عمیر انس: مکالمہ برائے ہندو مسلم مصالحت

0

عمیر انس

ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت اور عداوت کے جذبات پھل پھول رہے ہیں اور لوگ ایک دوسرے کے خلاف تشدد اور نفرت انگیز خیالات کا استعمال کر رہے ہیں، اس لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مکالمات ہونے چاہیے، اس بنیادی دلیل کے پس منظر میں ماضی اور ابھی حال میں مسلمانوں کے بعض سرکردہ رہنماؤں نے آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک جناب بھاگوت صاحب سے ملاقات کی، ملاقات کے نتائج میڈیا میں آئے اور اس کے بعد باقی ملت کا رد عمل شروع ہوا، اصولی طور پر یہ بیحد خوش آئند بات ہے کہ اس قسم کی گفتگو شروع ہوئی ہے، میرا خیال ہے کہ اس قسم کی گفتگو کی بنیاد جماعت اسلامی ہند نے ڈالی، جب ان کے لوگ اندرا گاندھی سرکار کی ایمرجنسی کے خلاف جنتا پارٹی کے ساتھ مل کراحتجاج میں شامل ہو گئے تھے، ان کے بڑے رہنما اور سنگھ پریوار کے سرکردہ رہنما عموماً ایک ہی جیل میں قید ہوا کرتے تھے، اس کاتذکرہ جماعت اسلامی کے غیر رسمی مورخ جناب انتظار نعیم صاحب نے ایمرجنسی کے دوران جماعت پر آزمائشوں کے بارے میں لکھی دستاویزی کتاب میں بھی کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ انتظار نعیم صاحب اس دور میں آر ایس ایس اور مسلمانوں کے درمیان مذاکرات کو گہرائی سے جاننے اور سمجھنے والے ملک میں اکیلی شخصیت ہیں اور ان کی کتاب اس بات کی گواہ ہے۔ حالیہ برسوں میں ادھر جمعیت العلماء کے سرکردہ رہنماؤں نے بھی یہ تجربہ کیا تھا، بلکہ یاد آتا ہے کہ پاکستان کے مشہور جمعیت العلماء کے عالم مولانا فضل الرحمن صاحب نے اٹل بہاری واجپئی کے دور حکومت 2004میں دہلی میں وشو ہندو پریشد اور سنگھ کے اعلیٰ ذمہ داروں سے ملاقات کی تھی، یہ پہلا موقع تھا کہ کسی پاکستانی اسلام پسند جماعت کے رہنما نے ہندو تنظیموں سے باقاعدہ ملاقاتیں کی تھیں، جہاں تک آج کے حالات کا سوال ہے تو میرا خیال ہے کہ اس بات کا شکوہ نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستانی مسلمانوں میں سنگھ پریوار سے بہتر تعلقات رکھنے والوں کی کوئی کمی ہے۔
لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ سنگھ اور پریشد کے ذمہ داروں سے ملاقاتیں کرنا اتنا اہم کیوں ہے، ملک میں ہزاروں ہندو تنظیمیں اور ان کے نمائندے ہیں، اگر مقصد یہ ہے کہ ہندو مسلمان تعلقات بہتر ہوں تو ہر قسم کے ہندوؤں سے ہمیشہ اچھے تعلقات اور تبادلہ خیال جاری رہنا چاہیے، موجودہ ملاقات کو جو جناب نجیب جنگ، جنرل ضمیر الدین شاہ، شاہد صدیقی، سلیم شیروانی اور ایس وائی قریشی صاحبان نے کی ہے بڑی اہمیت کی حامل ہے، ممکن ہے کہ اس کے نتائج فوری طور پر نظر نہ آئیں لیکن کئی وجوہات سے اس دور ملاقات سے حسن ظن رکھنا چاہیے۔
اس قسم کی ملاقاتوں کے بارے میں مشہور ہے کہ لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لیے ملتے رہتے ہیں، لیکن اس ملاقات میں ذاتی مفادات اور مجبوریوں کے معاملے نہیں ہیں، یہ اعتماد کیا جا سکتا ہے کہ یہ حضرات ماضی میں ایک بڑی جد و جہد کرکے یہاں تک پہنچے ہیں، یہ اس قسم کے سیاستداں بھی نہیں ہیں جنہیں معمولی کاموں کے لیے ہر در پر سجدوں کی ضرورت پڑی ہو، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گزشتہ سالوں میں مسلمانوں کے مسائل پر ایک واضح روڈ میپ کے ساتھ کام کیا ہے، آپ ان سے اختلاف کریں یا اتفاق لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو ایک واضح ایجنڈے کے ساتھ بات چیت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور موثر انداز سے مذاکرات کرسکتے ہیں۔ ماضی میں اس قسم کے مذاکرات کی جتنی کوششیں ہوئی ہیں عموماً انفرادی نوعیت کی رہی ہیں اور اس میں مسلمانوں کے مسائل سے زیادہ سیاسی مصلحتیں زیر غور رہی ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملاقات سچ مچ میں کسی بڑی تبدیلی کا آغاز ہو سکتی ہے؟ یہ بہت مشکل سوال ہے، اس قسم کی ملاقاتیں کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہیں کہ فوراً نتائج سامنے آجائیں لیکن یہ ضرور ہے کہ نئی گفتگو اور امکانات کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
میرے نزدیک کسی بھی مذاکرات کے لیے خاص طور پر جب وہ ایک انتہائی طاقتور فریق اور انتہائی بیچارے اور کمزور فریق کے درمیان ہوں تو کمزور فریق کو ہی زیادہ لچک اور قربانی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے،اس لیے ایک کمزور فریق کے لیے گفتگو کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے مطالبات اور توقعات بیحد متعین ہوں، ظاہری رسم و رواج اور حسن اخلاق کے مظاہرے سے مسائل تو حل نہیں ہوتے، مسلمانوں کے اس ملک میں اگر کوئی پانچ مسائل سب سے اہم اور سب سے متعین طور پر کسی مذاکرات کا حصہ بنائے جائیں تو وہ یہ ہیں کہ
پہلا، ملک کا قانون ملک کے ہر شہری کے لیے یکساں طور پر نافذ کرنے کی گارنٹی، ہندوستانی دستور، انتظامیہ اور عدلیہ پر مسلمانوں کا اعتماد اول دن سے بے حد مستحکم ہے، لیکن کیا اس دستور کو انتظامیہ اور مقننہ پوری شفافیت کے ساتھ ملک کے سبھی شہریوں کے لیے نافذ کر رہی ہیں؟ کسی بھی معمولی ریسرچ سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اسکالرشپ سے لے کر نوکریوں تک اور گرفتاریوں سے لے کر مقدمات تک نام دیکھ کر لہجہ بدل جاتا ہے، مسلمان چوری کرے تو ملک کی سالمیت سے لے کر دہشت گردی تک کی دفعات لگائی جاسکتی ہیں، غیر مسلم چوری کرے تو وہ روٹین کا جرم ہے، اخبارات میں مسلمان ملزموں کا کوریج اور غیر مسلم ملزموں کا کوریج اس بات کی دلیل ہے کہ جرائم پر قانون بلکہ عوام کا بھی رد عمل جرم کرنے والے کا مذہب اور ذات پتہ ہونے کے بعد ہوتا ہے، ان مذاکرات میں مسلمانوں کے لیے الگ سے کسی رعایت اور رخصت مانگنے کے بجائے صرف اتنی گزارش کی جائے کہ آپ پولیس، عدلیہ، میڈیا اور انتظامیہ کو مذہب اور ذات کی بنیاد پر تفریق کرنے سے روک دیں، بس ایک عام شہری ہونے کی وجہ سے مسلمان کو بھی اپنا حق اسی طرح سے مل جائے جیسے سب کو مل رہا ہے۔
دوسرا مطالبہ یہ ہوکہ ملک کی ترجیحات اور عوام کی ترجیحات اور مسلمانوں کی ترجیحات الگ الگ نہیں ہوسکتیں، حکومت اور پارٹی اس بات پر ایک رائے بنا لے کہ اس کے لیے زیادہ اہم اور زیادہ ضروری کیا ہے، عوام کی بہبود، روزگار، معاشی ترقی، خواتین کا تحفظ، بچوں اور بزرگوں کی صحت، شہری مسائل، جیسے وہ مسائل ہیں جن کا منفی اثر بلا تفریق ملت و مذہب سب پر ہو رہا ہے، لیکن حکومت اور پارٹی اور ان کے ہمنوا میڈیا کی روزمرہ کی گفتگو سے واضح ہے کہ یہ روز مرہ کے مسائل سب سے غیر اہم ہیں۔ سیاستدانوں اور میڈیا کے اینکروں کی بحثوں اور تقریروں میں یہ مسائل غائب ہیں، گفتگو میں یہ بات کی جائے کہ کیا مسلمانوں کے رہن سہن، کھانے پینے اور ان کے اداروں پر ساری توجہ فوکس کرنے سے ملک اپنے اہم مسائل سے غفلت نہیں برت رہا ہے، اگر مسلمانوں اور سنگھ پریوار دونوں اس ملک کے مستقبل کے لیے فکرمند ہیں تو دونوں کو ایک مفاہمت کرنی ہی ہوگی کہ اگلے دس سالوں تک وہ معاشی، تعلیمی ترقی پر متوجہ رہیں گے۔
تیسری بات جس پر مذاکرات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ملک کی سالمیت اور اس کا اتحاد ناقابل مصالحت نقطہ ہے۔ ملک کو درپیش خارجی خطرے سے بچانا ملک کے ایک ایک شہری کی ذمہ داری ہے۔ کیا ملک کی سالمیت کی حفاظت کو صرف پاکستان سے خطرہ ہے، کیا امریکہ، اسرائیل، چین، روس، فرانس اور برطانیہ اب اتنے شریف ہوگئے ہیں کہ اب ان سے کسی بھی قسم کا خطرہ باقی نہیں رہا ہے، کیا دہشت گردی کے علاوہ باقی سارے خطرات ختم ہوچکے ہیں، کیا ماحولیاتی آلودگی، اینرجی سیکورٹی اور ہندوستانی تجارت کے لیے عالمی بازار میں شفاف اور مساوات پر مبنی شرکت کا حق ضروری نہیں ہے؟ کیا ملک کی سالمیت صرف حدود کی حفاظت سے ممکن ہے؟ اگر یہ ملک ایک مضبوط اقتصادی طاقت کے طور پر چند سالوں میں مستحکم نہیں ہو سکتا تو چین کی بڑھتی طاقت کے سامنے کتنی دیر تک کھڑا رہ سکتا ہے؟ مسلمان ہونے کے ناطے مسلمانوں کو ملک کی سالمیت پر فکرمند ہونا ضروری ہے اور اس معاملے پر ان کے اور برادران وطن کے درمیان مشترک فکر کا ہونا بیحد ضروری ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اس اہم موضوع پر گفتگو صرف چند محدود لوگوں کے درمیان ہو رہی ہے۔
چوتھی اہم بات یہ ہے کہ سنگھ پریوار مسلمانوں کو کس نقطہ نظر سے دیکھتا ہے، اس کے بارے میں بہت تفصیلی گفتگو ہونی چاہیے۔ اسی طرح مسلمان ہندوؤں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اس پر گفتگو کی ضرورت ہے۔ ملک میں ہندوؤں کے خلاف نفرت پھیلانے والی ہر کتاب، ہر فلم، ہر تقریر پر پابندی عائد ہونی چاہیے اور قانونی طور پر گرفت ہونی چاہیے۔ مسلمان اور سنگھ مل کر ایک کمیٹی بنائیں اور ان افراد، اداروں، کتابوں، مقررین کی نشاندہی کریں جو ملک میں ہندوؤں یا مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے میں ملوث ہیں۔ ایک مشترکہ کمیٹی ہی اس بات کا صحیح فیصلہ کر سکتی ہے کہ کیا باتیں قابل گرفت ہیں اور کیا نہیں۔ یہ بیحد خوش آئند بات ہے جو جناب جنرل ضمیر الدین شاہ، جناب نجیب جنگ اور شاہد صدیقی صاحبان کے وفد نے تجویز کی ہے کہ مسلمان گئو کشی کے معاملے میں ایک واضح موقف اختیار کرلیں اور سنگھ پریوار سے اس سلسلے میں مزید گفتگو کرکے انہیں یقین دہانی بھی کرائی جائے، بالکل اسی طرح سنگھ کی جانب سے مسلمانوں کے لیے تکلیف دہ مسائل پر اسی مشترکہ کمیٹی میں گفتگو ہو۔
میرا مشورہ تو یہی ہے کہ اس وفد نے جو اعتماد اور حسن ظن کی فضا ہموار کی ہے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ملی تنظیموں کو اس پیش رفت کا استقبال کرنا چاہیے اور اس کوشش میں اپنی شمولیت کو یقینی بنائیں اور اس کا سب سے مبارک قدم یہی ہو سکتا ہے کہ تین نمائندے سنگھ کے خصوصاً اندریش کمار صاحب اور چار پانچ نمائندے مسلمانوں کے ایک کمیٹی بنائیں اور اگلے چھ سات مہینوں میں فرقہ وارانہ اتحاد اور ملک کی بہتری اور ترقی کے لیے ایک مشترکہ طویل مدتی نکات کا اعلان کردیں۔ ہندو اور مسلمان عوام ان نکات پر متحد ہوکر ایک نئے سماجی اور سیاسی رشتے کا آغاز کریں، اللہ کرے یہ مشکل خواب آسان ہو!
(مضمون نگار انقرہ یلدرم بیازت یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور دہلی میں قائم سینٹر فار اسٹڈیز آف پلورل سوسائٹیز کے ڈائریکٹر ریسرچ ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS