حج امور کی ذمہ داری پہلے وزارت خارجہ کے پاس تھی۔ بعد میں یہ ذمہ داری اقلیتی امور کی وزارت کے حوالے کر دی گئی۔ محمد امین الیکشن کمیشن آف انڈیا میں جوائنٹ ڈائرکٹر رہے ہیں، وہ وزارت خارجہ سے بھی وابستہ رہے ہیں، چنانچہ حج امور میں اصلاح کی ضرورتوں سے واقف ہیں اور ان خامیوں سے بھی واقف ہیں جنہیں دور کر دینے سے سفر حج پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ نمائندہ ’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد امین نے بتایا کہ ’سفر حج میں اصلاح کا سلسلہ 1997 میں منیٰ فائر کے بعد شروع ہوا۔ پہلے عازمین حج سفرمیں تیل، چاول، گھی یعنی کھانے پینے کی ساری چیزیں لے کر جاتے تھے تاکہ کسی طرح کی پریشانی نہ ہو مگر منیٰ فائر کے بعد تبدیلیاں آئیں۔ اس کے بعد اصلاح کا دور جاری رہا مگر سفر حج مہنگا ہوتا چلا گیا۔ اس کی وجہ حج امور میں افسران کی بدعنوانی ہے۔ موجودہ سفیر ڈاکٹر اوصاف سعید، جدہ میں کونسل تھے تو وہ بدعنوانی کے الزام میں ہٹا دیے گئے تھے۔ انہیں ای-احمد قونصل جنرل بناکر لے آئے۔ ان پر نیا الزام یہ ہے کہ جدہ کے انڈین اسکول میں کمپیوٹر کا کانٹرکٹ حیدرآباد کے ایک فرم کو دے دیا۔ اس اسکول کے پرنسپل نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ایک اور صاحب تھے ذکرالرحمن، وہ ریاض میں قونصل حج تھے۔ وہ خود کو الزامات سے بچا نہیں سکے۔ تلمیذ احمد بھارت سرکار میں جوائنٹ سکریٹری تھے۔ گلف اینڈ حج دیکھتے تھے۔ وہ بھی بدعنوانی کے الزام سے بچ نہیں سکے۔ سہیل اعجاز کی شبیہ بھی شفاف نہیں مانی جاتی۔ محمد نور رحمن شیخ کونسل تھے۔ وہ متذکرہ شخصیتوں سے مختلف نہیں تھے۔ اوصاف سعید کے بعد قونصل جنرل بابا سعید بنائے گئے تھے۔ وہ رہنے والے کشمیر کے ہیں لیکن سکم سے ٹرائبل کوٹا سے آئے ہیں خود کو لداخی ٹرائبل بتا کر۔ افضل امان اللہ کے ساتھ ہم لوگوں نے سفر حج کو آسان بنانے کی بڑی کوشش کی تھی مگر اب بہتر یہی لگتا ہے کہ حکومت جیسے باقی تمام شعبوں کی نجکاری کر رہی ہے، سبھی حاجیوں کی ذمہ داری بھی پرائیوٹ ٹور آپریٹروں کے حوالے کر دے تاکہ مختلف ٹور آپریٹروں کے مابین ہونے والی مقابلہ آرائی سے سفر حج سستا ہو اور وہ بدعنوانی بھی نہ ہو جس کی بات آج کی جاتی ہے۔ اگر عازمین حج کا سارا کوٹا پرائیویٹ ٹورس آپریٹرس کو دینا ممکن نہیں تو سرکار ایک کام اور کر سکتی ہے۔ حاجیوں کی بچی ہوئی 3,000 کروڑ کی رقم بینک میں ہے۔ اس کا سالانہ انٹرسٹ ہی 79 کروڑ آتا ہے۔ وزیراعظم مودی اس رقم سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حج ہاؤس بنوا دیتے ہیں تو ہر حاجی کا 50 سے 60 ہزار روپے بچنے لگے گا۔ اس سے پی ایم مودی کی اندرون ملک مسلمانوں میں مقبولیت بڑھے گی تو عالمی سطح پر وہ یہ دکھا سکیں گے کہ مسلمانوں کو سہولتیں دینے کے لیے ان کی حکومت سنجیدہ ہے، ان کی حکومت کے مسلم مخالف ہونے کا پروپیگنڈا غلط ہے لیکن یہ کام بہت سنبھال کر کرنا ہوگا۔ قونصل جنرل فیض قدوئی نے یو پی اے-II کے وقت میں ڈیڑھ لاکھ حاجیوں کے لیے بلڈنگ بنانے کی کوشش کی تھی مگر آنجہانی ششما سوراج نے یہ پروجیکٹ مسترد کر دیا ۔بدعنوانی کے پیش نظر اچھا ہی کیا۔‘
مودی سرکار نے حج سبسڈی 2018 میں ختم کر دی۔ اس سبسڈی کے بارے میں محمد امین کا کہنا ہے کہ ’پہلے لوگ جہاز سے حج پر جایا کرتے تھے مگر جہاز سے سفر حج پر جانے میں دشواری پیش آئی تو اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے 1984 میں عازمین حج کو پانی کے جہاز کے کرائے پر ہی ہوائی جہازسے بھیجا۔ پانی کے جہاز اور ہوائی جہاز کے کرائے میں جو فرق آیا، اسے سرکار نے سبسڈی کی شکل میں دیا۔ یہ بات واضح کر دی گئی تھی کہ یہ سبسڈی ایک سال کے لیے ہی ہوگی، البتہ ایسا نہیں ہوا۔ کانگریس کے کچھ مسلم لیڈروں کا خیال تھا کہ حج سبسڈی چلتی رہی تو پارٹی مسلمانوں کے ووٹ لیتی رہے گی، مسلمانوں پر احسان جتاتی رہے گی۔ اس سے غیرمسلموں میں غلط فہمی پیدا ہوئی جبکہ حج سبسڈی صرف کرائے پر دی جاتی تھی، سفر حج کے تمام اخراجات پر نہیں۔ اس کی ضرورت آخر کیا تھی؟ یہ بات کہی گئی کہ جہاز حاجیوں کو چھوڑنے سعودی عرب جاتے ہیں تو انہیں واپسی میں خالی آنا پڑتا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ سعودی حکومت حاجیوں کو لانے لے جانے والے جہازوں میں تیل بھرنے کا پیسہ نہیں لیتی یعنی جہاز حاجیوں کو لے کر جائے گا تو اسے تیل فری میں ملے گا۔ اس کے باوجود ایئر انڈیا والے کرائے بڑھاتے رہے۔ سنا ہے کہ ہوابازی کی وزارت کے افسران ایک سیٹ پر 4 ڈالر کمیشن لیتے تھے جو اب شاید بڑھ گیا ہو۔ اے آر رحمن جب راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین تھے تو وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان میں حج کرانے کا سسٹم انڈونیشیا اور ملیشیا کے حج سسٹم کے مطابق ہو مگر وہاں کا سسٹم الگ ہے۔ وہاں جوانی میں حج کرنا لازمی سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں اکثر لوگ بڑھاپے میں حج کے لیے جاتے ہیں۔‘
محمد امین کا کہنا ہے کہ ’سفر حج کو مہنگا بنانے میں سال بہ سال مہنگی ہوتی رہائش گاہ نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ دو دہائی پہلے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں 40 دن کے لیے رہائش گاہ کے انتظام پر عازمین حج کو 200 سعودی ریال دینے پڑتے تھے مگر یہ رقم 900 سعودی ریال ہوگئی، پھر تقریباً 6000 سعودی ریال ہو گئی۔ رہائش گاہیں شہر سے 9 کلومیٹر باہر ملنے لگیں۔ دراصل عازمین حج کی رہائش کے لیے زیادہ تر بلڈنگوں کے مالکین اور وزارت خارجہ کے درمیان براہ راست بات چیت اور معاہدہ نہیں ہوتا،معاہدہ وزارت اور بچولیوں کے درمیان ہوتا ہے۔ اس سے کمیشن کی گنجائش برقرار رہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق، بچولیوں کا تعلق ہندوستان کے علاوہ بنگلہ دیش سے ہوتا ہے اور پاکستان سے بھی۔ بچولیوں نے اتنا پیسہ کمایا ہے کہ کروڑوں روپے کے گھر اور گاڑیاں خریدی ہیں، چنانچہ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ عازمین حج کی رہائش گاہ کے انتظام میں بدعنوانی کی گنجائش نہیں رہتی۔‘

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS