سستے تیل پر زیادہ ٹیکس نافذ کرنے کی روایت

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرناصرف حکومت کے دائرۂ اختیار میں نہیں

0

آلوک جوشی

پٹرول، ڈیزل اور رسوئی گیس، یعنی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں یا کم ہورہی ہیں؟ گزشتہ دوچار دن میں دیکھیں تو کم ہورہی ہیں، بالخصوص حکومت کے ایکسائز ڈیوٹی کم کرنے کے اعلان کے بعد سے۔ لیکن پورے سال کا حال دیکھیں تو بے تحاشہ اضافہ نظر آتا ہے۔ آگے کیا ہوگا کہنا بہت مشکل ہے۔ سیاسی نقطہ نظر سے دیکھیں تو اب پانچ ریاستوں کے الیکشن ہونے والے ہیں، اس لیے حکومتوں کی طرف سے راحت دی جائے گی یا راحت دینے کی کوشش تو ضرور کی جائے گی۔ پھر بھی، کتنی راحت مل پائے گی، وہ کہنا مشکل ہے۔
وجہ یہ ہے کہ پٹرول، ڈیزل اور رسوئی گیس کی قیمتیں بین الاقوامی بازار کی قیمتوں پر بہت حد تک انحصار کرتی ہیں۔ ہندوستان اپنی ضرورت کا 85فیصد سے زیادہ کچا تیل باہر سے ہی منگوانے پر مجبور ہے، اسی لیے ملک میں ان چیزوں کی قیمتیں کم کرنا صرف حکومت کے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے۔ بین الاقوامی بازار کا حال دیکھئے تو وہاں عجب ہی چال نظر آرہی ہے۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران کچے تیل نے دو ہفتے کی نئی اونچائی چھوئی تو اگلے ہی دن یہ گر کر بند ہوا۔ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک ایک طرف تو کہہ رہی ہے کہ تیل کی ڈیمانڈ میں کمی ہوگی، لیکن ساتھ ہی اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیمانڈ کے مقابلہ سپلائی میں اچھی خاصی کمی نظر آئے گی۔ ادھر روس کی سب سے بڑی اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی تیل کمپنی روج نیفٹ کے سی ای او نے انتباہ دیا ہے کہ دنیا کی اینرجی مارکیٹ میں ایک سپرسائیکل شروع ہونے کے آثار نظر آرہے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے بعد سے پوری دنیا میں کاروبار اور باقی کام کاج تیزی سے واپس پٹری پر لوٹتے نظر آرہے ہیں۔ اسی وجہ سے کوئلے، تیل اور گیس کی ڈیمانڈ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف سپلائی نظام اتنی تیزی سے پٹری پر واپس نہیں آسکا ہے۔ ایسے میں، سپر سائیکل فطری ہے۔ یعنی تیزی کا ایک لمبا دور چلے گا۔
ان دونوں بیانات میں جو فرق نظر آرہا ہے، وہ کوئی اختلاف نہیں ہے، بلکہ اس پیچیدہ صورت حال کا اشارہ ہے، جس نے دنیا کے تیل بازار کو تذبذب میں ڈال رکھا ہے۔ ایک ہفتہ قبل ہی اوپیک پلس کی میٹنگ میں تیل پیداوار میں ہر ماہ چار لاکھ بیرل روزانہ کا اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جب کہ، امریکہ اس سے کہیں زیادہ اضافہ کا مطالبہ کررہا تھا۔ اس کا جوازتھا کہ قیمتیں کنٹرول میں رکھنے کے لیے یہ اضافہ ضروری ہے۔ آج امریکہ 31سال کی سب سے اونچی مہنگائی سے نبردآزما ہے۔ اس کے لیے مسئلہ اس لیے بھی پیچیدہ ہے، کیوں کہ وہاں سردی کی چھٹیاں آنے والی ہیں، جب تقریباً پورا ملک گاڑیاں لے کر نکل پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ جاڑے میں گھروں اور دفاتر کو گرم رکھنے کے لیے وہاں بڑی مقدار میں ہیٹنگ آئل کی ڈیمانڈ میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہندوستان میں بھی گزشتہ کافی وقت سے تیل، گیس اور کوئلے جیسی چیزوں کا چلن کم کرنے کی باتیں چل تو رہی ہیں لیکن اس سے تیل اور گیس کی ڈیمانڈ میں کیا بھاری کمی آپائے گی، یہ پیچیدہ سوال ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں ہی نہیں، پوری دنیا میں فی الحال پٹرول- ڈیزل کی ڈیمانڈ یا قیمتوں میں کمی کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔
دنیا کے سبھی ممالک کے بین الاقوامی بازار میں تیل کی قیمت ایک ہی ہے۔ پھر وہ فروخت الگ الگ قیمتوں پر ہوتا ہے، کیوں کہ مختلف ممالک میں اس پر الگ الگ ٹیکس لگتا ہے۔ امریکہ میں پٹرول کی قیمت 67روپے یعنی ایک ڈالر سے کم ہے، جب کہ برطانیہ میں یہ 135 روپے لیٹر مل رہا ہے۔ ہندوستان کے تقریباً سبھی پڑوسی ممالک میں پٹرول کی قیمت ہندوستان سے کم ہے، حالاں کہ اتنی کم نہیں، جتنی افواہوں میں بتایا جاتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں میں بین الاقوامی بازار میں کچے تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود ہندوستان میں پٹرول-ڈیزل مہنگا ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی رہی کہ حکومتیں ان پر ایکسائز ڈیوٹی اور ٹیکس میں اضافہ کرتی رہیں۔ حال میں اس میں کچھ کٹوتی ہوئی ہے تو اونٹ کے منھ میں زیرہ کے برابر۔ ایسے میں جو حکومت گزشتہ کئی برس سے سستے تیل پر اونچا ٹیکس وصول کررہی ہے، اسے اب کورونا ا ور معیشت کے بحران کا بہانہ چھوڑ کر ایکسائز اور ٹیکس میں بڑی کٹوتی کرنی ہی ہوگی، تبھی عام آدمی کو پٹرول-ڈیزل کی قیمتوں سے اور معیشت کو مہنگائی کے دباؤ سے راحت مل پائے گی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS