مشرق و مغرب کی کشمکش سے دوچار لیبیا

0

پیٹرولیم وقیمتی معدنیات سے مالامال افریقہ کااہم ملک لیبیا 2011سے خانہ جنگی کا شکار ہے، اس ملک میں سیاسی حریفوں اور جنگ وجدال پریقین رکھنے والی فوجوں، غیرملکوں عناصر، بھاڑے کے ٹٹوؤں کے درمیان کھینچ تان اور رسہ کشی نے ہزاروں لوگوں کو لقمہ اجل بنادیا ہے۔ اسی وقت ملک میں دونظام حکومت چل رہے ہیں دو الگ الگ خطوں میں دو حکومتیں چل رہی ہیں، دونوں فریق کے پس پشت غیرملکی طاقتیں ہیں، افواج ہیں جو کبھی براہ راست اور کبھی بلاواسطہ اپنا اپنا کھیل کھیلتی رہتی ہیں۔ اقوام متحدہ لیبیا میں قیام امن اور جمہوری نظام و دستور قائم کرنے کی بساط بھر کوشش کررہی ہے مگر تمام بلندبانگ دعوؤں کے باوجود مقاصد کو حاصل نہیں کیاجاسکتا ہے۔ کیونکہ فریقین اقوام متحدہ کے موقف کو اسی وقت قبول کرتے ہیں جب وہ ان کے اپنے حق میں ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ نے جو پروگرام وضع کیاتھا، اس کے مطابق لیبیا میں دسمبر2021میں انتخابات ہونے تھے، مگریہ الیکشن کون کرائے گااس کو لے کر اختلافات ہوگئے تھے، بہرکیف کئی ممالک اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ الیکشن کے انعقاد پر اتفاق رائے بن جائے۔ مراقش کی سرزمین پر سفارتی کوششیں ہورہی تھیں اور ایک امیدافزا خبر یہ آئی ہے کہ تمام فریق صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے لیے تقریباً راضی ہوگئے ہیں۔
یادرہے کہ اس وقت لیبیا کے مغربی علاقوں میں عبدالحمیدمحمد الدیبیہ کا تسلط ہے اور مشرق میں لیبیائی نیشنل آرمی کے کمانڈرخلیفہ خفتر کا غلبہ ہے۔ دونوں کے پاس زبردست فوجی طاقت ہے اور کئی ممالک ان دونوں کو قومی سازو سامان اور آلات مہیا کرا رہے ہیں اور یہ دونوں لیڈر اپنے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان طاقتوں کی سرپرستی حاصل کررہے ہیں اور ان طاقتوں کی اور ان کی حمایت بھی کررہے ہیں۔
تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ بین الاقوامی مصالحت کے بعد وزیراعظم عبدالحمید محمد الدیبیہ اور جنرل خلیفہ حفتر اختلافات کم کرنے اور ایک دوسرے کے قریب آنے میں کامیاب ہوئے ہیں اگرچہ دونوں میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے اور شاید ابھی مذاکرات کی گنجائش باقی ہے اور کچھ تصفیہ طلب نکات پرابھی گفتگو ہورہی ہے۔ادھر مراقش کے شہر بوزینکا میں مشرقی علاقوں کی نمائندگی کرنے والی پارلیمنٹ کی طرف سے اظہار خیال کرتے ہوئے جلال چاغو برلی نے بتایا ہے کہ سمجھوتے کے متن پر پارلیمنٹ میں منظوری کے بعد پیش رفت ہوگی۔ دوسری جانب طرابلس کی انتظامیہ کے وزیرخارجہ ناصر بوزینیا نے کہاہے کہ مشرقی لیبیا کی پارلیمنٹ کی منظوری جلد مل جائے گی اور سمجھوتے پر دستخط ہوجائیں گے۔
انتخابات کے انعقاد کے پس پشت تین سیاسی شخصیات حفتر، قذافی کے بیٹے سیف الاسلام اور محمد الدیبیہ کے درمیان شدید اختلافات ہیں مگر طویل عرصہ سے چلے آرہے تعطل کو ختم کرنے میں کافی کامیابی ملی ہے۔
مراقش میں ہونے والے مذاکرات میں 6+6ارکان کے درمیان گفتگوہورہی ہے۔اس میں ایوان نمائندگان اور سپریم کونسل آف اسٹیٹ کے نمائندے مذاکرات کررہے ہیں۔ جومتنازع ایشوز زیرغور ہیں ان میں غیرممالک میں مقیم یا دوہری شہریت والے امیدوار اور فوجیوں کا ایشوبھی ہے۔
اس مجوزہ سمجھوتے کے کچھ ایشوز سامنے آئے ہیں ان میں پارلیمنٹ کے ممبران کی تعداد 200 سے 300 کرنے اور الیکشن کی نگرانی کے لیے ایک عبوری حکومت قائم کرنے کی بات ہوئی ہے۔ عبوری حکومت کے معاملہ میں الدیبیہ کا موقف ہے کہ وہ صرف اور صرف منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کریں گے کسی عبوری حکومت کو اقتدار منتقل کرنے کا ان کا ارادہ نہیں ہے۔ اس عبوری حکومت کا قیام ہی اپنے آپ میں ایک پیچیدہ مرحلہ ہوگا۔ لیبیا کے سرگرم لیڈر صالح اور میشری عبوری حکومت کے قیام کو جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر مؤخر کررہے ہیں۔
اسٹیٹ کونسل کے ممبر محمد مواریب کا کہنا ہے کہ صدارتی الیکشن کے لیے تمام امیدواروں کو حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے اور دوسرے مرحلے کے الیکشن میں جو امیدوار الیکشن لڑیں گے ان کو اپنی دوہری شہریت کو ترک کرنا ہوگا۔ جو اہم تجاویز زیرغور ہیں ان میں فوجیوں کا الیکشن میں کھڑا کرنے کا معاملہ بھی ہے۔ فوجیوں کو الیکشن میں کھڑا ہونے کے لیے فوجی عہدے سے استعفیٰ دینا ہوگایعنی فیلڈ مارشل حفتر کو امریکی شہریت لیے بغیر پہلے مرحلے میں الیکشن لڑنے کی اجازت ہوگی۔ لیبیا کی ایک اور شخصیت سیف الاسلام قذافی کا معاملہ بھی بہت سنگین اورمتنازع ہے۔ ان کو جنگی جرائم میں لیبیا کی عدالت سزائے موت دے چکی ہے اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں بھی ان کو جنگی جرائم کے لیے مطلوب قرار دے دیاگیا ہے۔
لیبیا کے دو ایوانوں ریاستی کونسل اور ایوان نمائندگان کے کچھ ممبران اس سمجھوتے کے کچھ نکات سے عدم اتفاق ظاہر کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور سیاسی جماعت جسٹس اینڈکنسٹریکشن پارٹی بھی کئی ایشوز پربالکل جداگانہ رائے رکھتی ہے۔
ایوان نمائندگان 2014میں منتخب ہوئی تھی اس کی مدت کار محض چار سال تھی۔ اسی طرح صوبائی کونسل اقوام متحدہ کے ذریعہ 2015میں معرض وجود میں آئی تھی۔ یہ لیبیا کی سیاسی اتفاق رائے کی حکومت Libyan Political Agreement (ایل پی اے) کے تحت معرض وجود میں آئی تھی۔ صوبائی کونسل کا قیام 2012کی عبوری پارلیمنٹ پر مشتمل ہے۔ اس کونسل کا قیام بھی صرف اور صرف قومی انتخابات تک تجویز کیاگیاتھا۔
لیبیا کی سیاسی زندگی میں بڑے اتار چڑھاؤ آئے ہیں، اقوام متحدہ ایک مستحکم دستور اور عبوری حکومت قائم کرنے اور خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے کوشاں رہاہے۔ 2012میں اقوام متحدہ نے قومی اتفاق رائے کی حکومت بنائی تھی اور محمدالدیبیہ کو وزیراعظم مقرر کیا گیاتھا۔ مگر یہ حکومت بھی الیکشن تک برقرار رہ پائے گی۔یہ الیکشن سال رواں کے آخر میں متوقع ہیں۔
لیبیا میں کوئی بھی حکومت مکمل طورپر اتفاق رائے کی حکومت نہیں بن پائی ہے۔ اگرچہ محمدالدیبیہ کو قوام متحدہ کی منظوری حاصل تھی مگر نہ تو ایوان نمائندگان اور نہ ہی صوبائی کونسل (اسٹیٹ کونسل) اس حکومت کو اپنی منظوری دے پائی ہے۔ ایل پی اے کے تحت بین الاقوامی برادری چاہتی ہے کہ دونوں ایوان محمدالدیبیہ کی حکومت کو اپنی منظوری دیں۔ کیونکہ اس حکومت کی نگرانی میں الیکشن کا انعقاد متوقع تھا۔ یہ دونوں ایوان آئین کو منظوری دیں گے اور تب ہی حکومت کی تبدیلی متوقع ہوگی۔
لیبیا کی سیاست اس قدر پیچیدہ ہوگئی ہے کہ یہاں کے عوام کو کسی لیڈر یا فوجی کمانڈر پراعتماد نہیں ہے۔ عوام کو لگتا ہے کہ موجودہ سیاسی شخصیات اپنے اپنے عہدوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اسی لیے سمجھوتے کو موخر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS