مولانا کے ’ راشٹرپتا‘ یا مرعوب ہوتے مسلمان

0

پرامن بقائے باہمی کا درخشاںا صول یہ ہے کہ انسان کم از کم مشترکہ معاملات میں اتفاق رائے قائم کرتے ہوئے امن اور ہم آہنگی تلاش کرے۔ اختلافی امور کو پرے رکھتے ہوئے مناظرہ و مجادلہ سے بھی گریز کرے اورتمام معاملات برابری کی سطح پر طے کئے جائیں۔ لیکن ہندوستان میں صورتحال اس کے برخلاف ہے ۔ کچھ عناصر کی مذہبی شدت پسندی یہ تقاضاکررہی ہے کہ دوسرے اپنے مذہبی اصول سے کنارہ کش ہوکران کی کہی ہوئی باتیں من وعن تسلیم کرلیںاور ان کے بنائے ہوئے اصول پر کاربند ہوجائیں تب ہی معاشرہ میںامن قائم ہوگا۔یعنی ان عناصر کی برتری تسلیم کرتے ہوئے خود کو ان کی تہذیب وثقافت میں ضم کرلیں یہی ’پرامن بقائے باہمی‘ ہے۔ذہنی اورنفسیاتی اذیت کے شکار مسلمانوں کا ایک حلقہ ایسے عناصرکی نہ صرف حوصلہ افزائی کررہا ہے بلکہ اس کا داعی بھی بن گیا ہے ۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس )کے سربراہ (سرسنگھ چالک )موہن بھاگوت ان دنوں مسلم زعما سے ملاقات کررہے ہیں اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ مسلمان ’ کافر‘ کہنا بند کردیں‘ فلسفہ جہاد کی کھلی نفی کریں اور ذبیحہ گائو کو ’حرام‘ جانیں ۔ موہن بھاگوت جی کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بھی ہندو ہی ہیں کیوں کہ ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں کا ہی ’ ڈی این اے ‘ ایک ہے ان میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ طریقہ عبادت کا ہے ۔ عبادت بھلے ہی اپنے طریقہ سے کریں لیکن دین کو زندگی پر حاوی نہ ہونے دیں اور تہذیب وثقافت میں ان کی پیروی کریں ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ موہن بھاگوت جی کی مذکورہ باتوں میں سے چند ایک کو نہ صرف تائید مل رہی ہے بلکہ آرا یس ایس سربراہ کی ان کوششوں کے لئے انہیں ’ راشٹر پتا‘ بھی کہا جا رہا ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت آج جمعرات کو دہلی کی ایک مسجد اور مدرسہ میں پہنچے تھے۔ ان کے ساتھ آر ایس ایس کے ہی رام لال، کرشنا گوپال اور راشٹریہ مسلم منچ کے سربراہ اندریش کمار اورمولانا عمیر احمد الیاسی بھی موجود تھے۔بند کمرے میںتقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی اس ملاقات کو جہاں صہیب الیاسی نے اسے ایک گھریلو تقریب کی طرح قرار دیا وہیں آل انڈیا امام آرگنائزیش کے چیف مولانا ڈاکٹر عمیر احمد الیاسی نے کہا کہ ہمارا (ہندو-مسلم) ڈی این اے ایک ہی ہے، صرف عبادت کرنے کا طریقہ الگ ہے۔مولانا عمیر احمد الیاسی نے اسی پربس نہیں کیا بلکہ انہوں نے موہن بھاگوت کو اس ملک کا ’راشٹرپتا‘ بھی قرار دے دیا ۔اس ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ وہ ان کی دعوت پر مدرسہ تجوید القرآن کا دورہ کرنے آئے تھے، انہوں نے مدرسہ کے بچوں سے بھی ملاقات کی۔آر ایس ایس چیف کا امام آرگنائزیشن کے دفتر میں آنا ایک خوش آئند اور پورے ملک کیلئے اچھی خبر ہے۔ اس ملاقات کے بارے میں سب ہی لوگوں کو مثبت انداز میں سوچنا چاہئے۔ موہن بھاگوت کی آمد ہم سب کیلئے خوش قسمتی ہے ۔ موہن بھاگوت آج ہمارے ’راشٹر رشی‘ ہیں۔ وہ اس ملک کے ’راشٹرپتا‘ ہیں۔ راشٹرپتا کا ہمارے پاس آنا خوشی کی بات ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہی محبت کا پیغام ہمیں سب کو دینا چاہئے۔ہمیں اب اپنا نظریہ اور نظارہ دونوں ہی بدلنے کی ضرورت ہے آپس میں مل کر محبت سے رہنا اور سبھی کو ایک ہوکر چلنا چاہئے۔ میڈیا سے اپنی گفتگو میں مولانا محترم نے وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت پر بھی اظہار ناز کرتے ہوئے کہا کہ ہم سبھی کو ان کا تعاون کرناچاہئے۔
اس سے قبل یہ خبربھی آئی تھی کہ سنگھ کے سربراہ نے مسلم کمیونٹی کے پانچ دانشوروں سے ملاقات کی ہے۔ ان میں دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرضمیر الدین شاہ، سابق ایم پی شاہد صدیقی اور معروف تاجر سعید شیروانی شامل تھے۔بوجوہ اس میٹنگ کی خبر سے میڈیا کو دور رکھاگیا تھااور ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو بھی سامنے نہیں آپائی تھی لیکن آج کی میٹنگ کو بھرپور کوریج دیاگیا ہے اور اس کے بعد مولانا عمیر الیاسی کی میڈیا سے گفتگو بھی تمام نشریاتی وسائل پر چھائی ہوئی ہے ۔یقینی طور پر سنگھ کے سربراہ کا مسجد جانا ایک اہم واقعہ ہے اور اسے ہندوئوں اور مسلمانوںکے درمیان فاصلہ کم کرنے کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کی اس زہرآلود فضا میںیہ قدم قابل ستائش بھی ہے لیکن اس کا مطلب قطعی یہ نہیں ہوناچاہئے کہ اس سے مرعوب ہوکر سچ اور حق سے مصالحت کرلی جائے۔ ڈی این اے ایک ہونے کا مطلب یہ نہیںہوناچاہئے کہ خدا کی وحدانیت کا تصور بھی ایک ہی سمجھ کر اسلام کو عبادت تک سمیٹنے کی کوشش اور اس کی دعوت شروع کردی جائے اور موہن بھاگوت جی کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے انہیں ’راشٹر پتا‘ اور راشٹررشی کے درجہ پر فائز کردیاجائے۔یہ پرامن بقائے باہمی نہیں بلکہ ایک طرح سے زندگی کا خراج ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS