بچوں کو اسکول بلانے کا وقت

لسانی علم اور جسمانی، ذہنی و جذباتی نشو و نما کیلئے بچوں کے درمیان آپسی بات چیت کافی اہم ہے جو اسکولوں میں ہی ممکن ہے

0

چندر کانت لہاریا

ہندوستان کے تقریباً 25کروڑ بچے کم و بیش 16ماہ سے اسکول کے کلاس رومز سے دور ہیں، جب کہ پوری دنیا کے تقریباً170ممالک محدود صلاحیت میں ہی سہی، اپنے یہاں اسے چلا رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو زیادہ تر ممالک میں کچھ دنوں کے لیے وبا کے دوران اسکول بند رہے۔ اس لیے وقت آگیا ہے کہ ہندوستان کے پالیسی ساز بھی بلاتاخیر بچوںکو اسکولوں میں واپس لانے پر غور کریں۔
وبا نے اسکولی بچوں کو آن لائن کلاسز کی جانب راغب کیا۔ مگر آن لائن کلاسز اسکول کی پڑھائی کا قطعی متبادل نہیں ہیں۔ خاص طور پر محروم طبقوں کے بچوں کو اس سے کافی پریشانی ہوتی ہے، کیوں کہ دیکھا گیا ہے کہ آن لائن تعلیم کا بہتر نتیجہ تبھی مل پاتا ہے جب سرپرست بھی بچوں کو اضافی وقت دے کر پڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ لسانی تعلیم، انٹرپرسنل سوشل اسکل اور جسمانی، ذہنی و جذباتی نشوونما کے لیے بچوں کے درمیان آپسی بات چیت کافی اہم سمجھی جاتی ہے جو اسکولوں میں ہی ممکن ہے۔ المیہ یہ ہے کہ وبا سے پہلے بھی اپنے یہاں اسکولوں میں پڑھائی کا پیمانہ کوئی بہت اچھا نہیں تھا، آن لائن تعلیم نے تو ان خامیوں کو مزید سیاہ بنادیا ہے۔
افسوسناک ہے کہ ہندوستان کی ’اَن لاک پلاننگ‘ میں سیاحت اور معاشی سرگرمیوں پر تو توجہ دی گئی ہے، لیکن تعلیمی سرگرمیوں اور اسکولوں کو کھولنے پر کم توجہ دی جارہی ہے، جب کہ سمجھا یہ جاتا ہے کہ ایک ماہ اسکول سے دور رہنے پر بچے سیکھنے کی سمجھ کے معاملہ میں دو ماہ پیچھے ہوجاتے ہیں، یعنی اپنے یہاں بچوں کو اب تک 32ماہ کا تعلیمی نقصان ہوچکا ہے۔ جن بچوں کی اسکولی زندگی گزشتہ یا اس تعلیمی سال سے شروع ہونے والی تھی، ان کے لیے بھی کم مشکلیں نہیں ہیں۔ تعلیم کی مین اسٹریم سے جڑنے میں ہی انہیں دیر ہورہی ہے۔ کروڑوں بچوں کو اسکولوں میں مڈڈے میل ملتا ہے، ان پر تو دُہری مار پڑی ہے۔
اسکولوں کو نہ کھولنے کے پیچھے کچھ ایسے خدشات ہیں جو بیجا معلوم ہوتے ہیں جیسے کووڈ-19کی تیسری لہر خاص طور سے بچوں کو متاثر کرے گی۔ اس غلط دعوے نے پالیسی سازوں اور والدین کو فکرمند کردیا اور اسکولوں کے کھلنے کی راہ میں نیا روڑہ ڈال دیا۔ جب کہ حقیقت یہی ہے کہ ایسی کسی بھی لہر میں بچوں میں بیماری سے متعلق کوئی اضافی خطرہ نہیں رہتا۔
یہاں تین دیگر سائنسی حقائق پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ ان میں پہلا ہے، اسکولوں کو کھولنے کے لیے بچوں میں ٹیکہ کاری کی لازمیت نہیں ہے، جس کی تصدیق پوری دنیا کے ماہرین کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ابھی تک کسی بھی ملک نے 12برس سے کم عمر کے بچوں کی ٹیکہ کاری شروع نہیں کی ہے۔ چوں کہ اس ایج گروپ کے لیے خطرہ کم ہے، اس لیے اگلے کچھ ماہ تک چھوٹے بچوں کو ٹیکہ کاری میں ترجیح دینے کے شاید ہی امکانات ہیں۔ دوسرا اسکول کے ایمپلائز کی ٹیکہ کاری ایک اچھا خیال ضرور ہے، لیکن اسکول کھولنے کی یہ لازمی شرط نہیں ہونی چاہیے۔ اور تیسرا چھوٹے بچوں(آٹھویں جماعت تک) کے لیے اسکول پہلے شروع کیے جانے چاہیے، کیوں کہ اس ایج گروپ میں خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔ 9ویں سے 12ویں کلاس کے بچوں کے لیے اسکول کھولتے وقت ہمیں زیادہ محتاط رہنا چاہیے اور اضافی حفاظت کے طریقے اپنانے چاہیے۔
واضح ہے ریاستی حکومتوں کو اسکول کھولنے کے لیے ضروری قدم جلد سے جلد اٹھانا چاہیے، اور اس کے لیے اولین ترجیح کے ساتھ ایک تفصیلی عملی منصوبہ(detailed action plan) بنانا چاہیے۔ مرکزی حکومت اس کے لیے ایک جامع نظریاتی منصوبہ(comprehensive theoretical plan) بناسکتی ہے، جس میں اصلاح یا نافذ کرنے کا حق ریاستوں کے پاس ہونا چاہیے۔ اس کام میں عالمی شواہد پر غور کرنا چاہیے، ماہرین تعلیم اور epidemiologists سے رائے مشورہ کرنا چاہیے اور پھر حالات کے مطابق ضوابط میں ردوبدل کی گنجائش ہونی چاہیے۔
حقیقت میں اب سبھی اسکولوں(سرکاری اور پرائیویٹ، دونوں) کو بچوں کے لیے کھول دینا چاہیے، لیکن ان سرکاری اسکولوں کو خاص طور سے توجہ دینی چاہیے، جہاں معاشرہ کے پسماندہ و محروم طبقے کے بچے پڑھتے ہیں اور جنہیں دوپہر کا کھانا دیا جاتا ہے۔ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے، کیوں کہ ان اسکولوں میں پڑھنے والے زیادہ تر بچے اتنے اہل نہیں ہوتے کہ گھر پر مناسب تعلیمی رہنمائی حاصل کرسکیں۔

بچوں کو کووڈ-19کے انفیکشن سے بچانے کی انتہائی حوصلہ افزا کوششوں میں ہمیں ان کو تعلیم اور سیکھنے کے مواقع سے محروم نہیں کردینا چاہیے۔ بچوں کی جسمانی، ذہنی، معاشرتی اور جذباتی یعنی جامع نشو و نما کے لیے اسکولوں کو کھولا جانا ضروری ہے۔ گزشتہ وقت کی تلافی اور سیکھنے کے راستے پر انہیں لانے کے لیے بھی ایسا کیا جانا ضروری ہے۔ حقیقت میں، اب اپنے ملک میں بھی اسکولوں کو پھر سے ریگولر کرنے کا وقت آگیا ہے۔

اسکولوں کو کھولنے سے پہلے ضروری یہ بھی ہے کہ کلاس کے اندر مناسب وینٹی لیشن اور بچوں کے درمیان جسمانی دوری یقینی بنانے کے لیے ضروری ساختیاتی تبدیلیاں(structural changes) کی جائیں۔ کھلے اور سایہ دار مقامات پر کلاسز منعقد کرنے پر غور کیا جانا چاہیے۔ اسکولوں میں بچوں کی مستقل صحت جانچ کی سہولت دستیاب کرائی جائے۔ کووڈ سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے معلومات شیئر کرنا اور تعلیمی سرگرمیوں میں سرپرستوں کو شامل کرنا بھی ضروری ہے۔ اسکول ٹیچروں اور دیگر ملازمین کو بھی یہ تربیت دینی ہوگی کہ وہ کووڈ سے بہتر طور پر نمٹنے کے تئیں نہ صرف حساس رہیں، بلکہ یہ بھی یقینی بنائیں کہ بچے بھی کلاس رومز میں ان پر عمل میں کسی طرح کی کوتاہی نہ برتیں۔
شروعات میں کلاسز پرانے دور سے ہٹ کر مستقل نہ ہوکر ہر دوسرے دن، تین دنوں میں ایک مرتبہ یا ہفتہ میں ایک دن بلائی جاسکتی ہیں۔ کئی شفٹوں میں بھی ان کو چلایا جاسکتا ہے۔ بچوں کی تعداد والدین کی صلاح کے بعد اسکول افسر طے کرسکتے ہیں۔ ابھی ہمیں اسکول کی کلاس اور آن لائن پڑھائی، دونوں کی ضرورت ہے۔ ہاں، یہ انتخاب سرپرستوں کا ہونا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کون سے ذرائع کا انتخاب کرتے ہیں؟ ایک متبادل ’بائیو-ببل‘ کا بھی ہے، جس میں ایک کلاس کے طلبا کا باہر کسی کے ساتھ کوئی رابطہ نہ ہو۔
واضح ہے بچوں کو کووڈ-19کے انفیکشن سے بچانے کی انتہائی حوصلہ افزا کوششوں میں ہمیں ان کو تعلیم اور سیکھنے کے مواقع سے محروم نہیں کردینا چاہیے۔ بچوں کی جسمانی، ذہنی، معاشرتی اور جذباتی یعنی جامع نشوونما کے لیے اسکولوں کو کھولا جانا ضروری ہے۔ گزشتہ وقت کی تلافی اور سیکھنے کے راستے پر انہیں لانے کے لیے بھی ایسا کیا جانا ضروری ہے۔ حقیقت میں، اب اپنے ملک میں بھی اسکولوں کو پھر سے ریگولر کرنے کا وقت آگیا ہے۔
(مضمون نگار پبلک پالیسی اینڈ ہیلتھ سسٹم کے اسپیشلسٹ ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS