کتنا بڑا خطرہ ہے اومیکرون

کچھ دنوں پہلے جنوبی افریقہ کے ڈاکٹروں کے ذریعہ کہی گئی یہ بات یقین دلاتی ہے کہ اومیکرون سے متاثر افراد میں غیرمعمولی علامات نظر نہیں آتیں۔

0

چندرکانت لہاریا

ہندوستان میں کورونا کے معاملے کم ہونے شروع ہی ہوئے تھے کہ اس کی نئی شکل اومیکرون سرخیوں میں آگئی۔ جنوبی افریقہ اور بوتسوانا میں سب سے پہلے پایا گیا یہ ’ویریئنٹ‘ اب تک کے سب سے زیادہ 50’میوٹیشن‘ (تبدیلی) کے ساتھ آیا ہے۔ تقریباً 32تبدیلیاں تو اسپائک پروٹین میں ہیں، اور ان میں سے 10ایسے حصوں میں جو انفیکشن کی شرح، بیماری کی سنگینی اور ’امیون اسکیپ‘ یعنی ویکسین کی تاثیر کا تعین کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی صحت تنظیم(ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے اسے ’ویریئنٹ آف کنسرن‘(وائرس کی تشویشناک شکل) تسلیم کیا ہے۔
ڈیلٹا کے بعد یہ سب سے زیادہ متعدی ویریئنٹ سمجھا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق، اس میں بہت ساری تبدیلیاں ہیں، لیکن یہ سمجھنے کے لیے ہمیں کچھ دن مزید انتظار کرنا پڑے گا کہ اصلیت میں وائرس کی یہ نئی شکل ہمارے لیے کتنی بڑی تشویش کی بات ہے؟ ویسے، اس عالمی وبا میں یہ تو واضح ہے کہ احتیاط اور بچاؤ سے بہتر کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔ اس نے یہ بھی بتادیا ہے کہ ہمارا مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے اور دنیا کے کسی بھی حصہ میں وائرس کی شکل بدلتی ہے تو وہ دوسرے حصہ کو بھی مساوی طور پر متاثر کرسکتی ہے۔
اومیکرون پانچواں ’ویریئنٹ آف کنسرن‘ ہے اور ڈیلٹا کے بعد گزشتہ سات ماہ میں پہلا۔ نومبر کے دوسرے ہفتہ میں جنوبی افریقہ اور بوتسوانا میں پہلی بار ملی وائرس کی یہ نئی شکل اسرائیل، ہانگ کانگ، برطانیہ، بلجیم، اٹلی، چیک جمہوریہ، جرمنی اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک میں پھیل چکی ہے۔
دراصل، میوٹیشن ہر وائرس کی فطری خصوصیت ہے۔ انفیکشن کے بعد جسم میں جب بھی وائرس پھیلتا ہے تو اس کی جینیاتی ترتیب میں کچھ تبدیلیاں ہوسکتی ہیں۔ زیادہ تر تبدیلیاں غیراہم ہوتی ہیں، لیکن کچھ کی وجہ سے اس کی خصوصیات میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ سارس کوو-2کے معاملہ میں اگر تبدیلی سے وائرس کے انفیکشن کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے یا سنگین بیماری ہوتی ہے یا بیماری کی علامات میں تبدیلی ہوتی ہے یا نئی شکل قدرتی یا ٹیکہ لگنے سے حاصل قوت مدافعت کو چکما دے جاتی ہے تو اسے ’ویریئنٹ آف کنسرن‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اومیکرون میں پائی گئی کچھ تبدیلیاں پہلے الفا، بیٹا، گاما اور لیمبڈا ویریئنٹ میں بھی پائی گئی تھیں۔ پھر، وائرس کو سمجھنے کے لیے اکیلے تبدیلی کی بڑی تعداد مناسب نہیں ہوتی ۔ جیسے بیٹا ویریئنٹ میں قوت مدافعت سے بچنے کی صلاحیت تھی اور تقریباً 100ممالک میں اس کا پتا چلا تھا، پھر بھی یہ اہم ورژن نہیں بن پایا۔
قابل ذکر ہے کہ پتا چلنے کے دو ہفتہ میں ہی اومیکرون جنوبی افریقہ کے کچھ صوبوں میں تیزی سے پھیل گیا۔ اس وجہ سے اس کو زیادہ متعدی سمجھا جارہا ہے، لیکن کیا یہ سنگین بیمار کرتا ہے؟ اس کے خلاف ٹیکہ کتنا کارگر ہے اور کیا یہ حقیقت میں تیزی سے پھیلتا ہے؟ ان سب سوالات کے جواب سائنسی تحقیق میں پوشیدہ ہیں۔ حالاں کہ کچھ دنوں پہلے جنوبی افریقہ کے ڈاکٹروں کے ذریعہ کہی گئی یہ بات یقین دلاتی ہے کہ اومیکرون سے متاثر افراد میں کوئی نئی یا غیرمعمولی علامات نظر نہیں آتیں۔
اگر یہ ویریئنٹ زیادہ متعدی ثابت ہوتا ہے تب بھی جن ممالک میں ٹیکہ کاری ٹھیک ہے یا یہ صحیح سمت میں ہے، ان کو خطرہ کم ہے، کم ویکسین-کوریج والے ممالک کے لیے خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں، اس میں اگر قوت مدافعت سے بچنے کی صلاحیت نظر آتی ہے، تب بھی ٹیکوں کا اثر برقرار رہے گا، چاہے اس کی تاثیر کچھ کم ہوجائے۔
حالاں کہ ہندوستان میں ابھی تک اس کے کسی معاملہ کی شناخت نہیں ہوئی ہے، لیکن اگر تحقیق آگے بڑھی تو ممکن ہے کہ ہمارے یہاں بھی وائرس کی یہی شکل ملے۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہوگی۔ پہلے بھی جنوبی افریقہ سے نکلا بیٹا ویریئنٹ ہندوستان میں پایا گیا تھا، لیکن اس کا زیادہ پھیلاؤ نہیں ہوا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس پر نظر رکھی جائے اور جو معلومات مل رہی ہیں، اس کے حساب سے حکمت عملی بنائی جائے۔ جیسے ہوائی اڈوں پر بہتر ٹیسٹنگ اور جینوم سیکونسنگ ہمیشہ درکار رہے گی۔
نئے خطرے کی آمد کے پیش نظر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو اپنی تیاریوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے، کیوں کہ اپنے یہاں گزشتہ کچھ ہفتوں میں ٹیکہ کاری کی رفتار کم ہوگئی ہے اور لوگوں نے بھی ماسک اور دیگر کووڈ سے بچاؤ کے طریقوں سے دوری بنالی ہے۔ کووڈ-19 جانچ اور جینوم سیکونسنگ کی شرح میں آئی کمی کو بھی جلد ہی پورا کرنا ہوگا۔
ابھی اس بات کا بھی کوئی اشارہ نہیں ہے کہ نئی شکل بچوں یا دیگر ایج گروپ کے لوگوں کو الگ طرح سے متاثر کرتی ہے؟ ویسے بھی، ہندوستان میں ڈیلٹا کا انفیکشن کم ہوگیا ہے، اس لیے تعلیمی اداروں کو کھلے رکھنا چاہیے۔ کچھ لوگوں کو تشویش یہ ہے کہ کہیں پھر سے لاک ڈاؤن جیسی پابندیاں نہ لگ جائیں، لیکن اس کا خدشہ اس لیے نہ کے برابر ہے، کیوں کہ وائرس کا پھیلنا ہم سب کے طور طریقہ پر منحصر کرتا ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوستان میں وبا کے خلاف جنگ میں سائنس کمیونی کیشن ایک کمزور پہلو رہا ہے۔ ہندوستان کے پالیسی سازوں کو وقت وقت پر اور شفاف طریقہ و قابل اعتماد ذرائع سے معلومات کو شیئر کرتے رہنا ہوگا، ورنہ دوسری لہر کی طرح افواہیں بات بگاڑسکتی ہیں۔ پھر، کووڈ انفیکشن کی شرح بھلے ہی کم ہوگئی ہو، ذاتی طور پر ہمیں ہمیشہ کووڈ-مناسب سلوک پر عمل کرنا چاہیے اور خاص طور پر بڑی اسمبلیوں و جلسوں سے بچنا چاہیے۔ اہم یہ بھی ہے کہ تمام بالغوں کی جلد سے جلد مکمل ٹیکہ کاری ہو۔ یاد رکھنا ہوگا کہ پوری طرح سے ٹیکہ کاری والے افراد میں سنگین بیماری کا خطرہ، جزوی یا بغیر ویکسین لگے افراد سے کم ہے۔
اچھی بات ہے کہ اپنے ملک میں اب مناسب ٹیکے بن رہے ہیں۔ اس لیے مرکزی حکومت کو ویکسین فرینڈشپ میں بھی تیزی لاکر افریقی ممالک کو ویکسین دستیاب کرانا چاہیے۔ جب تک کورونا وائرس دنیا کے کسی بھی ملک میں پھیل رہا ہے، تب تک اس میں تبدیلی کا خدشہ برقرار رہے گا اور پوری دنیا میں تشویش قائم رہے گی۔ اومیکرون یاد دلاتا ہے کہ وبا کے خلاف جنگ میں دنیا کو متحد رہنا ہوگا۔
(مضمون نگار پبلک ہیلتھ پالیسی کے ماہر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS