کیا مشرق وسطیٰ میں امریکی دور ختم ہو رہا ہے؟: ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0
کیا مشرق وسطیٰ میں امریکی دور ختم ہو رہا ہے؟: ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

پہلی جنگ عظیم میں جب ترکی کو شکست ہوئی تو اس کے نتیجہ میں عالم عربی کے اندر صرف اس قدر تبدیلی پیدا نہیں ہوئی کہ اسلامی خلافت کی علامت سمجھی جانے والی آخری بڑی اور مضبوط مسلم قوت کا خاتمہ ہوگیا تھا جس کا دبدبہ اس خطہ پر صدیوں تک قائم رہا تھا بلکہ یہ تبدیلی مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے لئے کئی بڑے بھیانک نتائج کا پیش خیمہ بھی ثابت ہونے جا رہی تھی۔ اسی شکست کے نتیجہ میں عرب دنیا میں اسلام کے بجائے عرب قومیت کو جڑ پکڑنے کا موقع ملا، اسلامی وحدت کی جو کمزور سی رسی لٹک رہی تھی وہ کاٹ دی گئی اور مغربی استعمار کے دور کا آغاز ہوا۔ جس خطہ کے صحراؤں پر ہوائیں اٹھکھیلیاں کرتی تھیں اور اس کی ریتیلی سر زمین میں ٹیڑھے میڑھے نشانات بناکر گزر جاتی تھیں لیکن ان لکیروں کا کوئی مطلب نہیں ہوتا تھا کیونکہ ان سے کسی انسان کا قدم نہیں رکتا تھا اور نہ ہی کسی قافلہ کے پیروں میں بیڑیاں پڑتی تھیں وہاں اب مکمل نئی دنیا آباد ہونے جا رہی تھی۔ اب لکیریں صرف بے معنی شکل کی حیثیت سے صحراء کے سینہ پر دراز نہیں ہو رہی تھیں بلکہ اب ان کا ایک بنیادی مقصد تھا۔ اب وہ لکیریں سرحدوں کا نام لی چکی تھیں۔ لامتناہی سرحدوں میں یقین رکھنے والے اسلامی نظام کو نیشن اسٹیٹ کے بندھنوں میں باندھا جا رہا تھا۔ قومیت جس طرح مغربی قوموں کی پہچان بن چکی تھی اسی طرح اسلامی دنیا کے لئے بھی ایک ناقابل انکار حقیقت بن کر سامنے کھڑی تھی جس کا استقبال کئے بغیر کوئی چارہ اس کے سامنے نہیں تھا۔ باوجودیکہ مسلم ممالک نے ہمیشہ زبانی طور پر اس کا دعوی کیا کہ ان کی اصل پہچان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قائم ہوتی ہے اور وہ ایک عالمی امت ہیں لیکن سچائی یہ تھی کہ وہ سمجھ چکے تھے اب خود ان کی اپنی سر زمین میں اسلام کا سکہ رائج الوقت نہیں رہا۔ جس نئے دور کا آغاز ہو رہا تھا اس میں سرحدیں، زبان اور رنگ و نسل کی بڑی اہمیت ہوگئی تھی۔ اس نئے دور میں فکر اور عقیدہ سے رشتہ قائم نہیں ہوگا بلکہ پاسپورٹ کی تفصیلات طے کریں گی کہ فرد کی آئیڈینٹیٹی کیا ہوگی۔ جنگ عظیم اول میں ترکی کی شکست سے یہ تبدیلی بھی آئی کہ اسلامی مقدسات تک کے بارے میں فیصلہ کا حق استعماری قوتوں کو حاصل ہوگیا۔ ارض فلسطین جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول واقع ہے اس کا مستقبل طے کرنے کی آزادی بھی مسلمانوں سے چھین لی گئی۔ ارض فلسطین کو صہیونیوں کے حوالہ کرنے کا فیصلہ برطانوی سامراج نے جنگ عظیم اول کے زمانہ میں ہی کر لیا تھا اور بیلفور ڈکلیریشن کی صورت میں اس کی بنیاد رکھی جا چکی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد 1948 میں صرف باضابطہ اعلان کے ذریعہ اس پر اقوام متحدہ کی مہر لگاکر اس کے جواز کا راستہ صاف کیا گیا۔ یہ بدلاؤ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ جس مقصد کے حصول میں عہد ماضی کے صلیبی جنگجو کامیاب نہیں ہو پائے تھے اس میں جدید دور کی سامراجی قوتیں کامیاب ہو رہی تھیں۔ افسوسناک پہلو یہ تھا کہ ٹکڑوں میں منقسم عرب دنیا اپنی اصلی طاقت کھو چکی تھی۔ اب ان کے سامنے اسلام کے اعلیٰ مقاصد نہیں تھے بلکہ اپنی سرحدوں اور زمینوں کو بچانے کے لئے محدود دائرہ میں کام کرنے کا ہنر انہوں نے بھی سیکھ لیا تھا۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ استعمار کی بساط پر جو سب سے طاقت ور کھلاڑی موجود ہو اس کی آگوش میں دبک جائے تاکہ اس گوشۂ عافیت میں اس کی اپنے محدود مفادات کی حفاظت ہوتی رہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ برطانوی سامراج کا سورج پورے آب و تاب کے ساتھ دنیا کے نقشہ پر چمک رہا ہے تو انہوں نے اس کو ہی اپنا محافظ مان کر اپنی ساری وفاداری ان کے حوالہ کر دی۔ اس کے بعد جب دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی سامراج کا عہد ختم ہوگیا اور امریکی امپریلزم نے اس کی جگہ لے لی تو عرب دنیا نے بھی اپنے آقا بدلنے میں تاخیر نہیں کی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ کمزور و بے بس عرب اسلامی دنیا کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ علمی اور مادی قوتوں سے لبریز مغربی استعمار کے جوے کو اپنے کاندھے پر اٹھا لے اور اسی سمت میں بڑھتی رہے جس طرف جانے کا حکم اس کے مغربی آقا اسے دے رہے ہوں۔ اگر کبھی عرب اسلامی غیرت نے سر اٹھایا تو اسرائیل کے خلاف جنگ کی ٹھان لی اور مکمل تیاری اور مؤثر حکمت عملی کے بغیر ہی میدان میں کود پڑے اور محض چھہ دنوں کے اندر شکست سے دوچار ہوگئے جیسا کہ جون 1967 میں ہوا۔ ارض مقدس فلسطین کے حق میں یہ عربوں کی آخری متحد کوشش تھی۔ اس شرمناک شکست کے بعد پھر عربوں نے کبھی اس معاملہ کو اپنا مسئلہ نہیں سمجھا اور ایسے خاموش ہوئے کہ پھر کبھی نہیں بولے۔ اس دوران فلسطینیوں پر جاری مسلسل اسرائیلی بربریت میں کوئی کمی آنے کے بجائے اس میں مزید اضافہ ہی ہوتا چلایا گیا یہاں تک کہ قبلہ اول کا تقدس ہر روز پامال ہونے لگا لیکن اس کے باوجود عرب اسلامی دنیا نے مذمت کے روایتی اور بے معنی الفاظ کے علاوہ کچھ بھی کہنا گوارہ نہیں کیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ امریکی دھونس کے خوف سے دہشت و بربریت کی علامت صہیونی ریاست کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے میں فخر محسوس کرنے لگے اور اعلانیہ طور پر اس کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات کو استوار کر لیا۔ جن ممالک نے ابھی اسرائیل کے ساتھ باضابطہ اپنے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے وہ بھی قطار میں کھڑے ہیں اور جلد یا بدیر اس زمرہ میں شامل ہوجائیں گے۔ تباہی اور قتل و غارتگری کا شکار اس خطہ میں صرف اہل فلسطین ہی نہیں ہوئے بلکہ خلیجی ممالک کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسا ملک بچا ہو جس کا مقدر امریکی بم و بارود میں جھلس جانا نہ رہا ہو۔عراق و شام ہو یا یمن و سوڈان، لیبیا ہو یا مصر ہر جگہ امریکی پالیسیوں نے مسلم جان و مال کی تباہی کا سامان مہیا کیا۔ اس بات کا پختہ ثبوت یہ ہے کہ خود عرب عوام بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں جیساکہ 2022 کے ایک سروے سے معلوم ہوتا ہے۔ دوحہ میں قائم ’عرب سنٹر فار ریسرچ اینڈ پالیسی اسٹڈیز‘ نے 14 عرب ممالک میں یہ سروے 2022 میں کروایا تھا۔ حیرت انگیز طور پر 78 فیصد لوگوں نے کہا کہ مشرق وسطی کے لئے سب سے بڑا خطرہ امریکہ ہے اور یہاں قائم عدم استحکام کی صورت کے لئے کوئی دوسرا اتنا ذمہ دار نہیں ہے۔ 57 فیصد لوگوں نے ایران اور روس کو بھی عراق، شام اور یمن میں پھیلے ان کے کالے کرتوتوں کے لئے ذمہ دار مانا لیکن امریکہ کو سب سے بڑا خطرہ مانا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کا دور اب مشرق وسطیٰ میں ختم ہو رہا ہے؟ کیا چین امریکہ کی جگہ اس خطہ میں لے رہا ہے؟ اگر ایسا ہو بھی ہوجائے جیساکہ سعودی۔ایران مصالحت میں چین کے رول سے اندازہ ہوتا ہے تو کیا اس سے عالم عربی کی یہ حقیقت بدل جائے گی کہ اس میں اپنے مسائل کو اپنے بل پر حل کرنے کی اہلیت تاہنوز مفقود ہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تبعیت اور پچھ لگّو بننے کی جو عادت ان میں پیدا ہوگئی ہے اس سے وہ باہر نہیں آ پا رہے ہیں؟ چین کی تبعیت اختیار کرنا دراصل یہ بتلاتا ہے کہ ابھی عرب اسلامی دنیا کے لئے وہ وقت نہیں آیا ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے بڑے مقاصد کے لئے کام کرنا شروع کریں۔ امریکہ کو پہلے عرب تیل اور انرجی کی ضرورت تھی اس لئے اس کی توجہ اس خطہ پر زیادہ تھی لیکن امریکہ اب اس معاملہ میں خود کفیل ہی نہیں ہوگیا ہے بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کی انرجی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے۔ اس کے برعکس چین کو عرب تیل کے ذخائر کی ضرورت ہے کیونکہ ابھی اس کی ترقی کی راہ میں انرجی کا اہم رول ہے۔ گویا ایک آقا کی جگہ دوسرا نیا آقا مسلط ہونے جا رہا ہے۔ امریکہ بس یہ چاہتا ہے کہ چین کی انرجی ضرورت مشرق وسطیٰ سے پوری نہ ہو بلکہ امریکہ کے حلیفوں کو اس کا فائدہ ملے۔ امریکہ نے بڑی کوشش کی ہے کہ سعودی عرب اور عرب امارات اس کی بات مان لے اور روس و چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط نہ بنائے البتہ اس میں وہ ناکام رہا ہے۔ یہ گویا ایک نئی سرد جنگ ہے جو امریکہ اور چین کے درمیان جاری ہے اور دونوں عالمی قوتیں اپنے لئے حمایتی ممالک اکٹھا کر رہی ہیں۔ اس جنگ میں فتحیاب جو بھی ہو لیکن عرب دنیا کو اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ عرب دنیا کے لئے بہتر یہ ہوگا کہ وہ اپنے اندرونی اختلافات کو بات چیت سے حل کریں اور پورے خطہ کو یوروپی یونین کے طرز پر متحد کرکے ایک مؤثر قوت کے طور پر ابھریں۔ اگر ایسا کرنے میں وہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو انہیں تبعیت کے عذاب سے چھٹکارا مل جائے گا اور فلسطین سمیت دیگر مسائل کے حل میں بھی ان کے لئے آسانی پیدا ہوجائے گی۔ یہ کام جتنی جلدی ہوجائے بہتر ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS