آر ایس ایس سے مذاکرات ضروری مگر۔۔۔

0

عدیل اختر

ایک بار پھر یہ خبر آئی ہے کہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے کچھ سرکردہ مسلمانوں سے خفیہ ملاقات کی ہے اور اس کی خبر آدھا مہینہ گزرنے کے بعد میڈیا کو لیک کی گئی ہے۔ان ملاقاتیوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر لیفٹنٹ (ریٹائرڈ) جنرل ضمیر الدین شاہ، سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، دہلی کے لفٹننٹ گورنر رہ چکے مسٹر نجیب جنگ اور پولیٹکل صحافی مسٹر شاہد صدیقی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ایک بڑے کاروباری سعید شیروانی بھی اس وفد کا حصہ تھے۔ اس طرح کی ملاقاتوں کو ہمیشہ غلط ہی سمجھا جائے یہ ضروری نہیں ہے۔ ملاقات اور مذاکرات تو ایک ناگزیر عمل ہے۔البتہ کسی عمل کی کیفیت کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے تاکہ اس کے نتیجوں کا تخمیہ لگایا جاسکے۔ اس لئے ایسی خبروں کا تجزیہ نہ کرنا ایک بڑی کوتاہی کی بات ہوگی۔
پہلی بات اس سلسلے میں غور طلب یہ ہے کہ یہ ملاقات کس کی ایما پر ہوئی، اس کا اہتمام کس نے کیا اور یہ پیش کش کس کی طرف سے تھی؟ یہ بات واضح طور سے سامنے نہیں آئی ہے۔ البتہ یہ بات واضح ہے اور یہ خودخبر کا حصہ ہے کہ یہ ملاقات اس سلسلے کی تیسری یا چوتھی کڑی ہے جو موہن بھاگوت نے مسلم سماج کو سادھنے کے لئے شروع کی تھی اور جس کے تحت، سب سے پہلے گزشتہ سال کے شروع میں غازی آباد میں ایک پروگرام کے اسٹیج سے مسلمانوں کو براہ راست مخاطب کیا گیا تھا، پھر ممبئی کے ایک ہوٹل میں کچھ مسلمانوں کو مدعو کیا گیا تھا جس میں مولانا کلیم صدیقی بھی شامل تھے جنھیں اس جلسے کے کچھ دن بعد ہی جیل رسید کردیا گیا تھا۔ چنانچہ بادی النظر میں یہ نئی ملاقات بھی بلانے، سمجھانے اور بتانے والے یک طرفہ عمل کا حصہ ہی معلوم ہوتی ہے۔
آر ایس ایس سربراہ کے اس ’’دعوتی پروگرام‘‘ کا ہدف اور مقصد کیا ہے؟ اسے خود ان کے بیانوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔غازی آباد کے اسٹیج سے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہے اور مسلمانوں کو یہ بات مانناچاہئے کہ ان کے پوروج ہندو تھے، اس لئے بھارت میں رہنے والے سارے لوگ ہندو ہیں۔ پھر انھوں نے بیان دیا کہ سناتن سنسکرتی بھارت کی سنسکرتی ہے اور بھارتیہ ہونا ہی ہندو ہونا ہے۔ ممبئی کے جلسے میں بھاگوت نے کہاتھا کہ آپ یہ تسلیم کریں کہ بھارت میں اسلام حملہ آوروں کے ساتھ آیا۔ اب اس نئی میٹنگ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمان ہندوؤں کو کافر سمجھنا چھوڑیں۔ موہن بھاگوت کے ساتھی رام مادھو نے بھی گزشتہ دنوں ایک خصوصی بیان میں کہا تھا کہ مسلمان بھارت میں سکون سے رہ سکتے ہیں اگر وہ لفظ کافر کا استعمال ترک کریں، خود کو مسلم امت کہنااور سمجھنا بند کریں اور جہاد کے نظرئے سے خودکو الگ کریں۔ان ساری باتوں کا لب لباب ظاہر طور سے یہ ہے کہ آر ایس ایس مسلمانوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی جداگانہ شناخت اور اپنے عقیدے کے بنیادی اصولوں سے دست بردار ہوجائیں۔
مسلم دانشوروں سے اس تازہ ملاقات کی جو نیوز اسکرپٹ این آئی اے نے جاری کی ہے اس کے مطابق ’’آرایس ایس ذرائع کی رو سے یہ میٹنگ سنگھ کے آئڈیاز کی تشہیر کرنے اور ریلیجئس انکلوسیوٹی (مذہبی شمولیت) کو بڑھاوا دینے کے لئے منعقد کی گئی۔‘‘ اسی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ میٹنگ سنگھ کی طرف سے اپنے مقاصد پورے کرنے کے لئے منعقد کی گئی،اور سنگھ کے مقاصد میں ریلیجئس انکلوسیوٹی کا مطلب کیا ہے؟ بلاشک و شبہ مذہبی انضمام۔ یعنی مسلمانوں کو “محمڈن ہندو” بنانا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان بے شک نماز پڑھ سکتے ہیں، ایک خدا میں یقین رکھ کر اس کی عبادت اپنے طریقے سے اور بغیر کسی مورتی کے کرسکتے ہیں، شادی اور موت کی رسمیں اپنی پسندسے انجام دے سکتے ہیں۔ لیکن ان کی عقیدت کا مرکز بھارت کی بھومی ہونا چاہئے، بھومی کو ماتا کی طرح ماننا چاہئے، بھارت کے اندر پیدا ہونے والے مہا پرشوں سے ویسی ہی عقیدت رکھنی چاہئے جیسی ہندو رکھتے ہیں۔ عالم گیر اسلامی وحدت کے نظرئے کو یعنی امت اسلام ہونے کی حیثیت کو بھول جانا چاہئے اور قرآن و سنت کے تصورات سے اپنے آپ کو آزاد کرلینا چاہئے۔
یہی وہ مقصد ہے جس کے لئے آر ایس ایس بنا ہے۔ جس کے لئے وہ تقریباً سوسال سے سرگرم ہے اور حکومت و سماج کے ہر شعبے کو اس فکر اور مقصد کا حصہ بنانے میں وہ کامیاب ہوا ہے۔ اسی کے لئے ملک کے تمام غیر مسلم اور غیر عیسائی فرقوں کو ہندو ہونے کے جوش سے بھرا گیا ہے اور مذہب و عقیدت کے فطری جذبات کو اشتعال دلاکرنفرت کے الاؤ میں بدلاگیا ہے، اور پھر اس نفرت آمیزی کے جذبات سے عوامی رائے دہی کو اپنے حق میں کرکے حکومت کرنے کا اختیار حاصل کرلیا گیاہے۔
اب جب کہ ملک میں آرایس ایس کی بالواسطہ حکومت ہے اور اس حکومت کے تحت مسلمان عدم تحفظ کی زندگی جینے پر مجبور ہوگئے ہیں، آرایس ایس کی ذیلی حکومتیں اور ذیلی تنظیمیں کھلے عام مسلمانوں کو دبانے، کچلنے، ذلیل کرنے اور ہر طرح سے بے دست و پا کرنے والے کام صبح و شام کررہی ہیں تو مسلمانوں کو رام مادھو یہ پیغام دیتے ہیں کہ آپ اگر ہمارے مطالبات مان لیں تو سکون سے رہ سکتے ہیں۔ اسی ماحول میں موہن بھاگوت لگاتار سربرآوردہ مسلمانوں کی میٹنگیں بلارہے ہیں اور ترغیب وترہیب سے کام لے رہے ہیں۔
اس تناظر میں یہ میٹنگ خوش آئند محسوس نہیں ہوتی بلکہ اندیشوں اور خطروں کو بڑھاتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس میٹنگ میں حصہ لینے والے یہ دانشور اور سربرآوردہ لوگ اب ایک بڑی میٹنگ کی تیاری کریں گے جس میں زیادہ مسلمانوں کو شریک کرایا جائے گا اور آر ایس ایس سربراہ کے سامنے انہیں بٹھایا جائے گا۔ اس طرح یہ ایک بہت ہمہ گیر مہم معلوم ہوتی ہے جو مسلمانوں کو بغیر کسی مزاحمت کے خود سپردگی پر مجبور کردینے پر منتج ہوسکتی ہے۔
البتہ، اگر مسلم قائدین اور سربرآوردہ لوگ خود پنے اندر اعتماد پیدا کریں، اپنے کردار و عمل سے اپنا اعتبار قائم کریں،پھر از خود پیش قدمی کریں اور آر ایس ایس کو ہندو سماج کی سیاسی، سماجی اور مذہبی قیادت مان کرہندو مسلم تعلقات کے موضوع پر مذاکرات کی بات کریں تو اسے ایک مثبت کوشش کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔ تب یہ مذاکرات ظاہر ہے کہ آرایس ایس کے یاخود کسی مسلم تنظیم کے دفتر میں خفیہ طریقے سے نہیں ہوں گے۔ بلکہ ایک قومی یا بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ثالثوں اور ملک کے دیگر مذہبی فرقوں و سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی موجودگی میں ہوں گے۔ اور اس سوال پر ہوں گے کہ دستور ہند جس تصور پر بنا تھا اور باہم ساتھ رہنے کا یہ تعلق جن اصولوں پر قائم ہوا تھا وہ اصول کیوں ٹوٹ رہے ہیں، ملک کو اکثریت کے عقیدے، نظرئے اور جذبات کا پابند بنانے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے، اور مقننہ،عدلیہ و انتظامیہ دستور اور قانون کے مطابق عملی رویہ اختیار کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟ اگر تمام فرقے یکساں آزادی، حقوق اور اختیار کے ساتھ نہیں رہ سکتے توپھر آگے کا راستہ کیا ہے؟۔
qqq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS