نیکی اور بدی کی جنگ قیامت تک چلتی رہے گی

0
"La-ilaha-illallah-muhammadur-rasulullah" for the design of Islamic holidays. This colligraphy means "There is no God worthy of worship except Allah and Muhammad is his Messenger

ابونصر فاروق

اللہ تعالیٰ نے جب کائنات بنائی توہر چیزکا جوڑا بنایا۔ اس بات کو قرآن میں کئی جگہ دہرایا گیا ہے۔ جوڑے سے کیا مرا د ہے اس کو بہت کم سمجھا اور سمجھایا گیا ہے۔ جوڑے سے مراد ہے ہر چیز کی ضد۔ (یعنی ایک دوسرے کے خلاف) جیسے روشنی اور اندھیرا، سفید اور سیاہ، سادگی اور رنگینی، دن اور رات، خوشی اور غم، آرام اور تکلیف اور نیکی اور بدی وغیرہ۔ جوڑے میں پیدا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ ایک کی دوسرے سے پہچان ہوتی ہے۔
نیکی کی نمائندہ اُس کی ساری مخلوق ہے، کیونکہ اللہ کی کوئی بھی مخلوق اُ س کی نافرمانی کرنا تو دور نافرمانی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی ہے۔ شیطان جو اللہ تعالیٰ کے قریب رہنے والے فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا اُس کو بدی کا نمائندہ بنا یا۔ جب آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد اُس نے فرشتوں سے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور بدی کا نمائندہ بن گیا۔ اللہ کے حکم کی نافرمانی کرنا ہی بدی ، برائی ، خطا اور جرم ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔جب اللہ کی نافرمانی کرنے کے جرم میں شیطان کو اللہ تعالیٰ نے مردود بنادیا تواُس نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اُسے قیامت تک کی زندگی دی جائے اور دوسرے یہ کہ وہ دنیا میں اُس انسان کو بھی جو خلیفہ بنایا جارہا ہے اور جس کی منزل جنت ہے، اللہ کا نافرمان بنا کر جہنم میں پہنچا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کو دونوں چیزوں کی اجازت دے دی۔ شیطان نے اس کا اعتراف کیا کہ تیرے خاص بندوں پر اُس کا بس نہیں چلے گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا کہ میرے خاص بندوں پر تیرا بس نہیں چلے گا۔اور پھر آدم اور حوا علیہما السلام اور شیطان نیکی اور بدی کے نمائندے بنا کر زمین پر اتار دیے گئے اور نیکی اور بدی کی جنگ شروع ہو گئی۔
یہاں پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ زمین پر نیکی اور بدی دونوں قیامت تک رہے گی اور آپس میں دونو ں کی کش مکش، ٹکراؤ بھی قیامت تک ہوتا رہے گا۔ نہ نیکی ختم کی جا سکے گی اورنہ برائی جڑ سے مٹائی جا سکے گی۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سمجھنا ہے کہ اگر نیکی کو پروان چڑھانے اور برائی کو مٹانے کی کوششیں نہیں کی گئی تو سماج میں نیکی کمزور پڑتی جائے گی اور برائی جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی جائے گی۔ اسی لئے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ:’’اور اے نبی ؐنیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں، تم بدی کو اُس نیکی سے دور کر و جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ جس کے ساتھ تمہاری عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیا ہے۔‘‘
نبی ؐ کے بعد اہل اسلام اور ایمان وہ گروہ ہے جس کو زمین پر پیدا ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ نیکی کو پروان چڑھاتا اور پھیلاتا رہے اور برائی کو دباتا اورمٹاتا رہے۔’’اب دنیا میںوہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
اب سچے اور جھوٹے مسلمان کی یہ پہچان بن گئی کہ جو شریعت کے مطابق نیکی کے کاموں کی ترقی میں لگا ہوا ہے اور برائی کو دبانے اور مٹانے کی جد و جہد میں مصروف ہے وہ سچا مومن اور مسلم ہے۔ اور جو مسلم ہوتے ہوئے بھی برائی کی مخالفت نہیں کررہا ہے بلکہ اُس کا ساتھ دے رہا ہے اور خود بھی برا بنا ہو اہے وہ اسلام اورایمان کا جھوٹا دعوی کر رہا ہے۔
یاد رکھئے کہ برائی کبھی اپنی اصلی شکل میں سامنے نہیں آتی ہے بلکہ نیکی کی نقاب اوڑھ کر آتی ہے جس سے لوگ دھوکہ کھاتے ہیں اور برائی کے ہم نوا بن جاتے ہیں۔ برا سے برا آدمی بھی خود کو برا نہیں بلکہ اچھا کہتا ہے۔ہر برے آدمی کے ساتھ چھوٹا یا بڑا ایک گروہ ہوتا ہے جو اپنے سردار کو اچھا اورنیک ثابت کرنے پر لگا رہتا ہے۔ایسے میں کیسے ثابت ہو گا کہ نیک کون ہے اور برا کون ہے؟ اس مسئلہ کو حل کرنے کا طریقہ قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے:’’تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اُس سے باخبر ہو گا۔ ‘‘
کسی کے نیک ہونے کا صرف زبانی دعویٰ کرنے سے یانمازی اور حاجی بن جانے سے اُس کے نیک ہونے کا یقین نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ وہ اپنے مستقبل کے لئے بچا کر رکھی ہوئی دولت خوش دلی کے ساتھ عبادت سمجھتے ہوئے اللہ کے محتاج اور مجبور بندوں کی مدد کرنے پر خرچ کرتا ہے یا نہیں۔ جو آدمی اپنے محتاج، مجبور و معذور رشتہ داروں، دوست احباب، پڑوسیوں اور محلے گاؤں بستی کے لوگوں کی مدد اپنی بچائی ہوئی دولت سے نہیں کرتا ہے وہ دنیا والوں کے نزدیک چالبازی سے چاہے نیک بن جائے مگر اللہ کے نزدیک وہ نیک نہیں بن سکتا ہے۔ اور اگر اللہ کے نزدیک وہ نیک نہیں برا ہے تو وہ کبھی جنت کا حقدار نہیں بن سکتا ہے۔
ایسے لوگوں کا حشر میں کیا انجام ہوگا:
ہر آدمی اپنے کسب (عمل)کے بدلے رہن (گروی) ہے۔ دائیں بازو والوں کے سوا، جو جنتوںمیں ہوں گے۔ وہ مجرموں سے پوچھیں گے۔ تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی ؟ وہ کہیں گے’’ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے۔ اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے۔ اور روز جزا (آخرت) کو جھوٹ قرار دیتے تھے۔ یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آ گیا۔ اُس وقت سفارش کرنے والوں کی کوئی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی۔(المدثر:۳۸تا۴۸)
جنت والے جہنم والوں کو جھانک کر دیکھ سکیں گے اور پھر وہ اُن سے پوچھیں گے کہ دنیا میں تو تم بڑے نیک بنتے تھے اور اپنی پارسائی کا دعویٰ کرتے تھے، تم جہنم میں کیسے چلے گئے ؟ تب وہ جواب دیں گے کہ ہمارا پہلا جرم یہ ہے کہ ہم نماز پابندی سے نہیں پڑھتے تھے۔ نماز بھی پڑھتے تھے اور برائی کے کام بھی کیا کرتے تھے۔ ہماری خرابی یہ تھی کہ ہم دولت کی لالچ میںاُسے محتاج مجبور لوگوں پر خرچ نہیں کرتے تھے اور دین کا علم حاصل کرنے اورنیکی کی باتوں کا ساتھ دینے کی جگہ دین پسندی کی جگہ دنیا داری کی حمایت کرتے تھے اور سارے لوگوں کو یہی سمجھاتے تھے۔
عام طور پر نماز پڑھنے والوں کی عزت کی جاتی ہے۔ اور اگر یہ لوگ دوسروں کو نماز کی تاکید کرتے رہیںتب تو ان کی عزت میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ لیکن قرآن ایسے لوگوں کے متعلق کیا کہہ رہا ہے:
تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کوجھٹلاتاہے۔ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اکساتا۔ پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لئے۔ جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں۔ جو ریاکاری کرتے ہیں۔ اور معمولی ضرورت کی چیزیں(لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔یہ لوگ نماز تو پڑھتے ہیں لیکن ان کی دنیا داری کو دیکھ کر اندازہ ہوتاہے کہ یہ لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ خاندان میں جب باپ کے ہوتے ہوئے کوئی بھائی مر جاتا ہے اور باپ کے مرنے کے بعد جب زندہ بھائی جائیداد کا بٹوارہ کرتے ہیں تو مرحوم بھائی کی بیوی و بچوں کو جائیداد سے بے دخل کر دیتے ہیں اور گھر سے نکال دیتے ہیں۔ یعنی یتیم اور بیوہ کو دھکے دیتے ہیں۔ مسلم سماج میں شاید ہی کوئی ایسا خاندان ملے گا جہاں مرحوم بھائی کے بیوی و بچوں کو عزت آبرو کے ساتھ گھر میں رکھا جا رہا ہو، اُن کی اچھی طر ح اسے پرورش اور تعلیم و تربیت کی جارہی ہو اور اُن کی حق تلفی نہیں کی جاتی ہو۔ نمازی اور حاجی خاندانوں کے متعلق یہ شکایتیں ملتی ہیں کہ وہاں یتیم اور بیوہ کے ساتھ ظلم اور زیادتی کی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے نمازیوں کو دکھاوے کی نماز پڑھنے والا کہہ رہاہے۔ دکھاوا کرنے کو شریعت میں شرک کہا گیاہے۔ باپ کے مرنے کے بعد بھائی بہنوں کی شادی میں دکھاوے اور شان و شوکت کے لئے لاکھوں خرچ کرتے ہیں اور بہن سے کہتے ہیں کہ جائیداد میں تمہارا حصہ اب نہیں ہے۔ تمہارا حصہ تمہاری شادی میں خرچ ہو گیا۔
تباہی ہے ہر اُس شخص کے لئے جسے(رو بہ رو) لوگوںپر طعن اور(پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کی عادت ہے۔ جس نے مال جمع کیا اور اُسے گن گن کر رکھا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اُس کا مال ہمیشہ اُس کے پاس رہے گا۔ ہرگز نہیں، وہ شخص تو چکنا چور کر دینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ چکنا چور کر دینے والی جگہ۔ اللہ کی آگ، خوب بھڑکائی ہوئی۔ جو دلوں تک پہنچے گی۔ وہ اُن پر ڈھانک کر بند کر دی جائے گی۔ (اس حالت میں کہ وہ) اونچے اونچے ستونوں میں(گھرے ہوئے )ہوں گے۔
انسان کے پاس ضرورت سے زیادہ دولت ہو جائے لیکن اُس کی طبیعت میں نیکی نہ ہوتو وہ شیطان بن جاتا ہے۔وہ خود کو کامیاب اور ہوشیار سمجھنے لگتا ہے اور اُن لوگوں کو جو غریب اور محتاج ہیں بد عقل ، نکما اور ناکارہ سمجھتا ہے۔ وہ سامنے آئیں تو اُن کو لعنت ملامت کرنے لگتا ہے اور پیٹھ پیچھے ایسے لوگوں کی برائیاں کرنے لگتا ہے۔ یہ بد بخت محتاجوں اور مجبوروں پر دولت خرچ کرنے کی جگہ اُں کو گن گن کر اور جوڑ جوڑ کر جمع کرتا رہتا ہے۔ وہ اتنا نہیں سمجھتا کہ اُس کا یہ مال خود اُس کی اپنی زندگی میں اُس کے کام نہیں آئے گا۔ جب وہ بوڑھا ہو جائے گا تو اُس کے کھانے پر پابندی لگ جائے گی اور وہ زندہ رہنے کے لئے روکھا پھیکا کھانے پر مجبور ہو جائے گا۔ اُس کی جسمانی کمزوری اتنی بڑھ جائے کہ آزادی کے ساتھ اُس کا گھومنا پھرنا، سیر سپاٹے کرنا بند ہو جائے گا۔ اُس کو ایسی بیماری لگ جائے گی کہ اُس کی جمع کی ہوئی رقم بھی اُس کے علاج کے لئے ناکافی ہو جائے گی۔ اور اگر یہ سب نہ ہوا تب بھی اچانک اُس کا ہارٹ فیل ہو گا اور وہ اپنی ساری جمع کی ہوئی دولت دوسروں کے لئے چھوڑ کر جہنم کا عذاب جھیلنے کے لئے دنیا سے سدھار جائے گا۔
قرآن کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ اہل تقوی ہونے اور ہدایت یافتہ ہونے کی پانچ شرطیں بتاتا ہے جن میں ایک شرط یہ ہے کہ ’’اور ہم نے اُنہیں(کم یا زیادہ) جو بھی روزی دی ہے اُس میں سے(اللہ کی راہ میں اُس کی رضا کے لئے ) خرچ کرتے ہیں۔ بچا بچا کر رکھتے نہیں۔ آمدنی زیادہ ہو یا کم نیک بننے کے لئے آسانی سے جتنا بھی خرچ کیا جاسکتا ہے خرچ کرنے کی عادت ہو جائے تو پھر انسان نیکی کی اونچائی پر چڑھنے لگتا ہے۔اور اگر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت نہیں پیدا ہوئی تو پھراُس کی نماز، حج اور دکھاوے کی تمام عبادتیں شرک جیسا گناہ بن جاتی ہیں۔ وہ دنیا کی زندگی میں ہی ذلیل و خوار بن کر جیتا رہتا ہے اور مرنے کے بعد جہنم میں چلا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS