عشق مجازی اور عشق حقیقی

0

ریاض فردوسی

عشق عربی زبان میں گہری چاہت کو کہتے ہیں۔ جبکہ، اس کی عقلی توجیہ ہے کہ عشق نام ہے بے لگام جذباتی تڑپ کا جو کسی قاعدہ اور قانون کی پابند نہیں۔ اس تڑپ کا تعلق محض وجدان سے ہوتا ہے جبکہ انسانی شعور عشق کا متحمل نہیں کیونکہ انسانی شعور اپنی عملی صورت میں کسی نہ کسی قاعدہ یا قانون کا پابند ہوتا ہے جبکہ عشق قواعد کا پابند نہیں۔
محمد بن مکرم بن علی، أبو الفضل، جمال الدین ابن منظور الأنصاری الرویفعی الإفریقی (المتوفی: 711ھ) اپنی کتاب لسان العرب میں رقم طراز ہیں: ’حُبّ‘ کا متضاد بغض ہے۔ حُبّ کے معنی پیار و محبت ہیں۔ حُبّ کو حِبّ بھی کہتے ہیں۔ محبت کرنے والے کو مُحِبّ کہا جاتا ہے۔ جس سے محبت کی جائے، اسے محبوب یا مُحَبّ کہتے ہیں۔(لسان العرب، ج: 1، ص: 289، ط: دار صادر – بیروت)
محمد بن یعقوب الفیروزآبادی (المتوفی: 817ھ) اپنی کتاب القاموس المحیط میں تحریر فرماتے ہیں، ’حُبّ‘ کا مطلب ہے محبت۔ حِبابِ، الحِبّ، المَحَبَّۃِ، الحُبابِ کے بھی یہی معنی ہیں۔ جس سے محبت کی جائے، اسے محبوب کہتے ہیں۔(القاموس المحیط ج: ا، ص: 70، ط: الرسالۃ, بیروت)
عشق مجازی انسان کا انسان کے ساتھ عشق ہے، اللہ تعالی کی ذات کے سوا ہر قسم کے معشوق سے عشق کر نے کا نام مجاز ہے۔یہ شہوت سے پاک ہوتا ہے۔
عشق مجازی میں کسی پر کسی کی طرف مائل ہونا رجحان ہے۔ کسی کو دوسروں پر ترجیح دینے لگیں،پیار یا محبت ہے۔ جنون ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں جو بھی عشق کرتا ہے وہ حد سے بڑھ جاتا ہے اتنے وعدے اور دعوے کرتا ہے کہ اس کو پھر پورا نہیں کرسکتا۔ بہت کم ہی عاشق ہوتے ہیں جو کئے گئے وعدوں کو پورا کرپاتے ہیں۔اصل میں اس معاشرے میں لوگ عشق و محبت کو صرف دو جسموں کاملاپ،چومنا،اپنی جسمانی خواہشات کو پورا کرنے تک محدود رکھتے ہیں اور یہی سب کچھ پانے کے بعد وہ مزید تمناؤں کو پورا کرنے کے لئے بھاگنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔اور اسں میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کی اپنی پیاس بجھا کر دوسروں کی زندگیوں کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔یہاں صرف نیم عاشق پائے جاتے ہیں جو عشق کے دراجات،عاشق کی ذہانت، عشق کے اثرات اور کیفیات سے قطع نظر بس عشق عشق کی صدا لگا ئے جاتے ہیں،اور کسی کے حسن پر باتوں پر اور ادا پر مائل ہونے کو بھی عشق کہتے ہیں۔لگاؤ ہو یا پیار ہو،اسے عشق ہی کہا جاتا ہے۔پہلے کے دور میں جب دو عاشق ملتے تھے وہ دونوں میں برابر کی شرمساری ہوتی تھی اور جب کوئی ان سے ان کے عشق کے حوالے سے بات کرتا تو اپنے دانتوں سے ہونٹ کانٹ لیتے اور سر نیچاکرتے۔مگر آج کے عشق میں سرجھکانہ عشق میں ناکامی تصور کی جاتی ہے۔دور حاضر کے عشق میںشہوت جب تک پوری نہ ہو عشق ہی مکمل نہیں ہوتا۔ا للہ خیر کرے۔لیکن اس سے الگ ہٹ کر بھی ایک دنیا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جس قدر عبادت زیادہ ہو گی، بارگاہ الہی میں تقرب بھی اس قدر زیادہ ہو گا۔(منھاج العابدین، ص 52،امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ)
عشق حقیقی اللہ سے عشق کرنے کو کہتے ہیں۔اللہ کا حقیقی عشق بہشت کی لالچ اور جہنم کے خوف سے پاک ہوتا ہے، بلکہ عاشق ہر وقت صرف جمال رب قدیر کے تصور میں ہوتا ہے۔
شیخ الرئیس ابن سینا، عشق کو تمام مخلوقات کی تخلیق کی علت جانتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ عشق ایک عطیہ ہے۔ جو صرف انسان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مخلوقات میں کسی نہ کسی طرح پایا جاتا ہے۔(ابن سینا،الرسائل،ص.370)
دوسرے مقام پر شیخ الرئیس کہتے ہیں، عاشق اپنے معشوق کو، صرف عقلی اعتبار سے اس کے نظام کے اعتدال کے موزون ہو نے کے لحاظ سے اس کی خوبصورتی کی بنا پر محبت کرتا ہے اور عاشق کا یہ طریقہ، جو حیوانیت سے پاک ہے، بلندی اور ترقی کا ایک درجہ شمار ہو تا ہے۔ (ابن سینا،رسالہ عشق،،نقل از حب ومقام محبت در حکمت وعرفان نظری،ص۔139و 140)
عشق الٰہی امتحانات کی مشکلات سے خالی نہیں ہے۔عشق ایک دیوانگی ہے جو عاشق سے عقل و شعور کو ختم کرکے اسے غنودگی میں مبتلا کردیتی ہے۔عاشق کو کسی قسم کے نفع ونقصان کی تمیز نہیں رہتی، بس اپنے معشوق کے دیدار کی تمنا ہمہ وقت رہتی ہے۔
اورجولوگ ایمان لائے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں زیادہ شدیدہیں۔(سورہ ا لبقرۃ۔آیت۔165)
محبت خداوندی کا تقاضہ یہ ہے کہ عاشق اللہ کی محبت میں محو ہو اور غیر کا ذکر،غیر کا تصور بھی گناہ ہوتا ہے۔اغیار کی محبت اس کے دل میں یہ مرتبہ اور مقام حاصل نہ کرسکے کہ وہ اللہ کی محبت پر اسے قربان نہ کر سکتا ہو۔
آگ جس کی شدت برداشت کرنا انسان کے بس کی بات نہیں، یہ ابراہیم علیہ السلام کا جذبہ عشق ہی تھا جس نے جسم کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے رب کی لقاء کی خاطر آگ میں کود جانے پر تیار کیا۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
شریف انسان اپنی بدنامی سے بہت گھبراتا ہے، اور اگر جھوٹے الزام میں اسے جیل بھیج دیا جائے تو اور بھی شرمندگی، اور الزام یہ ہو کہ جس نے تمہیں پالا اس کے ساتھ خراب حرکت کی کوشش کی، یہ اور بھی کرب ناک، لیکن عاشق صدق و وفا نے جھوٹے الزام میں جیل جانا پسند کیا لیکن گناہ نہ کیا۔
انہوں نے کہا: اے میرے رب!قیدخانہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے جو وہ مجھے دعوت دے رہی ہیں اور اگر تونے ان کا فریب مجھ سے نہ ہٹایا تو میں ان کی جانب مائل ہوجاؤں گا اور جاہلوں میں سے ہوجاؤں گا۔ (سورہ یوسف۔ آیت۔33)
لامکانی کا بہرحال ہے دعوی ٰبھی تمہیں
نحنُ اقرب کا بھی پیغام سُنا رکھا ہے
مولانا مودودی فرماتے ہیں۔ انیس بیس سال کا ایک خوبصورت نوجوان ہے جو بدویانہ زندگی سے بہترین تندرستی اور بھری جوانی لیے ہوئے آیا ہے۔ غریبی، جلاوطنی اور جبری غلامی کے مراحل سے گزرنے کے بعد قسمت اسے دنیا کی سب سے بڑی متمدن سلطنت کے پایہ تخت میں ایک بڑے رئیس کے ہاں لے آئی ہے۔ یہاں پہلے تو خود اس گھر کی بیگم اس کے پیچھے پڑ جاتی ہے جس سے اس کا شب و روز کا سابقہ ہے۔ پھر اس کے حسن کا چرچا سارے دارالسلطنت میں پھیلتا ہے اور شہر بھر کے امیر گھرانوں کی عورتیں اس پر فریفتہ ہو جاتی ہیں۔ اب ایک طرف وہ ہے اور دوسری طرف سیکڑوں خوبصورت جال ہیں جو ہر وقت ہر جگہ اسے پھانسنے کے لیے پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر طرح کی تدبیر یں اس کے جذبات کو بھڑکانے اور اس کے زہد کو توڑنے کے لیے کی جارہی ہیں۔ جدھر جاتا ہے یہی دیکھتا ہے کہ گناہ اپنی ساری خوشنمائیوں اور دلفریبیوں کے ساتھ دروازے کھولے اس کا منتظر کھڑا ہے۔ کوئی تو فجور کے مواقع خود ڈھونڈھتا ہے، مگر یہاں خود مواقع اس کو ڈھونڈ رہے ہیں اور اس تاک میں لگے ہوئے ہیں کہ جس وقت بھی اس کے دل میں برائی کی طرف ادنیٰ میلان پیدا ہو وہ فورا اپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کر دیں۔ رات دن کے چوبیس گھنٹے وہ اس خطرے میں بسر کر رہا ہے کہ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے ارادے کی بندش میں کچھ ڈھیل آجائے تو وہ گناہ کے ان بے شمار دروازوں میں سے کسی میں داخل ہو سکتا ہے جو اس کے انتظار میں کھلے ہوئے ہیں۔ اس حالت میں یہ خدا پرست نوجوان جس کامیابی کے ساتھ ان شیطانی تر غیبات کا مقابلہ کرتا ہے وہ بجائے خود کچھ کم قابل تعریف نہیں ہے۔ مگر ضبط نفس کے اس حیرت انگیز کمال پر عرفانِ نفس اور طہارت فکر کا مزید کمال یہ ہے کہ اس پر بھی اس کے دل میں کبھی یہ متکبرانہ خیال نہیں آتا کہ واہ رے میں، کیسی مضبوط ہے میری سیرت کہ ایسی ایسی حسین اور جوان عورتیں میری گرویدہ ہیں اور پھر بھی میرے قدم نہیں پھسلتے۔ اس کے بجائے وہ اپنی بشری کمزوریوں کا خیال کر کے کانپ اٹھتا ہے اور نہایت عاجزی کے ساتھ خدا سے مدد کی التجا کرتا ہے کہ اے رب، میں ایک کمزور انسان ہوں، میری اندر اتنی طاقت کہاں کہ ان بے پناہ ترغیبات کا مقابلہ کر سکوں، تو مجھے سہارا دے اور مجھے بچا، ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے قدم پھسل نہ جائیں۔(تفہیم القرآن) درحقیقت یہ یوسف علیہ السلام کے عشق کی انتہا تھی۔
کربلا کی گرم ریت کے ذروں پر عاشق صادق سجدے میں محو ہے۔اپنی حالات اور اردگرد سے بے خبر۔اگرچہ فرزند کی لاش بھی لا کر شہدا کے درمیان رکھا ہے۔مقدس بھائی کی نشانی کو بھی خون میں تڑپتے دیکھا ہے۔رفقاء کے خون سے کربلا کے ذروں کو چمکتے دیکھا ہے۔لیکن سب سے بے پرواہ اپنے معبود حقیقی کو اپنی روداد سنانے میں مشغول ہے۔یہ حسین ؓ ابنِ علیؓ ہیں، جن کی وجہ سے اسلام اپنی صحیح شکل میں زندہ ہے، اور مسلمان کا جزبۂ ایمانی قائم دائم ہے۔یہ عاشق بے مثال جنہوں نے رضائے الہی میں اپنے تمام خاندان کو راہ خدا میں قربان کر دیا ہے۔ راہ عشق کے مسافروں کے لئے ان کی زندگی مشعل راہ ہے۔
یہ شیرِ خدا کے کا شیرہیں ۔بنت محمدؐکی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔جگرگوشۂ رسول ہیں۔
ہم خوشبو سونگھتے ہیں مگر دیکھ نہیں سکتے، روح ہمارے جسم میں موجود ہے، بغیر روح کے ہم زندہ نہیں رہ سکتے، مگر روح نظر نہیں آتی۔ایک وقت سے پردے میں گفتگو جاری ہے۔عاشق کے کان مبارک کلام معشوق سے منور اور مجلیٰ ہو رہے ہیں۔اب دیداریار کی تمنا ہے۔آوازیں بہت سن چکے۔ صاحب آواز کو دیکھناہے۔جس کی آواز اتنی پیاری ہے، خوبصورت ہے، اس کا حسن و جمال کیسا ہوگا۔
اورجب موسیٰ ہمارے مقررکردہ وقت کے لیے آیااور اُس کے رب نے اُس سے کلام کیاتو اُس نے کہا: اے میرے رب!مجھے دکھاکہ میں تیری طرف دیکھوں۔ فرمایا: تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے لیکن پہاڑکی طرف دیکھو،سواگروہ اپنی جگہ برقراررہا تو عنقریب تم مجھے دیکھ لو گے تو جب اُس کے رب نے پہاڑ پرجلوہ ڈالا تو اُسے ریزہ ریزہ کردیااور موسیٰ بے ہوش ہوکر گر پڑا پھرجب ہوش میں آیا اُس نے کہا تو پاک ہے،میں نے تجھ سے توبہ کی اورمیں ایمان لانے والوں میں سے سب سے پہلاہوں۔ (سورہ الاعراف۔آیت۔143)
عشق کی راہ آزمائشوں اور امتحانات سے بھری ہے۔لیکن طالبان راہ عشق اس راہ خار پر ہمیشہ قدم رکھتے ہیں،اور کامیاب اور کامران ہوتے ہیں۔
سیدنا ابوبکر ؓ، سیدنا بلال ؓ ،سیدنا ابوذر غفاریؓ،سیدنا عمارؓ،سیدنا شیخ اویس قرنی، حسن بصری، رابعہ بصری، بایزید بسطامی، جنید بغدادی، معروف کرخی، ذوالنون، شبلی، حبیب عجمی،شیخ منصور حلاج، امام غزالی، سیدنا ابراہیم ابن ادہم بلخی،ابوحسن خرقانی،عبدالرزاق، عبد القادر جیلانی، گنج بخش، عثمان ہرونی،خواجہ معین الدین، بختیار کاکی، گنج شکر، نظام الدین اولیاء،مخدوم صرف الدین بہاری، صابر کلیری، امیر خسرو، شہاب الدین سہروردی، بہاء الدین زکریا، لعل شہباز، ابن عربی، شمس تبریزی، رومی، شیخ سعدی، عطار، رازی، بو علی سینا، جامی، وارث علی شاہ، سچل سرمست، غلام فرید، بلھے شاہ، توحید بلخی۔ شاہ حسین،منعم پاک باز، وغیرہ اسی راہ کے مسافر ہیں۔رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین و رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
اور اس دن(جنت میں)کئی چہرے تروتازہ (خوش) ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘(القیامہ:آیات 22 تا 23)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’اہلِ جنت کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا جو انہیں جنت کی دیگر تمام نعمتوں سے زیادہ محبوب ہوگا۔‘‘ (مسلم۔عن صہیب رضی اللہ عنہ)
دوسرے مقام پر آپؐ نے یوں فرمایا اے لوگو، تم اپنے رب کا (جنت میں) ایسے دیدار کرو گے جیسے چاند کو بغیر کسی مشقت کے دیکھتے ہو۔‘‘ (مسلم۔عن جریر رضی اللہ عنہ)
چنانچہ جوکوئی اپنے رب کی ملاقات کی اُمید رکھتا ہے تولازم ہے کہ وہ نیک عمل کرے اوراپنے رب کی عبادت میں کسی ایک کوشریک نہ کرے۔(سورہ کہف۔110)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا، جب میں چاہتا ہوں کہ اللہ سے باتیں کروں تو میں نماز پڑھنے لگتا ہوں اور جب چاہتا ہوں کہ اللہ مجھ سے باتیں کرے تو میں قرآن پڑھنے لگتا ہوں۔
qqq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS