غالب کی حویلی اور بازیابی کی جدوجہد : فیروز بخت احمد

0
غالب کی حویلی اور بازیابی کی جدوجہد : فیروز بخت احمد

فیروز بخت احمد
یوں تو غالب نے اپنی زندگی میں نہ صرف بے تحاشہ سفر کیا بلکہ وہ غالباً ایک ایسے شاعر ہیں کہ جنہوں نے بے شمار قیام گاہوں میں اپنی زندگی گزاری۔ چاہے وہ آگرہ میں رہے ہوں،رامپور میں سکونت اختیار کی ہو، بنارس میں رہے ہوں، پٹیالہ میں حکیم محمود خان کی قیام گاہ میں رہے ہوں،ہمدرد دوا خانے کے سامنے گلی قاسم جان میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف کڑوڑہ والی حویلی ہو، اسمٰعیل خان کا مکان ہوکہ جس کا کرایہ پانچ روپیہ آٹھ آنے تھا، اپنے سسر نواب الٰہی بخش خان معروف کے مسکن یعنی محل سرا میں وقت گزارا ہو، کلکتہ میں رہے ہوں یا کہیں بھی رہے ہوں، انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری ۔ جہاں تک ان کی آخری قیام گاہ یعنی جسے حویلیِ غالب کے نام سے جانا جاتا ہے ، اس کو بطور ایک یادگار محفوظ کرانے کے لیے جس جدوجہد کا سامنا اس راقم حروف نے کیا تھا ، وہ خود میں آپ سب کے لیے ایک دلچسپ اور انوکھی داستان ہے۔
پرانی دہلی کے اس شاہجہاں آبادی خطے میں غالب کی یہ رہائش گاہ اب غالب کی آخری سکونت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ در اصل تمام عمر شاعری کرنے کے بعد اور حاکمِ وقت شہنشاہ بہادر شاہ ظفر سے قربت ہونے کے باوجود ،غالب کا ذاتی مکان نہ ہوا۔ غالب کی گلی قاسم جان والی یہ آخری قیام گاہ ان کے انتقال کے بعد مختلف ہاتھوں میں منتقل ہوتی رہی ۔ ویسے اس کی ملکیت شریف خانی حکیموں کی ملکیت تھی۔غالب کے وقت میں یہ ایک وسیع و عریض حویلی تھی جس کا رقبہ 400گز سے بھی زیادہ تھا۔اور قاسم جان کی گلی سے لے کر کٹرہ عالم بیگ تک یہ پھیلی ہوئی تھی۔اس جائیداد کے کئی مالک اور کرایہ دار بدلے۔
حویلی غالب کے سلسلہ میں اہالیانِ علاقہ نے کافی دلچسپی دکھائی۔ بلیماران کی شریف منزل میں مقیم حکیم اجمل خاں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے مسرور خاں جو کہ شریف خانی حویلی میں ایک گیسٹ ہاؤس چلاتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ حکیم محمد حسن خاں پٹیالہ والے نے کسی زمانہ میں حکیموں والی حویلی تعمیر کی تھی۔ یہ حویلی کافی طویل و عریض و وسیع تھی۔ اس کے بعد تقریباً 90برس تک یہ ایک مالک سے دوسرے مالک کے پاس منتقل ہوتی رہی۔ آخر میں اس کو دہلی سرکار نے نیلام کر دیا۔دلی کے ایک معزز شہری اور سماجی کارکن حاجی فاروق صاحب نے اس حویلی کو خریدا اور اب ان کے پوتے یہاں کیپیٹل لیدر آرٹ اسٹور چلا رہے ہیں۔حویلی کے دوسرے حصے کے بارے میں مسرور خان صاحب نے ہمیں بتایا کہ تقریباً 1960کی دہائی میں اس کو حکیم محمد شریف نے جو کہ کانگریس پارٹی سے اس علاقہ کے کارپوریشن ممبر بھی تھے، جناب محمد ابراہیم صاحب کو فرو خت کر دیا۔ انہوں نے یہاں لکڑی اور کوئلے کی ٹال کھود لی ۔ اس کے بعد جب مٹی کے تیل کے اور گیس کے چولھوں کا رواج بڑھا تو انہوں نے لکڑی کا کام چھوڑ کر بلڈنگ بنانے کا سامان فروخت کرنا شرو ع کر دیا۔
راقم بچپن میں اپنی پہلی دانش گاہ یعنی تعلیمی سماجی مرکز جاتے ھو ے اسی حویلی کے آگے سے گزرا کرتا تھا۔بنیادی تعلیم کے لیے یہ ایک اعلیٰ و میعاری دانش گاہ تھی۔جب ہم احاطہ کالے صاحب سے بارہ دری شیر افگن تک پیدل جاتے تھے۔ ہم دیکھا کرتے تھے کہ ہندوستانی دواخانہ یعنی حکیم اجمل خاں کے دواخانے کے سامنے ایک لکڑیوں کی ٹال تھی جس میں لکڑی تو بکتی ہی تھی ،ساتھ ہی ساتھ لکڑی کا کوئلہ اور پتھر کا کوئلہ بھی بکا کرتا تھا۔ ہم لوگ بسا اوقات یہ بات نوٹ کرتے تھے کہ اس لکڑی کی ٹال میں انگریز سیلانی کبھی تو اپنے کیمروں سے تصویریں کھینچتے دکھائی دیتے تو کبھی مووی کیمروں سے فلم بناتے دکھائی دیتے۔ یہی نہیں، بہت سے خوشباش اور بہترین کپڑوں میں ملبوس ہندوستانی بھی یہاں دکھائی دیتے۔دہلی کی تاریخی گلی ، گلی قاسم جان میں حویلیِ غالب کا دروازہ محراب نما اور اس کے اندر کی دیواریں و دو چھتی لخوری اینٹوں سے بنی ہوئی تھیں۔ دائیں طرف ایک ایس۔ٹی۔ڈی۔ کی دکان اور بائیں جانب تین در ہوا کرتے تھے۔تمام حویلی بڑی خستہ حالت میں تھیں اور در حقیقت درکتی ، تڑختی دیواروںکے بیچ سے اکثر سبزہ زار دکھائی دیا کرتا تھا، ٹھیک اسی طرح سے جیسے کہ غالب کا یہ شعر:
اگ رہا ہے درو دیوارپہ سبزہ غالب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
سات، آٹھ سال کی عمر کے بعد جب تھوڑا اور ہوش آیا تو پتہ چلا کہ اگلے وقتوں میں کوئی نامی گرامی شاعر مرزا غالب کے نام سے ہوا کرتے تھے جو یہاں مکین تھے۔ اسی دور سے غالب کی اس قیام گاہ کے تعلق سے تجسس بڑھتا گیا اور ساتھ ہی ساتھ رغبت بھی ۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، غالب کی اہمیت کا اندازہ بھی ہوتا چلا گیا اور طبیعت کو یہ بات بھی ستانے لگی کہ آخربین الاقوامی شہرت یافتہ اردو کے اس شاعر کی رہائش گاہ اتنی بد حال و نامراد کیوں ہے۔ راقم نے تب ہی سے اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ اپنی تعلیم کے چلتے ہوئے یا اس کے بعدوہ غالب کے مکان کو ایک یادگار میں تبدیل کرانے کی مکمل جدو جہد کرے گا۔اس نے اسی وقت سے اس کی کاوشیں شروع کر دی۔چونکہ بچپن سے ہی قلم کا ساتھ رہا، راقم نے غالب کے اوپر بچوں کے رسائل یا بڑوں کے اخبارات میں بچوں کے کالموں میں مضامین لکھنے شروع کر دیے ۔ قلم کی اس جدوجہد کی ہمت افزائی ہوئی تو تحریر سے دلی، دماغی اور روحانی تسکین کا احساس ہوا۔تختی کے اوپر سرکنڈے کے قلم سے خوش خطی کے بعد یہ سلسلہ کاغذوں پر جاری رہا۔
برسرِ روزگار ہونے کے بعد راقم نے مختلف سرکاری ایجنسیوں ، سیاست دانوں اور ایوان اقتدار سے جڑی چھوٹی بڑی ہستیوں سے تحریری گزارش کی کہ وہ لوگ حویلیِ غالب کو محفوظ کریں۔ کبھی میونسپل کارپوریشن تو کبھی علاقہ کے کارپوریٹریا پارلیمانی ممبر یا کبھی مختلف وزارتوں کو خطوط لکھے گئے، جن کا جواب تک دینے کی کسی نے زحمت نہ کی۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے غالب کو چاہنے والے تو بہت ہیں مگر ان کی حویلی کو محفوظ کرنے میں کسی کودلچسپی نہ تھی۔ہم نے اس وقت اپنے دوست، پڑوسی اورنومنتخب ایم۔ ایل۔ اے۔ جناب ہارون یوسف صاحب سے بھی گزارش کی کہ وہ اپنی کوشش کرکے غالب کی حویلی کو محفوظ کراکر اسے ایک یادگار کی شکل دیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ انہوں نے اسمبلی میں اس کا تذکرہ بھی کیا مگر اس وقت کے وزیر اعلیٰ جناب مدن لال کھورانہ نے اس میںکوئی دلچسپی نہ لی۔
راقم نے اردو، ہندی و انگریزی کے جرائد و اخبارات میں مستقل طور سے بازیابی ِحویلیِ غالب کے تعلق سے مضامین تحریر کرنے شروع کر دیے ۔ اسی دوران ہمارے ایک ہمدرد دوست اور معروف قانونداں جناب محمد اطیب صدیقی صاحب نے رائے دی کہ کب تک کاغذ کالے کرتے رہوگے، حویلیِ غالب محفوظ ہونے والی نہیں ہے۔ان کا خیال تھا کہ جب تک حویلیِ غالب کو محفوظ کرانے کے لیے ایک مقدمہ برائے فلاح عامہ دہلی ہائی کورٹ میں دائر نہیں کیا جائے گا تب تک کوئی حاصل وصول نہیںہونے والا ۔
اس وقت حویلیِ غالب میں ہیٹر کا ایک کارخانہ تھا اور بلڈنگ مٹیریل کی فروخت کا سلسلہ تھا۔ وہاں پر بسے لوگ اتنی آسانی سے اس جگہ کو خالی کرنے والے نہیں تھے۔ حویلیِ غالب کا میونسپل وارڈ کے خسرہ کا مکان نمبر 2290سے 2300تک تھاجس کے لیے پٹیشن داخل کی گئی ۔ یہ مقدمہ جسٹس چندر موہن نیر کے کورٹ میں لگا۔مقدمہ کو فلاحی تنظیم’’فرینڈز فار ایجوکیشن‘‘ کی معرفت راقم کو بطور اس کے چیئرمین داخل کیا گیا۔
درخواست میں کورٹ سے اپیل کی گئی کہ یادگارِ غالب میں ایک لائبریری، ایک چھوٹا سا میوزیم اور ایک دفتر و اسٹور بنایا جائے کہ جہاں غالب کے دیوان و تصاویر بآسانی میسر ہوں۔اس کیس کے وکیل مسٹر صدیقی نے یہ اپیل بھی کی کہ حویلی کے اندر مقیم لوگوں کو ڈی۔ ڈی۔ اے۔ اور دلی میونسپل کارپوریشن کی طرف سے جلد از جلد ٹھیک اسی طرح سے متبادل جگہیں الاٹ کی جائیں کہ جیسے راقم کی کوششوں سے مزارِ ذوق کے سلسلہ میں پہاڑ گنج کے نبی کریم علاقہ کی چنیوٹ بستی کے سات مکان مالکوں اور دو دکانداروں کو دی گئی تھیں۔ در اصل مزارِ ذوق پرجو کہ کلو کا تکیہ قبرستان میں ہوا کرتا تھا، پارٹیشن کے بعد شرنارتھیوں نے قبضہ کر لیا تھا اور 1961میں دہلی میونسپل کارپوریشن نے تمام مزارات و قبروں کومسمار کر یہاں مردوں و خواتین کے بیت الخلا بنوا دیے۔
حویلیِ غالب میں جو لوگ مقیم تھے ، انہیں متبادل جگہیں فراہم تو کر دی گئی تھیں مگر ان سے وہ مطمئن نہ تھے۔ بقول خاکسار شفیق الدین، حویلیِ غالب کو بچائے رکھنے میں ان کے والد جناب ابراہیم صاحب کی بڑی خدمات وقربانیاں تھیں۔جو جگہ کورٹ کے آرڈر پر یادگارِ غالب کے لیے لی گئی تھی،ا س میں سب سے بڑاا حصہ شفیق الدین صاحب کا ہی تھا۔انہیں شکایت تھی کہ جو جگہ انہیں دی گئی ہے، وہ مارکیٹ ریٹ کے اعتبار سے بہت کم ہے۔
عدالت میں وکیل صاحب کے ذریعہ یہ تجویز بھی رکھی گئی کہ اس کام کی سرپرستی کے لیے ایک کمیٹی بھی بنائی جائی جو بطور پریشر گروپ یہ دیکھے کہ تمام شعبے صحیح وقت پر اپنے کام انجام دے رہے ہیں۔ کمیٹی کے ممبران میں جناب مشیر الحسن، سابق قائم مقام وائس چانسلر، جامعہ ملیہ اسلامیہ، پروفیسر گوپی چند نارنگ، راقم، مجتبی حسین زیدی اور محکمۂ آثار قدیمہ، حلقۂ دہلی کے ڈائریکٹر جناب دھر م ویر شرما کے نام تجویز کیے گئے۔ یہ کمیٹی تو قائم ہو گئی مگر بہت زیادہ دنوں تک نہیں چلی کیونکہ کئی ممبران ہم خیال نہ تھے۔اس بات کے زیر نظر راقم نے عدالت کو رائے دی کہ اس قسم کی کمیٹیاں بہت دنوں تک متحد نہیں رہ پاتی ہیں، لہٰذا مناسب یہی رہے گا کہ سرکاری ایجنسیاں یا ادارے اس کام کو انجام دیںاور آخر 8اگست 1997کو جسٹس چندر موہن نیر نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا کہ 6ماہ کے اندر دہلی سرکار کو چاہیے کہ غالب کو رہائش گاہ کو محفوظ کر اس شاعرِ عظیم کے شایانِ شان ایک ایسی یادگار تعمیر کی جائے کہ جو بے مثال ہو۔
اس کے بعد کا قصہ سنیے! جسٹس سی۔ایم۔ نیر تو ایک تاریخ ساز فیصلہ دے کر سبکدوش ہو گئے مگر دہلی کی مختلف ایجنسیوں نے یادگار غالب کے ساتھ انصاف تو دور ،کورٹ کے دس فیصد حکم کوبھی نہیں مانا۔ معمولی سی ٹیپ ٹاپ یعنی جس کو انگریزی میں ’’کاسمیٹک رپیئرز‘‘ (Cosmetic repairs)کہا جاتا ہے، اس طرح کا گھٹیا کام کیا۔ایسا محسوس ہوتا رہا تھاکہ جیسے یہ ایجنسیاں غالب کی رقیب ہوں۔غالب کی چند فوٹوکاپی کی گئی تصاویر کو لیمینٹ کراکر نہایت ہی بھونڈے طریقے سے چسپاں کر دیا گیا۔ایسا لگ رہا تھا کہ مانو د ہلی سرکار اس کام سے اپنا پیچھا چھڑانا چاہتی ہے ۔اتفاق سے جب 1997میں پاکستان کے معروف شاعر مرحوم احمد فراز دہلی تشریف لائے تو مرزا غالب کی ویران حویلی بھی دیکھنے گئے۔ اس کی تنزلی دیکھتے ہوئے انہوں نے اس وقت ایک چٹکی لی کہ اگر ہندوستانی حکومت کے پاس غالب کی یادگار بنانے کے ذرائع نہیں ہیں تو وہ بذات خود ہی لاکھوں ڈالر اس کام کے لیے غیر ممالک میں بسے ہندوستانی و پاکستانی لوگوں سے جمع کرسکتے ہیں۔ راقم کو یہ بات سن کر بڑی شرم محسوس ہوئی مگر اس نے ان کی پیش کش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہندوستانی ، جیسا بھی ہے، خود اس کام کو کرنا پسند کریں گے۔
عدالت کے حکم پر ، اس یادگار کی تعمیر کا ذمہ چونکہ دہلی سرکار کے ڈپارٹمنٹ آف آرکیٹیچر کو دیا گیا تھا، اس کے انچارج اس وقت ایک مسٹر ماکھن لال ہوا کرتے تھے۔ ان کی عدم دلچسپی دیکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ محترمہ شیلادیکشت صاحبہ کو خط بھی لکھا۔ اس خط کا کوئی جواب ، جیسا کہ امیدتھی ، نہیں آیا۔
اللہ، اللہ کر کے حویلی تیار کی گئی ۔15فروری 2000کو جب اس حویلی کو دہلی سرکار کی جانب سے عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا گیا تو ایک بہت بڑی تقریب عمل میں آئی جس میں اس وقت دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر جناب وجے کپور، وزیر اعلیٰ محترمہ شیلادیکشت صاحبہ ، ممبر پارلیمنٹ جناب وجے گوئل، ہارون یوسف، ایم۔ ایل۔ اے۔، آئی۔ سی۔ سی۔ آر۔ کے ڈائریکٹر جناب پون کمار ورما پروفیسر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر خلیق انجم، ڈاکٹر عقیل احمد، شاہد ماہلی وغیرہ موجود تھے۔مزے کی بات یہ کہ اس تقریب کا کوئی دعوت نامہ راقم کے پاس نہیں آیا۔
ہمیں یہ سب بڑا عجیب و غریب محسوس ہو رہا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ کسی سلے یہ ستائش کی کوئی تمنا نہ تھی کیونکہ راقم نے اس حویلی کو غالب کے چاہنے والوں کے لیے ہی محفوظ کرانے کی نیت کی تھی۔ ہاں اسے یہ ضرور ناگوار گزرا کہ اس کی تحریک کو سیاستدانوں نے یرغمال کر اپنی سیاسی دکانیں چمکانے کے لیے اور ووٹ کی سیاست گرمانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
یہ سلسلہ یہیں نہیں تھما ،شہر کی ایک مشہور ڈانسر کو بھی غالب کی یاد ستانے لگی اور انہوں نے اس شاعر کو بخوبی بھنانے کا بڑا اچھا پلان بنا لیا۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سے ہر سال ایک پروگرام ’’یادگارِ غالب‘‘ کا بجٹ تیار کر ان کو دینا شروع کر دیاجس میں انہوں نے مختلف ترکیبوں جیسے، رقص، مشاعرہ، غالب کینڈل مارچ وغیرہ کے ذریعہ یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ غالب سے انہیں بڑی الفت ہے،یہ کہ وہ سالہا سال سے ان کی شاعری پر رقص کرتی چلی آ رہی ہیں اور یہ کہ اس حویلی کو انہوں نے محفوظ کرایا ہے۔اس کے لیے ایک سوسائٹی ’’غالب میموریل موومنٹ ‘‘کی بھی انہوں نے داغ بیل ڈالی جس میں انہوں نے جانی مانی ہستیوں کو جیسے جناب عابد حسین، گلز۱ر،کسم انسل، پون کمار ورماوغیرہ کو بھی جوڑ لیا اور راقم کو نظرانداز کردیا گیا۔
کیا ہی اچھا ہوکہ یہاں پر سرکارایک ریڈنگ روم اور غالب پر مختلف زبانوں میں کتابوںاور اردو و ہندی میں ترجمہ شدہ دیوانوں کی فروخت کا سلسلہ شروع کرے کیونکہ اس جگہ روزانہ دنیا کے مختلف حصوں سے غالب کے چاہنے والے آتے ہیں ۔کم سے کم ان کے لیے اتنا تو ہو کہ وہ مطالعہ گاہ میں کچھ دیر بیٹھ کر کچھ پڑھ لیں یا حویلی کے تعلق سے کچھ نوٹ کر لیں۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS