یہ بے خودی بے سبب نہیں!

0

صبیح احمد

مرکزی کابینہ کی حالیہ توسیع کے حوالے سے الگ الگ انداز سے تجزیے پیش کیے جا رہے ہیں۔ کچھ لوگ اسے کورونا وبا کے دوران حکومت کی پالیسیوں کی ناکامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں تو کوئی اسے کچھ ریاستوں میں ہونے والے آئندہ اسمبلی الیکشن کی تیاریوں کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں۔ دراصل یہ دونوں ہی باتیں اپنی اپنی جگہ درست معلوم ہوتی ہیں۔ ویسے کابینہ کی توسیع وزیراعظم کا صوابدید ہوتا ہے۔ وہ جب بھی ضرورت محسوس کریں، اس میں رد و بدل یا الٹ پھیر کر سکتے ہیں اور یہاں تک کہ وہ اپنی کابینہ کے کسی بھی رکن کو جب چاہیں کوئی وجہ یا جواز بتائے بغیر ہٹا سکتے ہیں۔ اس لیے اسے کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں کہی جا سکتی لیکن چونکہ مودی-2 کابینہ میں پہلی بار یہ تبدیلی رونما ہوئی ہے اور خاص بات یہ ہے کہ ابھی کچھ دنوں قبل کچھ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی توقع کے خلاف نتائج اور خاص طور پر مغربی بنگال میں مودی اینڈ ٹیم کی جو درگت ہوئی ہے، اس پس منظر میں مزید کچھ ریاستوں میں آئندہ سال کے اوائل میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر مرکزی کابینہ کی یہ توسیع کافی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ یہ بے خودی بے سبب نہیں ہے۔ خصوصاً آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی اور سیاسی طور پر کافی اہم ریاست اترپردیش میں آئندہ اسمبلی الیکشن کے نتائج 2024 کے عام انتخابات کا پیمانہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بھگوا بریگیڈ نے آگے کے خطرات کو بھانپ لیا ہے اور ان خطرات سے نمٹنے کے لیے ابھی سے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ کابینہ میں توسیع انہی تیاریوں کا ایک حصہ ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم مودی نے اپنی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کرتے ہوئے خاص طور پر صحت، آئی ٹی اور تیل کی وزارتوں کے لیے نئے وزرا مقرر کردیے ہیں۔ کابینہ میں بڑی تبدیلی سے قبل 12 وزیروں نے استعفیٰ دیا تھا جس کے بعد 43 نئے وزرا نے حلف اٹھایا ہے۔ کابینہ میں نئے وزیروں کی شمولیت کے بعد وزیراعظم مودی کی کابینہ میں اب وزیروں کی تعداد 78 ہوگئی ہے۔ دراصل کووڈ 19- وبا کے دوران کارکردگی پر مودی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کابینہ میں حالیہ تبدیلیوں کو اس تناظر میں بھی دیکھا جارہا ہے۔ ڈاکٹر ہرش وردھن کی جگہ49سالہ منسکھ لکشمن مانڈویہ کو وزیر صحت مقرر کیا گیا ہے اور ان کے نائب وزیر بھی عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وزیر صحت ہرش وردھن اور ان کے نائب کو ملک میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران حکومت پر ہونے والی تنقید کی سیاسی قیمت چکانا پڑی ہے۔ وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی روی شنکر پرساد کا استعفیٰ کئی حلقوں کے لیے حیرانی کا باعث ہے۔ ہندوستان میں حکومت جب ٹوئیٹر، گوگل اور فیس بک جیسے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر نئے قوانین کے نفاذ کی کوشش کررہی ہے، بی جے پی کے نمایاں رہنما روی شنکر پرساد کی جگہ سابق بیوروکریٹ اشونی ویشنو کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ روی شنکر پرساد ٹوئیٹر کے ساتھ تنازع کو درست انداز میں سنبھال نہیں سکے جس کی وجہ سے انہیں وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کابینہ میں یہ تبدیلیاں در حقیقت کووڈ19- وبا کی دوسری لہر میں حکومت کی امیج کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش ہے۔

کسـانـوں نـے ’ڈفـیـٹ بـی جـے پـی: مـشـن اتـرپـردیش‘ کـا نـعـرہ دے رکھا ہـے۔ اس سـے قـبـل مـغـربــی بـنـگال کے اسمبلی انتخابات مـیـں کـسـان تـنـظـیـمـوں اور ان کـے رہـنـمـاؤں نـے بـی جـے پـی کـے خـلاف مـہـم چـلائــی تھی اور اس وقت کسانوںکا نـعـرہ تھا: ’ڈفـیـٹ بـی جـے پـی: پنش بی جے پی‘ (بی جے پی کو ہراؤ اور اسے سزا دو)۔ کسـانـوں نـے تـو 2024 تک تـحـریک چـلانـے کا مـنـصـوبہ بـنـا لـیـا ہـے۔ انہی حالات سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم مودی نے نئے سرے سے بساط بچھانے کی کوشش کی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ نئے مہرے کتنے کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔

غالب امکان ہے کہ کورونا دور میں حکومت کی ناقص کارکردگی کی پردہ پوشی کابینہ کی حالیہ توسیع کی ایک اہم وجہ ہو لیکن اس کے علاوہ بھی کئی عوامل ہیں جن کے سبب مرکزی کابینہ میں تبدیلیوں کے حالیہ فیصلے لیے گئے۔ وجہ خواہ کچھ بھی ہو، مودی برانڈ اب اتنا کارگر یا مضبوط نہیں رہا، جتنا 2019 میں تھا۔ کووڈ19- وبا کی دوسری لہر کے دوران خراب کارکردگی کی وجہ سے حالیہ برسوں میں جہاں معاشی مسائل بڑھے ہیں، وہیں ہنگامی حالات میں مودی کی اہلیت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو ملک میں ویکسینیشن کے عمل میں سست رفتاری اور کووڈ19- سے بچاؤ کی ویکسین کی قلت کے باعث بھی تنقید کا سامنا ہے۔ ہندوستانی معیشت کے حجم میں گزشتہ برس 7 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر لاکھوں روزگار ختم ہوئے اور بالخصوص غریب اور متوسط طبقات میں مایوسی بڑھی ہے۔ وبا کی دوسری لہر نے رواں برس معیشت کی بہتری کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
ایک اور زاویہ ہے جو سب سے زیادہ اہم ہے۔ آئندہ برس کے اوائل میں کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ رواں برس اپریل میں مغربی بنگال کے انتخابات میں وزیراعظم مودی کی بھرپور انتخابی مہم کے باوجود بی جے پی کو مقامی سیاسی جماعت ترنمول کانگریس نے زبردست شکست دی تھی۔ مغربی بنگال کے انتخابی نتائج نے آئندہ ریاستی اسمبلی انتخابات بالخصوص اترپردیش میں بی جے پی کی کامیابی کے امکانات پر شبہات پیدا کردیے تھے۔ یوپی آبادی کے اعتبار سے ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ ہندوستان پر حکومت کرنے کے لیے اسے اہم تصور کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں مرکزی کابینہ میں شامل کیے گئے وزیروں میں ایک درجن سے زائد کا تعلق ان ریاستوں سے ہے جہاں انتخابات کا انعقاد ہونے والا ہے۔ اس کے علاوہ کابینہ میں مختلف ذاتوں اور مقامی برادریوں کو بھی نمائندگی دی گئی ہے جسے ہندوستانی سیاست میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی لین دین کے لیے یہ ضروری تھا۔ جن ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں، وہاں سیاسی اتحادیوں کے لیے نچلی ذاتوں، قبائلی اور پسماندہ برادریوں جیسے گروپس کو سیاسی نمائندگی دینا ضروری تھا۔
ادھر کورونا وبا کے دوران بدنظمی کے ساتھ ساتھ کسان تحریک بھی آئندہ اسمبلی الیکشن کے حوالے سے بی جے پی کے لیے مصیبت بنی ہوئی ہے۔ متنازع زرعی قوانین کے خلاف شروع ہونے والی کسانوں کی تحریک کے 6 ماہ مکمل ہو گئے ہیں۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ یہ قوانین چونکہ ان کے مفادات کے خلاف ہیں، لہٰذا حکومت انہیں واپس لے اور جب تک ان کا یہ مطالبہ پورا نہیں ہوتا یہ احتجاج جاری رہے گا۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے 12 ادوار ہو چکے ہیں لیکن اب تک یہ بات چیت بے نتیجہ رہی ہے اور 22 جنوری کے بعد سے مذاکرات کا سلسلہ بھی بند ہے۔ کسان تنظیموں نے اترپردیش سمیت مختلف ریاستوں میں آئندہ اسمبلی انتخابات کے دوران بھی بی جے پی کے خلاف انتخابی مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کسانوں نے ’ڈفیٹ بی جے پی:مشن اترپردیش‘ کا نعرہ دے رکھا ہے۔ اس سے قبل مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں کسان تنظیموں اور ان کے رہنماؤں نے بی جے پی کے خلاف مہم چلائی تھی اور اس وقت کسانوںکا نعرہ تھا: ’ڈفیٹ بی جے پی: پنش بی جے پی‘ (بی جے پی کو ہراؤ اور اسے سزا دو)۔ کسانوں نے تو 2024 تک تحریک چلانے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ انہی حالات سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم مودی نے نئے سرے سے بساط بچھانے کی کوشش کی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ نئے مہرے کتنے کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS