اومیکرون :پیشگی تیاری ضروری

0

دنیا کورونا کی دوسری لہر سے ابھی پوری طرح نکل بھی نہیں پائی تھی کہ اومیکرون نام کا ایک اورعذاب دنیا کے سامنے چیلنج بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔ جنوبی افریقہ سے شروع ہونے والا یہ عذاب اب دھیرے دھیرے دوسرے ممالک میں پھیل رہا ہے۔ برطانیہ جو کورونا بحران سے نکلنے کی دہلیز پر تھا، اب وہاں اومیکرون تیزی سے پیر پھیلا رہا ہے۔ اب تک22مریضوں کی تصدیق ہوچکی ہے اور مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتاجارہاہے۔ جاپان میں بھی اومیکرون ویریئنٹ کے کئی کیس سامنے آچکے ہیں اور وہاں کی حکومت نے کورونا پابندیوں میں اضافہ کرتے ہوئے کئی طرح کی سختیوںکا نفاذ کردیا ہے۔ اپنی سرحد سیل کردی ہے ا ور بین الاقوامی پروازوں پر روک لگادی ہے۔دنیا کے کئی ممالک نے جنوبی افریقہ سے سفر پر پابندی لگادی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ یوروپی یونین کے ممالک اور سوئٹزرلینڈ نے بھی جنوبی افریقی ممالک کیلئے آنے اور جانے والی پروازیں عارضی طور پر معطل کر دی ہیں۔ ایران، برازیل وغیرہ جیسے ممالک نے بھی افریقہ سے آنے والے مسافروں کیلئے سخت قوانین بنائے ہیں۔ ہندوستان نے بھی 20 ماہ یعنی تقریباً2برسوں کے طویل وقفہ کے بعد اگلے 15دسمبر سے شروع ہونے والی بین الاقوامی تجارتی پروازوں کواحتیاطی اقدام کے طور پر ایک بار پھر غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا ہے۔
تاہم ڈبلیو ایچ او نے عجلت میں سفری پابندیاں عائد کرنے والے ممالک کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان ممالک کو خطرات کو دیکھتے ہوئے سائنسی انداز اپنانا چاہیے۔جنوبی افریقہ نے اپنے ملک آنے اور جانے والی پروازوں پر عائد پابندیوں کو غیر منصفانہ ٹھہراتے ہوئے کہا کہ نقل و حرکت پر عائد یہ پابندیاں ڈبلیو ایچ او کے مقرر کردہ اصولوں اور معیارات کے بالکل خلاف ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ جنوبی افریقہ کا موقف درست ہولیکن اومیکرون کی دہشت کو دنیاکورونا کی پہلی اور دوسری لہر کی روشنی میں دیکھ رہی ہے۔ اس دہشت میں اس لیے بھی اضافہ ہورہاہے کہ کورونا کے اس نئے ویریئنٹ پر ابھی مکمل تحقیق سامنے نہیں آپائی ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کا یہ نیا ویریئنٹ زیادہ موذی ہے اور ٹیکہ لے چکے افراد کو بھی یہ متاثر کرسکتا ہے۔ جب کہ کچھ ماہرین امید ظاہر کررہے ہیں کہ ویکسین مؤثررہنے کا امکا ن ہے۔تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس سلسلے میں حتمی معلومات اور اس کا تریاق تلاش کرنے میں کم و بیش دو ہفتوں کا وقت لگ سکتا ہے۔
یہ دو ہفتے دنیا کی معیشت کو تہہ و بالا کردینے کیلئے کافی ہیں، کیوں کہ جب بھی اس طرح کی ہنگامی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس کا براہ راست اثر معیشت پر پڑتا ہے اور عوا م کے خوف اور مجبوری کا فائدہ اٹھاکر منافع کمائے جانے کی ہوس زیادہ جاگ اٹھتی ہے۔نئے ویریئنٹ آنے کی خبروں کے پہلے دن ہی دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں میں زبردست گراوٹ دیکھنے میں آئی اور لوگوں کے اربوں روپے ڈوب گئے۔
اس لیے دنیا بھر کے ماہرین، دانشوروں اور ڈبلیو ایچ او کو اومیکرن پر خوف کی فضا پیدا کرنے کے بجائے اس سے نمٹنے کے سائنسی نقطہ نظر پر بھی غور کرنا چاہیے۔ کیوں کہ خود ڈبلیو ایچ او ہی سفری پابندیوں کے حوالے سے سائنسی انداز کی وکالت کرچکا ہے، اس لیے اومیکرون کی وجہ سے پابندیوں میں اضافہ، سختیاں اور لاک ڈائون لگانے کے بجائے سائنسی نقطہ نظر اپنانے پر غور کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
گزشتہ سال کورونا اور پھر اس سال کے اوائل میں کورونا وائرس کا بیٹا ویریئنٹ بھی تشویش کا باعث بناتھا کیونکہ یہ مدافعتی نظام سے بچنے میں زیادہ ماہر تھا لیکن بعد میں ڈیلٹا ویریئنٹ اس پر بھاری پڑا اور پوری دنیا میں پھیل کر لوگوں کیلئے ایک نئے عذاب کا سبب بنا۔ اس دوران پوری دنیا کا بنیادی نظام مفلوج ہوگیا اور اورصحت ا نفرااسٹرکچر تو زمیں بوس ہی ہوگئے۔ سماجی جانور ہونے کے بعد اشرف المخلوقات انسان معاشرے سے الگ تھلگ رہنے پر مجبور رہا۔اس دوران احتیاطی تدابیر کی آڑ میں دنیا کی کم و بیش تمام حکومتوں نے منمانے فیصلے کیے اورایک طرح سے آمرانہ حکومت کرنے کی انہیں آزادی حاصل ہوگئی تھی۔پوری دنیا کی جان کو ضیق میں ڈال کر ایسے ایسے فیصلے کیے گئے جن کا اثر ہماری آنے والی نسلوں تک کو بھگتنا پڑے گا۔
کورونا اور اس کے ان دونوں ویریئنٹ سے نمٹنے کی تدبیر اوراس دوران ہوئے نقصانات کو سامنے رکھتے ہوئے اومیکرون ویریئنٹ سے نمٹنے کی ایسی حکمت عملی بنائی جانی چاہیے کہ نہ آکسیجن کی کمی سے لوگ مریں اور نہ اسپتالوں کے باہر قطار میں کسمپرسی کے عالم میں ایڑیاں رگڑنے کی نوبت آئے۔ انسانی زندگی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیوں کے بھی جاری رہنے کی پیشگی تدبیرا ور تیاری کی جانی چاہیے تاکہ کسی کوبھوک سے بھی نہ مرنا پڑے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS