دل برداشتہ کرنے والی بات
کچھ لوگ کسی برائی کے خلاف باتیں کرتے ہیں اور صرف باتیں ہی کرتے ہیں، کچھ برائی کے خلاف مہم کا حصہ بنتے ہیں، اسے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو برائی کے خلاف مہم کی شروعات کرتے ہیں اور یہ تہیہ کر لیتے ہیں کہ مہم کو کامیاب بنانے تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔ بدعنوانی بھی ایسی ہی برائی ہے۔ عبدالمعین ولد مرحوم عبدالملک کا ماننا ہے کہ حج کرانے کے نظام میں بدعنوانی اپنا وجود رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی حاجیوں کو حج کے سفر کا خرچ زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے اور یہ خرچ گزرتے سال کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ نمائندہ ’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘ سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالمعین نے بتایا کہ ’سعودی عرب میں ہندوستانی قونصل خانے اور سفارت خانے کے افسران کے خلاف بدعنوانی کی شکایتیں میں نے وزارت خارجہ، سی بی آئی، سینٹرل ویجی لینس کمیشن تک کی ہیں مگر اطمینان بخش کارروائی کبھی نہیں ہوئی۔‘
عبدالمعین کو اس بات پر تو حیرت ہے کہ شکایتوں پر خاطر خواہ کارروائی کی طرف توجہ کیوں نہیں دی جاتی مگر وہ تھکے نہیں ہیں۔ شکست قبول نہیں کی ہے انہوں نے۔ عبدالمعین کا کہنا ہے کہ ’اس سال بھی تقریباً دو لاکھ عازمین حج کے سعودی عرب جانے کا کوٹا ہے۔ اس میں سے 50 ہزار عازمین حج کو ہی پرائیویٹ ٹور آپریٹرس کے توسط سے سفر حج کی اجازت دی گئی ہے، باقی عازمین حج حج کمیٹی کے توسط سے بھیجے جائیں گے۔ حج کمیٹی اس سال فی عازم حج 3 لاکھ، 75 ہزار روپے لے رہی ہے۔ اس میں ڈیڑھ لاکھ وہ ایڈوانس کے طور پر لے رہی ہے۔ دوسری طرف پرائیویٹ ٹور آپریٹرس 10 سے 20 ہزار روپے بڑھا کر لے رہے ہیں۔ یہ بات توجہ طلب ہے کہ پہلے لوگ حج کمیٹی کے توسط سے اس لیے حج کرناچاہتے تھے، کیونکہ پرائیویٹ ٹور آپریٹروں کے توسط سے جانے کے مقابلے وہ کافی سستا پڑتا تھا مگر اب فرق کافی کم رہ گیا ہے۔ دوسری طرف جو سہولتیں پرائیویٹ ٹور آپریٹرس عازمین حج کو فراہم کرا دیتے ہیں، وہ حج کمیٹی والے فراہم نہیں کرا پاتے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سفر حج کی ذمہ داری اقلیتی امور کی وزارت کے حوالے کر دی گئی ہے جبکہ کسی بھی ملک کی طرح سعودی عرب میں بھی کوئی مسئلہ پیش آتاہے تو اسے وزارت خارجہ ہی دیکھتی ہے۔ ایسی صورت میں مسئلے کی شدت بڑھ جاتی ہے، اس لیے جیسے دیگر یاتراؤں کی ذمہ داری وزارت خارجہ کے سپرد ہے اسی طرح سفر حج کی پوری ذمہ داری بھی وزارت خارجہ کے سپرد کر دی جائے۔ پہلے سفر حج کی ذمہ داری وزارت خارجہ کے ذمے ہی ہوا کرتی تھی۔ اب پھر سے ایسا ہی کر دیا جائے تو عازمین حج کی مشکلات کسی حد تک ختم ہو جائیں گی اور سہولتیں بڑھ جائیں گی مگر یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ وزارت خارجہ کے افسران اپنی ذمہ داری ایمانداری سے نہیں نبھائیں گے کیا تب بھی عازمین حج کے لیے سہولتیں بڑھ جائیں گی؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔‘
عبدالمعین نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے آگے بتایا کہ ’عازمین حج کو اگر واقعی سہولتیں فراہم کرنا ہے اور حج کے اخراجات میں کمی لانی ہے تو حج کرانے کے موجودہ نظام میں شفافیت لانی ہوگی۔ مثلاً، مکہ آفس پرماننٹ نہیں، اسے کرائے پر لینے کے سلسلے میں 2005 میں موجودہ سفیر ڈاکٹر اوصاف سعید اور ای-احمد کے ساز باز سے دفتر تبدیل کرنے کا جو معاملہ سامنے آیا، اس پر میں نے شکایت کی مگر کارروائی نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ وزارت اقلیتی امور کی بلڈنگ سلیکشن ٹیم جو جگہ عازمین حج کے لیے کرائے پر لیتی ہے، وہ کرایہ اتنا نہیں ہوتا جتنا بتایا جاتا ہے۔ حرم کے قریب گرین زمرے کی رہائش کے لیے مکہ مکرمہ میں ہر عازم حج سے 4,500 ریال اور حرم سے ذرا دور کی جگہ یعنی عزیزیہ زمرے کے لیے 2,350 ریال لیا جاتا ہے۔ اسی طرح مدینہ منورہ میں گرین زمرے کے لیے ہر عازم حج سے 900 ریال جبکہ عزیزیہ زمرے کے لیے بھی 900 ریال ہی لیا جاتا ہے یعنی اگر ایک عازم حج مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں گرین زمرے کی رہائش گاہ میں قیام کرتا ہے تو اسے 5,400 ریال ادا کرنے پڑتے ہیں اور اگر وہ عزیزیہ زمرے کی رہائش گاہ میں قیام کرتا ہے تو اسے 1,800 ریال ادا کرنے پڑتے ہیں۔ زیادہ نہیں، صرف دو دہائی پہلے کا گرین زمرے اور عزیزیہ زمرے کا کرایہ دیکھ لیجیے، حیرت ہوگی کہ کرایہ اتنا بڑھ گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ کرایہ اتنا نہیں بڑھا جتنا بدعنوانی نے اسے بڑھا دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ حج امور دیکھنے والے افسران مسلمان ہیں، وہ جانتے ہیں کہ حج اسلام کے 5 اہم ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے، کئی لوگ زندگی بھر محنت کرتے ہیں کعبہ شریف دیکھنے، حج کرنے کے لیے مگر ان مسلم افسروں نے سفر حج کو سستا اور آرام دہ بنانے کے لیے کیا کیا ہے؟‘
عبدالمعین کے مطابق، ’سشما سوراج وزیر خارجہ تھیں اور وی کے سنگھ خارجی امور کے مملکتی وزیر تھے تو بدعنوانی کے الزام میں وزارت خارجہ نے 2017 میں سی جی، محمد نور رحمن شیخ کا ٹرانسفر کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ وہیں رہے اور نہ صرف ٹرانسفر آرڈر کینسل کرا لیا بلکہ وہ اسی پوزیشن میں رہے۔ اس سے ان کے رابطے کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسی اطلاع ملی تھی کہ ایڈیشنل سی جی، شاہد عالم اور سی جی، محمد نور رحمن شیخ کے درمیان بدعنوانی کی رقم کی تقسیم پر جھگڑا ہوا تھا اور ان کی وجہ سے شاہد عالم کا دلّی ٹرانسفر ہوا مگر وہ بھی واپس بھیج دیے گئے، اب وہ سی جی بن گئے ہیں۔ سی جی، فیض قدوئی، تلمیذاحمد، ذکر الرحمن، سہیل اعجاز، بابا سعید بدعنوانی کے الزامات سے بچ نہیں سکے۔ سعودی عرب میں ہندوستان کے موجودہ سفیر ڈاکٹر اوصاف سعید پر بھی آمدنی سے زیادہ جائیداد بنانے اور دیگر الزامات ہیں مگر وہ عہدے پر فائز ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کے خلاف دی جانے والی تحریری شکایتوں پر کبھی توجہ کیوں نہیں دی گئی؟ کیا وجہ ہے کہ وزارت خارجہ نے ان کے خلاف کبھی انکوائری کرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی؟ سننے میں آ رہا ہے کہ محمد نور رحمن شیخ کے خلاف ساری انکوائری کلیئر ہوگئی ہے اور ایسی افواہ ہے کہ وہ گلف میں جوائنٹ سکریٹری بنیں گے۔‘
عبدالمعین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’حج امور کے لوکل کاموں میں وزارت خارجہ کے افسران پہلے بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو لگا دیا کرتے تھے۔ میں نے شکایت کی تو اس وقت کے خارجی امور کے مملکتی وزیر وی کے سنگھ نے اس پر توجہ دی۔ انہیں کے حکم سے ہندوستانی عازمین حج کے لیے پاکستانیوں کو لوکل کاموں سے ہٹایا گیا۔‘
عبدالمعین کا کہناہے کہ ’2010 سے 2012 تک سپریم کورٹ نے حج پالیسی میں کافی اصلاح کی تھی۔ عازمین حج کے ساتھ پہلے تقریباً دو درجن لوگوں کا وفد جایا کرتا تھا لیکن جسٹس آفتاب عالم کی بینچ کے حکم سے یہ تعداد کافی کم کر کے 2 کر دی گئی۔ جسٹس آفتاب عالم نے پرائیویٹ ٹور آپریٹرس کی پالیسی میں بھی اصلاح کی تھی۔ اس میں یہ موضوع بھی زیر بحث آیا تھا کہ جہازوں کے کرائے کے لیے عالمی سطح پر بولی کیوں نہیں لگائی جاتی لیکن اس سلسلے میں کامیابی نہیں ملی۔ سپریم کورٹ نے یہ بات کہی تھی کہ حج پالیسی اور سفر حج کی انجام دہی میں سرکار وقت وقت پر اصلاح کرے اور اسے آگاہ کرائے۔ عدالت عظمیٰ نے کہاتھا، اقلیتی امور کی وزارت کو یہ اختیارہے کہ اس سلسلے میں اصلاح کرے اور سپریم کورٹ کو اطلاع دے۔‘
عبدالمعین ذرا ٹھہر کر پھر اپنی گفتگو شروع کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مگرایسا لگتا نہیں کہ اصلاح یا بدعنوانی کو ختم کرنے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی جا پا رہی ہے۔ اندرون ملک پچھلے برسوں میں حج پالیسی میں کیا اصلاح ہوئی ہے؟ سفر حج کرانے میں کیا واقعی بدعنوانی ختم کی جا سکتی ہے؟ سفیر سفارت خانے کا سربراہ ہوتا ہے اور سعودی عرب میں ہندوستان کے سفیر ڈاکٹر اوصاف سعید پر ہی بدعنوانی کے الزامات ہیں، پھر وہ اپنے ماتحت افسران کو بدعنوانی سے کیسے روک پائیں گے مگر اس بات کا خیال نہیں، ورنہ میری طرف سے کی جانے والی تحریروں شکایتوںپر توجہ دی گئی ہوتی۔‘
عبدالمعین کے مطابق، ’ایک حج اپلی کیشن فارم بھرنے کی فیس 300 روپے لی جاتی ہے۔ لاکھوں لوگ فارم بھرتے ہیں۔ اس سے کروڑوں روپے آتے ہیں۔ یہ روپے refundableنہیں ہیں تو یہ کس کھاتے میں جاتے ہیں۔ ان کا استعمال کیا ہوتا ہے؟ عازمین حج سے ایڈوانس روپے لیے جاتے ہیں۔ ان کا انٹرسٹ کہاں جاتا ہے؟ سعودی عرب میں عازمین حج کو متعینہ ریال دیے جاتے ہیں۔ ریال کی قدر گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ یہ سوال جواب طلب ہے کہ کیا مارکیٹ کی قدر کے حساب سے ہی عازمین حج کو ریال دیے جاتے ہیں؟ سوال اور بھی ہیں۔ ‘
عبدالمعین کا کہنا ہے کہ ’میں نے سفر حج کو بدعنوانی سے پاک کرنے کے سلسلے میں سشماسوراج کے وزیر خارجہ اور وی کے سنگھ کے خارجی امور کے مملکتی وزیر رہتے ہوئے لکھا تھا۔ سابق خارجہ سکریٹری کو بھی لکھا۔ اس سلسلے میں سی بی آئی ڈائریکٹر، سی وی سی، ای ڈی کو لکھ چکا ہوں۔سی وی او کو لگاتار لکھا مگر وہ اپنی ذمہ داری کبھی ادا نہیں کر سکے۔ اور بھی دیگر ذمہ دار شخصیتوں اور اداروں کو لکھاہے مگر کہیں بھی تحریری شکایتوں پر اطمینان بخش کارروائی نہیں ہوئی۔ یہ بات دل برداشتہ کرنے والی ہے، اب ساری امیدیں وزیراعظم نریندر مودی سے وابستہ ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS