سینوں پر سانپ بن کر لوٹ رہے ہیں تین خصوصی قوانین

0

محمد حنیف خان

ہر ملک کے انتظام و انصرام کے لئے ایک آئین ہوتا ہے ،جس کے تحت عوام الناس کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے چونکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے جس میں مختلف رنگ و نسل ،زبان ومذہب کے افراد رہتے ہیں اس لئے یہاں یکساں سول کوڈ کا نفاذ نہیں ہے۔ملک کا آئین لچیلا اور ہر طبقے کے حقوق کا ضامن ہے، اس لئے اس نے ہر کا نہ صرف خیال رکھا بلکہ ہر مذہب اور رنگ و نسل کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے اپنی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کرسکے،اس لئے آئین نے اس بات کی بھی اجازت دی کہ عمومی قوانین کے بجائے ہر طبقے کے لئے خصوصی قوانین وضع کئے جائیں۔یہاں تک کہ اس نے جغرافیائی حالات و تقاضوں کا بھی خیال رکھا اور خصوصی علاقوں کے لئے خصوصی قوانین کی بھی اجازت دی۔یہی وجہ ہے کہ ملک کے اقلیتی طبقات اور خصوصی علاقہ جات کو کبھی آئینی سطح پر شکایتیں نہیں ہوئیں لیکن ادھر چند برسوں میں پورے ملک میں یکسانیت کے لئے اس قدر آوازیں بلند ہوئیں کہ خصوصی قوانین پر جیسے برے دن آگئے اور آئین ساز ادارے نے ان پر نظریں لگا دیں۔اس نے متعدد ایسے قوانین منسوخ کردیئے جو پہلے نافذ تھے جس میں کشمیر میں دفعہ 370سر فہرست ہے۔اسی طرح ایسے قوانین وضع کئے جس نے اقلیتی طبقات کی پیشانیوں کو شکن آلود کردیا جس میں تین طلاق کا قانون سر فہرست ہے۔ اس طرح قوانین توضیع اور تنسیخ نے سب سے پہلا نشانہ اقلیتوں یا خصوصی علاقوں کو بنایا ہے چونکہ اکثریت اقتدار میں ہے اس لئے اس کی خواہش ہے کہ پورا ملک ایک ہی رنگ میں رنگ جائے لیکن شاید اس کو ملک کے تنوع اور اس کی روح کا خیال نہیں ہے اگر ذرا بھی خیال ہوتا تو اکثریت ایسے قوانین کی توضیع یا تنسیخ کے لئے اپنی طاقت کا استعمال نہ کرتی۔
جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے ،اس نے زمینی اور دستاویزی دونوں سطحوں پر اپنا سب سے پہلا نشانہ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو بنایا ہے۔اس کے پس پشت کئی اسباب ہیں ،جس میں سب سے پہلا سبب تو یہی ہے کہ ہزاروں برس بعد ایسے افراد اقتدار میں آئے ہیں جن کی فکر ہندو ازم کی تفوق کی ہے۔ان کو محسوس ہوتا ہے کہ اکثریت کی بالادستی اور حکومت ہونی چاہئے ،ان کی نظر میں ملک کا آئین اور اس کے ذریعہ عوام کو دیئے گئے حقوق اس کی فکر سے متصادم ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ووٹوں کے لئے زمینی سطح پر ایسے اقدامات کرتے ہیں جس سے اکثریتی طبقہ ان کی طرف نہ صرف راغب ہو بلکہ وہ ان کے حق میں ووٹنگ کرکے ان کے ہاتھوں کو مضبوط کرے تاکہ وہ آئینی سطح پر ترمیم و تنسیخ کر سکیں۔
اس وقت ملک میں تین ایسے قوانینworship act 199,Minorty act 1992,waqf act 1995 ہیں جو ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو نہ صرف سماجی انصاف دلاتے ہیں بلکہ وہ ان کے وجود کو مستحکم کرنے میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں ۔یہ تینوں قانون کانگریس کی پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت نے نافذ کئے تھے۔ ورشپ ایکٹ جہاں مسلمانوں کی مساجد و مقابر کا تحفظ کرتا ہے وہیں مائنارٹی ایکٹ اقلیتوں کے حقوق کا ضامن ہے جبکہ وقف ایکٹ کے تحت ان جائیدادوں کا انتظام و انصرام مسلمانوں کے ہاتھوں میں رہتا ہے جو اجتماعی فلاح و بہبود کے لئے وقف کی گئی ہیں۔ان تینوں قوانین کے خلاف اس وقت ایک طوفان برپا ہے ۔متشدد اور متعصب ذہنیت کے افراد ان قوانین کے خلاف نہ صرف لام بند ہیں بلکہ ان کی کوششیں ہیں کہ اب ان تینوں قوانین کو منسوخ کرایا جائے۔یہ قوانین اس وقت سانپ بن کر ان کے سینوں پر لوٹ رہے ہیں، اس کی وجہ ان کے تعصب اور نفرت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ان کو تکلیف اس بات کی ہے کہ ان تینوں قوانین کی وجہ سے مسلمان ہندوستان میں مضبوط و مستحکم دکھائی دے رہے ہیں۔ ورشپ ایکٹ کی وجہ سے ہندوستان کی مساجد و مقابر پر ان کے جائز قبضے کی خواہش نہیں پوری ہو پارہی ہے۔ یہ قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ 15اگست 1945یعنی آزادی سے قبل وجود میں آئی کسی بھی عبادت گاہ کو کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں تبدیل کردیا جائے ۔یہ اور بات ہے کہ گیان واپی مسجد کے قضیہ میں اس قانون کو بالائے طاق رکھ دیا گیا اور سماعت کے لئے مقدمہ کو منظور کر لیا گیا ہے۔متھرا اور بدایوں کی عید گاہ کے ساتھ، لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد اور دیگر مساجد پر اب ان متعصبین کی نظر ہے ۔اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو موریہ تو باضابطہ اس حوالے سے اپنے ٹوئٹر پر لکھ بھی چکے ہیں۔جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ قانون کس طرح ان کی نظروں میں کھٹک رہا ہے۔اگر یہ قانون منسوخ کردیا گیا تو ان نفرتی ذہن والوں کیلئے راہیں بہت آسان ہوجائیں گی اور کسی بھی مسجد ،قبرستان و دیگر مقامات پر مقدمہ کرسکتے ہیں،چونکہ ان کا مقدمہ ایسے شواہد کی بنیاد پر ہوتا ہے جو زمین پر ہونے کے بجائے زیر زمین ہوتا ہے جیسا کہ بابری مسجد قضیے میں ہوا اس لئے عدالتوں کا کام بھی آسان ہوجائے گا کہ وہ ایسے مقدمات کو سماعت کے لئے منظور کرلیں۔اسی طرح مائنارٹی ایکٹ نے اقلیتوں کو خصوصی مراعات دی ہیں اگر کسی کے ساتھ اس کے مذہب کی بنیاد پر تفریق برتی جا رہی ہے تو وہ مائنارٹی کمیشن کا رخ کر سکتا ہے اور کمیشن ڈی ایم سے لے کر دیگر اعلی افسران کو نہ صرف ہدایات جا ری کر سکتا ہے بلکہ انہیں طلب کرکے ان کی سرزنش بھی کرسکتا ہے۔اس لئے متعصب ذہن کے افراد کے لئے یہ قانون بھی کسی کالے اور زہریلے سانپ سے کم نہیں ہے۔ اسی طرح وقف ایکٹ کا معاملہ ہے ،اس ایکٹ کے تحت مسلمانوں کو اتنی جائیدادیں ملی ہوئی ہیں کہ بغیر کسی خورد برد کے ان جائیدادوں سے ہونے والی آمدنی کا استعمال مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے ہونے لگے تو چند برسوں میں پوری قوم کی قسمت بدل سکتی ہے۔ اس وقت ہندوستان میں 851939چھوٹی بڑی جائیدادیں جن کا انتظام و انصرام اسی قف ایکٹ 1995کے تحت ہوتا ہے۔وزارت اقلیتی بہبود کے مطابق اتر پردیش میں سنیوں کے پاس 210239اور شیعوں کے پاس 15386اوقاف ہیں۔مغربی بنگال میں 80480،پنجاب میں70994،تمل ناڈو میں 65945،کرناٹک میں61195،کیرل میں52038،تلنگانہ میں43693،گجرات میں93807،جموں و کشمیر میں 32529،بہار میں 8358،دہلی میں1047اوقاف ہیں۔
مذکورہ اوقاف وہ ہیں جو درج ہیں ان کے علاوہ بھی لاکھوں کی تعداد میں ایسی وقف جائیدادیں جن کا اندراج ابھی تک نہیں ہوسکا ہے۔چونکہ کوئی بھی شخص اپنی زمین و جائیداد کو اللہ رب العزت کی رضا اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے کبھی بھی وقف کرسکتا ہے اس لئے اس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ایسے میں یہ جائیدادیں متعصب ذہن کے افراد کے لئے حد درجہ تکلیف دہ ہیں۔اگر یہ ایکٹ نہ ہوتا تو ان جائدادوں پر کسی کے لئے بھی قبضہ کرنا آسان ہوتا۔آج کے دور میں سیاست اور غنڈہ گردی کے کاک ٹیل نے زمینوں پر قبضے کو حد درجہ آسان کردیا ہے اور یہ ایک ایسا راستہ بن گیا ہے کہ چند دنوں میں ایسے افراد فرش سے عرش پر پہنچ جاتے ہیں لیکن اس قانون کی موجودگی کی وجہ سے ان پر قبضہ آسان نہیں ہے۔ایسے میں یہ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ قانون منسوخ ہو تاکہ ان کی راہیں آسان ہوجائیں۔اس کے علاوہ ایک سبب اور ہے چونکہ متعصب ذہن کے افراد یہ بھی مانتے ہیں کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے، مسلمان یہاں زبردستی ہیں اس لئے اتنی کثیر تعداد میں غیر منقولہ جائیداد پر مسلمانوں کا تصرف انہیں منظور نہیں ہے ۔لیکن کیا ان لوگوں کے لئے راہیں اتنی آسان ہیں؟ان تینوں قوانین کے خلاف اس وقت لام بندی جاری ہے ،ہر طرف سے کوششیں ہو رہی ہیں کہ ان کومنسوخ کرایا جائے۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے بیدار ذہنی کا ثبوت دیا جا ئے اور اوقاف میں خورد برد پر نکیل لگائی جائے اور اس کے ذمہ داران کو عوام کے تحت جواب دہ بنایا جائے۔اس خورد برد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کو بھی نہیں معلوم ہے کہ ان جائدادوں سے کتنی آمدنی ہو رہی ہے۔اور یہی وہ راستہ ہے جہاں سے حکومت دخیل بن سکتی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے وجود کے استحکام کے لئے یہ تینوں قوانین از بس ضروری ہیں ذرا سی تساہلی اقلیتوں کاہاتھ خالی کرسکتی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS