طالبان کوراہِ راست پر لانے کی کوشش

0
Al Jazeera

افغانستان سے مغربی اورناٹو افواج کا انخلاء ہوگیا ہے مگر وہاں ابھی تک نہ تو حقیقی نظام حکومت قائم ہو سکا ہے اور نہ ہی بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیاجارہا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ افغانستان خارجی طاقتوں کا بازیچہ اطفال بناہواہے اور یہاں کی آبادی کو ابھی تک امان حاصل نہیں ہوا ہے، سوویت یونین کا حملہ، اقتدار پر قبضہ بعدازاں روس فوج کا انخلاء اور پھرناٹو افواج کی مشترکہ فوجی کارروائی نے پورے ملک کو بدترین بحران کا شکاربنا رکھا۔ حد تو یہ ہے افغانستان میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک امریکہ اور مغربی ممالک کی سرپرستی والی حکومت قائم رہی اور من مانی کرتی رہی، باراتوں، جہازوں اور عوامی تقاریب پربم برسائے گئے اور اسی سب کچھ کے باوجود مغربی ممالک انسانی حقوق، حقوق نسواں جمہوریت کے قیام کی دہائیاں دیتے رہے۔
اگست2021میں اقتدار میں لوٹنے کے بعد مغربی ممالک نے طالبان کے تئیں رویہ میں کوئی بڑا سمجھوتہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی ناٹو اور امریکہ افواج کے انخلاء کے بعد طالبان کے رویہ میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ افغانستان میں ناٹو اور امریکی افواج نے 2001میں حملہ کیا تھا اور اس قدیم سماجی اقدار اور سخت مذہبی اصولوں والے اس سماج میں 2001کے بعد سے اب تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، جب وہاں سے مغربی افواج کا حملہ ہواتو تاثر پیش کیا جارہا تھا کہ مغربی ممالک پہاڑوں اور بیابانوں والے اس ملک کی کایا پلٹ دیں گے مگر بدقسمتی سے دودہائیوں سے زیادہ عرصہ تک اقتدار میں رہنے اور سیاہ سفید کا مالک ہونے کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، جس کا صدر ہوائی جہاز میں اربوں کی رقم لے کر بھاگاہوا اور اس کے پیچھے پیچھے سب سے بڑے ملک کا سربراہ بھی فرارہوگیاہو، وہاں کسی اقتصادی نظام کا برقرار رہنا بعیداز قیاس ہے۔ آج پوری دنیا یہ رونا تو رو رہی ہے کہ طالبان نے لڑکیوں کے اسکول کالج بند کردیے،ان کو ملازمتیں چھوڑکر گھربیٹھنے کی صلاح دی ہے مگر اس بات کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے کہ جس ملک میں کھانے کو روٹی، پینے کوپانی،بجلی، سڑک اور بنیادی اجناس اور غذائیں، بینک کا نظام بالکل تہس نہس اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ملازمین اور سرکاری افسران کو دینے کے لیے تنخواہیں نہیں ہیں، وہاں حقوق نسواں اور جمہوریت کا قیام کس طرح ممکن ہے؟
افغانستان سے حال ہی میں جوخبریں آرہی ہیں ان سے یہ نہیں لگتا کہ طالبان نے اس قدر طویل جدوجہد سے کوئی سبق سیکھاہے، ان کے رویہ میں ابھی بھی وہی روایتی جارحیت، ہٹ دھرمی اور وہاں کے حکمرانوں کا وہی رویہ ہے جو ملاعمر کے دور اقتدار میں تھا۔ عالمی برادری کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ سعودی عرب جس نے پہلی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں کوئی پس وپیش نہیں کیا تھا، اس نے طالبان کے موجودہ اقتدار میں اس کے ساتھ کوئی راہ ورسم نہیں رکھاہے۔ پڑوسی ملک پاکستان جو کہ سوویت یونین کے خلاف طالبان کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دے رہا تھا،اس سے بھی طالبان کے مراسم کوئی خوشگوار نہیں ہیں۔ پوری دنیا سے الگ تھلگ طالبان پتہ نہیں کون سانظام قائم کرناچاہتے ہیں جو ان کے عام شہری، معصوم بچوں اور سماج کے انتہائی حاشیہ پر زندگی بسر کرنے والی خواتین کو کھلی ہوا میں سانس لینے کی مہلت نہیں دے رہا ہے۔ تقریباً دوسال تک افغانستان میں اقتدار میںرہنے اور بدترین نظام چلانے والے طالبان کو لگنے لگاہے کہ شاید وہ پوری عالمی برادری سے کٹاہوا ہے۔ قطر جس نے طالبان اور عالمی برادری بطور خاص امریکہ کے درمیان مذاکرات کے انعقاد کے لیے راہ ہموار کی تھی۔ آج بھی طالبان کو عالمی برادری سے ربط پیدا کرانے کی جستجو کررہاہے۔
ایک بار پھر قطر امریکہ اور طالبان میں تعطل ختم کرانے کی کوشش کررہاہے۔ قطر کے وزیراعظم محمد بن عبدالرحمن الثانی نے طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اختر زادہ سے براہ راست ملاقات کرنے، طالبان کے اچھوتے پن کو ختم کرنے، افغانستان میں بنیادی تصفیہ طلب ایشوز پر بات کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ محمد بن عبدالرحمن الثانی مسلسل امریکہ کے صدر جوبائیڈن کے ساتھ رابطہ میں ہیں۔
سماج کے ہر طبقہ کویکساں حقوق ملنے چاہئیں چاہے وہ کسی بھی جنس، فرقہ یا مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں۔ ایک شفاف، ایمان دار اور مساوات پرمبنی حکومت کا یہی مقصد ومنشاہونا چاہیے۔ طالبان جو کہ مسلسل اسلام اور اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں شاید اس بنیادی مقصد میں ناکام ہیں، آج کے انتہائی جدید تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں جب میڈیا یا سوشل میڈیا کے ذریعہ ایک منٹ میں طویل مسافت طے کردی ہے، اس زمانے میں عورتوں کو اور بچوں کو چہاردیواری میں چن دینا حماقت اور اول درجہ کی جارحیت ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS