذب جمہوری معاشرے میں پرامن احتجاج آپ کا بنیادی حق ہے لیکن مشتعل ہوکر تشدد کا راستہ اختیار کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے اور اگر آپ اپنے معاندین کو شکست دینا چاہتے ہیں، شرمسار کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو جمہوری و دستوری طرز عمل کو ہی اختیار کرنا چاہیے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS
Previous articleکانگریس ’غلامی‘ سے کب ہوگی آزاد
Next articleصبح امن سے دور کیو ںہے شام؟
Prof. Akhtarul Wasey
Akhtarul Wasey (born September 1, 1951) is the president of Maulana Azad University, Jodhpur, India, and a former professor of Islamic Studies. He taught at Jamia Millia Islamia (Central University) in New Delhi, where he remains professor emeritus in the Department of Islamic Studies. Early life and education: Wasey was born on September 1, 1951, in Aligarh, Uttar Pradesh to Hairat bin Wahid and Shahida Hairat. He is the oldest of six children. Wasey attended Primary School No. 16, the City High School of Aligarh Muslim University, and Aligarh Muslim University where he earned a Bachelor of Arts (Hons.) in Islamic studies in 1971, a Bachelor of Theology in 1975, a Master of Theology in 1976, and an Master of Arts in Islamic studies in 1977. He also completed a short-term course in the Turkish language from Istanbul University in 1983. Career: On August 1, 1980 he joined Jamia Millia Islamia, Delhi as lecturer and worked there till 31 August 2016.Wasey was a lecturer, reader and professor at Jamia Milia Islamia University in New Delhi from 1980-2016, serving as the director of Zakir Husain Institute of Islamic Studies and later becoming head of the Department of Islamic Studies and Dean of the Faculty of Humanities and Languages. He is currently the president of Maulana Azad University in Jodhpur and remains a Professor Emeritus in the Department of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia. In March 2014, Wasey was appointed by Indian President Shri Pranab Mukherjee to a three-year term as Commissioner for Linguistic Minorities in India, and became the first Urdu-speaking commissioner since 1957. Wasey is the editor of four Islamic journals: Islam Aur Asr-e-Jadeed; Islam and the Modern Age; Risala Jamia; and Islam Aur Adhunik Yug. Awards and honors: 1985 Award from Urdu Academy, Delhi and UP Urdu Academy on "Sir Syed Ki Taleemi Tehreek" 1996 Maulana Mohammad Ali Jauhar Award 2008 Fulbright Fellowship 2013 Padma Shri award from President Pranab Mukherjee of India 2014 Makhdoom Quli Medal from the President of Turkmenistan 2014 Daktur-e-Adab from Jamia Urdu, Aligarh