یہ سوال فطری طور پر ذہن میںاٹھتا ہے کہ سفر حج اتنا مہنگا کیوں ہے؟ عام دنوں میں عمرہ کے لیے لوگ جاتے ہیں تو پرائیویٹ ٹور آپریٹرس انہیں 70-60 ہزار روپے میں 15 دنوں کا ٹور پیکیج دیتے ہیں۔ مثلاً، 35 لوگ اگر ایک ساتھ عمرہ کے لیے جاتے ہیں تو ایک ٹریول ایجنسی کا اس سال کا اکنامی عمرہ پیکیج 68,000 روپے کا ہے۔ اس میں بھی اگر روم شیئر کرتے ہیں تو یہ پیکیج 55,999 روپے میں دیا جائے گا۔ اس ٹور پیکیج میں مکہ مکرمہ میں حرم سے 800 میٹر کی دوری پر رہنے کی سہولت ہوگی تو مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے گیٹ نمبر 6سے 400 میٹر دور رہنے کی سہولت ہوگی۔ اس ٹور پیکیج میں جو سہولتیں دی جائیں گی، ان میں آنے جانے کا ایئر فیئر، 7 رات مکہ مکرمہ میں اور 7 رات مدینہ منورہ میں قیام، عمرہ ویزہ کے ساتھ انشورنس، ٹرانسپورٹ، کھانے، لونڈری، عمرہ بیگ، 5 لیٹر زم زم، عمرہ پر جانے سے پہلے عمرہ کی ٹریننگ، اگر ضرورت پڑی تو کووِڈ-19 کا ٹسٹ وغیرہ سہولتیں دی جائیں گی۔ دوسری طرف حج کمیٹی اس سال عازمین حج سے 3,75,000 روپے لے رہی ہے۔ اس میں سے 1,50,000 ایڈوانس دینے ہوں گے۔ اس سے کچھ ہی زیادہ رقم میں پرائیویٹ ٹور آپریٹرس حج پیکیج دے رہے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
حج کمیٹی کے پاس پورا سیٹ اَپ ہے۔ اس کی مدد کے لیے اقلیتی امور کی وزارت، وزارت خارجہ، ہوابازی کی وزارت ہے۔ اس کے توسط سے ایک لاکھ سے زیادہ عازمین حج سفر حج پر جاتے ہیں تو کیا وہ کرائے کی رقم کم نہیں کرا سکتی تھی؟ کیا وہ رہائش گاہ کا سستا انتظام نہیں کر سکتی؟ یہ بات مانی نہیں جا سکتی کہ پرائیویٹ ٹور آپریٹرس صرف مذہبی خدمات کے لیے حج پیکیج دیتے ہیں، وہ نفع نہیں لیتے۔ وہ حکومت کے سیٹ اَپ پر انحصار کرتے ہیں۔ کم تعداد میں عازمین حج کو سفر حج پر بھیجتے ہیں اور اس کے باوجود 20 -10 ہزار روپے ہی زیادہ لیتے ہیں تو ایسا کیوں؟ کیا کم تعداد میں عازمین حج کو بھیجنے کے باوجود انہیں اورحج کمیٹی آف انڈیا کو ایک سا ایئر فیئر دینا پڑتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ واقعی تعجب کی بات ہے۔ اسی طرح کم عازمین حج کی رہائش گاہ کا انتظام کرنے کے باوجود پرائیویٹ ٹور آپریٹرس کو اگر اتنی ہی رقم دینی پڑتی ہے جتنی رقم حج کمیٹی کو عازمین حج کی رہائش گاہ کے لیے دینی پڑتی ہے تو یہ بھی حیرت کی بات ہے۔
سب سے زیادہ حیرت کی بات تو یہی ہے کہ حج کمیٹی غیر منافع بخش ادارہ ہے اور اس کے باوجود اس کے اور پرائیویٹ ٹور آپریٹرس کے پیکیج میں 20 -10 ہزار روپے کا ہی فرق ہے۔ عام مسلمان، بالخصوص غریب مسلمان وزیراعظم نریندر مودی سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ اس فرق کو ختم کریں۔ حج کمیٹی کے حج پیکیج کو سستا کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ ان کے لیے عازمین حج کو لے جانے اور حاجیوں کو لانے کے لیے جہاز ہائر کرنے کے لیے عالمی سطح پر بولی لگائی جائے۔ عازمین حج سے خاصا پیسہ ایڈوانس لے لیا جاتا ہے تو اس سے ان کی رہائش گاہ کا بہتر انتظام پہلے سے کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ مکہ مکرمہ میں حرم اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی سے جگہ قریب مل سکے اور رہائش گاہ بھی زیادہ مہنگی نہ ہو۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حج امور دیکھنے والے سبھی افسران مسلمان ہی ہیں، اس لیے عازمین حج یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے ساتھ تفریق کی جاتی ہے۔ حج پیکیج کو مہنگا بنانے میں بدعنوانی چاہے جس حد تک بھی رول ادا کرتی ہے یا جن امور میں بھی ہے، اس کے لیے وہ لوگ ذمہ دار ہیں جو جانتے ہیں کہ اسلام کے پانچ ارکان میں ایک ضروری رکن حج ہے اور یہ بات بھی ان سے پوشیدہ نہیں ہے کہ کچھ لوگ ایک ایک ٹکا یا ایک ایک روپیہ جمع کرتے ہیں تاکہ اللہ کے گھر کا دیدار کر سکیں۔بدعنوانی میں ملوث افسران کے خلاف جب تک کارروائی نہیں ہوگی، حج کرانے کے نظام میں مثبت تبدیلی نہیں آئے گی!

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS