ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں: شاہنواز احمد صدیقی

0

شاہنواز احمد صدیقی

شام میں 2011میں خانہ جنگی کے بعد کئی پڑوسی عرب ملکوں نے اس کے ساتھ مراسم منقطع کرلیے تھے اور کئی علاقائی طاقتوں نے تو بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کے لیے وہاں کے باغیوں کو ہر اعتبار سے مدد کرنی شروع کردی تھی۔ 12سال سے زیادہ عرصہ تک یہ عظیم ملک جو پیغمبروں اور نبیوں اور صحابہ کرام کی سرزمین رہاہے، خارجہ طاقتوں، عسکری، دہشت گردی اوربدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کانہ صرف گڑھ رہا ہے بلکہ یہاں پنپنے والی فوجی طاقتوں نے عراق اور دیگر پڑوسی اور دور دراز کے علاقوں میں بھی مداخلت کرنی شروع کردی۔ اگرچہ آج مغربی ایشیا اور عرب ملکوں میں نفرت، قتل وغارت گری کو ترک کرکے صلح اور مصالحت کا دور چل رہاہے اور گزشتہ 3ماہ میں تقریباً تمام عرب ممالک نے ایران، شام اور دیگر حلیف ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں۔ یہ صورت حال ترکی کو لے کر بھی پیداہوگئی ہے، کئی عرب ملکوں کے ترکی کے ساتھ مراسم نہیں ہیں اور یہ ترک تعلقات کا سلسلہ2011سے چل رہا ہے کیونکہ عرب ملکوں، خاص طور پر مغربی افریقہ کے ممالک میں ترکی کے موجودہ حکومت اورلگاتار دوسری دہائی میں اقتدار میں داخل ہونے والے طیب اردگان کی اے کے پی پارٹی کو لے کریہی معاندانہ رویہ تھا،جو مذہب پرمبنی نظریات پرقائم ہے۔طیب اردگان کی پارٹی ترکی طرح دیگر عرب ملکوں میں بھی اخوان المسلمین کی بنیاد پر جمہوری نظام کو بحال کرانے کی بات کرتی تھی۔
کئی عرب ملکوں کوخطرہ تھا کہ ایران کے انقلاب کی طرح ترکی کے اندر اخوان المسلمین کے ماڈل کا برسراقتدار آنا موجودہ سیاسی استحکام کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتاہے اور بدقسمتی سے ہوا بھی یہی۔ بہت سے عرب اور مسلم ملکوں میں عوامی ناراضگی، سیاسی عدم استحکام کا سبب بنی اوراس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔لیبیا، شام اور عراق کی مثالیں بدترین نوعیت کی ہیں، مصرمیں کئی سال تک عدم استحکام رہا اور بدترین پرتشددواقعات پیش آئے اور اس طرح تیونس، الجیریا،بحرین اور دیگر وہ ممالک جو ویسے وسائل سے آراستہ اور خوشحال ہیں، تخت اچھال کر ان ملکوں کو تخت وتاراج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بہرکیف، اب صورت حال اس قدر خراب نہیںہے مگر ابھی بھی کئی ملک اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
مصالحتی کوششوں کا نتیجہ اور ان ملکوں کے حکمرانوں نے خود کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے بطور خاص مغربی ممالک کی جارحیت کے پیش نظر اپنے طور طریقوں میں تبدیلی کی ہے، آپس میں لڑنے اور پڑوسی ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی پالیسی کو ترک کرکے افہام وتفہیم کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس معاملہ میں اگرچہ ہر سطح پر تبدیلی آئی ہے مگر سب سے زیادہ اثر اور تنازع شام کو لے کرہے۔ کئی ممالک رسمی مراسم استوار کرنے کو راضی توہوگئے ہیں مگر ابھی بھی کئی حلقوں میں حکمرانوں کے سابقہ ریکارڈ کو لے کر پس و پیش برقرار ہے۔
عرب لیگ کی چوٹی کانفرنس سے قبل 7مئی کووزراء خارجہ کی کانفرنس میں 2011تنظیم کے اجلاس میں شام کی ممبرشپ کی معطلی کے فیصلہ کو واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ وزراء خارجہ کی کونسل نے سفارش کی کہ شام کوواپس تنظیم میں لینے کا سیاسی عمل شروع کیاجانا چاہیے۔ اس سفارش میں شام کی علاقائی سالمیت اور استحکام کو برقرار رکھنے کی بات کہی گئی ہے، عرب لیگ کے سکریٹری نے چوٹی اجلاس میں اس بات کو دہرایاتھا۔ مصر کے صدر عبدالفتح ا لسیسی نے بشار الاسد کے ساتھ اپنی ملاقات میں اسی قسم کے نظریات کا اظہار کیا تھا۔ خیال رہے کہ مصر کے صدر نے 2015میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر2254کی حمایت کرتے ہوئے شام میں قیام امن کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے لیے حکومت شام اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی بات کہی تھی۔ عرب لیگ کے اس چوٹی اجلاس میں اردن کے شاہ عبداللہ نے بھی شام کی تنظیم میں واپسی کی بات کہی تھی مگر اس سلسلہ میں انہوںنے یہ بھی یاد دلایاتھا کہ ان کے ملک میں بڑی تعداد میں شام کے لوگ مہاجر کی حیثیت سے زندگی بسر کررہے ہیں، ان کی واپسی انسانی حقوق کا ایک بڑا مسئلہ ہے، ایسے حالات میں ان مہاجرین کی واپسی کے لیے بھی مذاکرات کا عمل شروع کیاجانا چاہیے۔ لبنان اور اردن میں سب سے زیادہ شامی مہاجرین زندگی بسر کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ ان دونوں ملکوں کے علاوہ قرب وجوار کے کئی ممالک میں شام کے مہاجرین مقیم ہیں اور ان کی گھر واپسی نہ صرف ان لوگوں کے بہت بڑامسئلہ ہے بلکہ جن ملکوں میںیہ لوگ مقیم ہیں، وہاں کی معیشت اور سیاست دونوں کو متاثر کررہے ہیں۔ خاص طور پرترکی میں بڑی تعداد میں شام کے مہاجرین ہیں اور اس مرتبہ کے انتخابی دنگل میں ان مہاجرین کا مسئلہ چھایارہا۔ طیب اردگان ان مسلسل انتخابی مہم میں ان مہاجرین کے ترکی میں قیام پر اپنی حکومت کی پالیسی کا دفاع کیا ہے۔ انہوں نے عوام کو اپنی بین الاقوامی ذمہ داری سے واقف کراتے ہوئے کہاتھا کہ جب یوروپ کے ممالک جرمنی، فرانس، برطانیہ اور امریکہ جیسے ان مہاجرین کو انسانی اقدار کی بنیاد پر قبول کررہے ہیں تو ہمارے (ترکی) کی عالمی سطح پر جو حیثیت ہے، اس کے پیش نظر ہمیں بھی یہ ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ ترکی کی بڑی فوج شام میںہے اور بشار الاسد ترکی پرزور ڈالتے رہے ہیں کہ وہ ترکی سے اپنی فوجوں کو واپس بلائے۔ جبکہ ترکی کرد باغیوں اور دہشت گردوں کو لے کر فکر مند ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کی سرزمین پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث کرد باغی شام اور دیگر پڑوسی ممالک سے کنٹرول ہورہے ہیں۔ امریکہ کی کردوں پر خاص نظرکرم ہے۔ عراق اور شام میں امریکہ کی افواج دہشت گردی کے خلاف مہم میں کرد اور دیگر مقامی چھوٹے چھوٹے گروپوں کے ساتھ تال میل رکھے ہوئے ہیں۔ شام کی عرب لیگ میںدوبارہ شامل ہونے کو لے کر امریکہ اور دیگر مغربی ممالک مثلاً فرانس، برطانیہ وغیرہ ناخوش ہیں۔ ان مغربی ممالک کی ناراضگی کے باوجود مصر، اردن وغیرہ شام کو عرب لیگ میں شامل کیے جانے کو لے کر عرب لیگ اور مسلم ملکوں کے موقف پرقائم ہیں۔ مصر نے واضح کردیاہے کہ اس کی سرزمین پر جو شامی مہاجرین مقیم ہیں وہ ان کو زبردستی واپس شام بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے۔ ان پیچیدگیوں کے باوجود مصر، شام اور مصر کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی کو برقرار رکھے گا۔ چاہے امریکہ کی رائے اس بابت جیسی بھی ہو۔
سفارتی حلقوں میں اس قسم کی چہ میگوئیاں بھی ہیں کہ سعودی عرب شام کی عرب لیگ میں شمولیت کے لیے کچھ شرائط کے ساتھ راضی ہوا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات ان شرائط پر عمل آوری پرمنحصر ہے۔ ان شرائط میں سیکورٹی اور سیاسی اقدام کی بات ہے، خاص طور پر کئی عرب ممالک شام کی سرحدوں کے ذریعہ ان کی سرزمین میں منشیات کی اسمگلنگ کو لے کر فکر مند ہیں۔ کئی عرب ممالک شام کے ساتھ مکمل سفارتی روابط قائم نہیں کررہے ہیں اور ان سب ممالک کے اپنے اپنے اندیشے اور تحفظات ہیں۔n
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS