ہدف حکومت کا، ذمہ داری ہم سب کی

0

حکومت ہند نے 18سال سے اوپر کی عمر والی اپنی پوری آبادی کو اس سال کے آخر تک کورونا ٹیکہ لگانے کا ہدف رکھا ہے۔اس کے لیے ضروری ویکسین کی خوراک اکٹھا کرنے کا ایکشن پلان حکومت پہلے ہی ملک کے ساتھ شیئر کرچکی ہے۔ اب حکومت نے اسے عملی جامہ پہنانے کا روڈمیپ بھی تیار کرلیا ہے۔ حکومت کی سوچ بیشک درست ہے لیکن روڈمیپ کا نقشہ اور حکومت کی منشا میں ہم آہنگی آسان کام نہیں ہوگی۔ اس سے متعلق سوال ابھی سے اٹھنے شروع ہوگئے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ہی سپریم کورٹ تک نے حکومت سے اس کا حساب کتاب طلب کرلیا ہے۔ حکومت کو اگلے دو ہفتوں میں ویکسین خریدنے سے لے کر اسے لگانے تک کا خاکہ پیش کرنا ہے۔
حکومت عدالت میں جس شکل میں بھی معلومات پیش کرے، لیکن اس نے جو ہدف طے کیا ہے عام حالت میں اسے پورا کرنے کے لیے ٹیکوں کی کل 188کروڑ خوراک کی ضرورت ہوگی۔ حکومت اب تک21کروڑ ٹیکے لگاچکی ہے یعنی بچے 167کروڑ۔ دسمبر کی ڈیڈلائن کا مطلب یہ ہوگا کہ اگلے سات ماہ میں ویکسین کی 167کروڑ ڈوز لگانی پڑے گی یعنی جون سے ہر ماہ 23.8کروڑ ڈوز یا روز کی تقریباً 80لاکھ ڈوز۔ حکومت کا منصوبہ جولائی سے روزانہ ایک کروڑ ڈوز لگانے کا ہے۔
ان اعدادوشمار کے درمیان تیسری لہر کا خدشہ اور بچوں پر منڈلاتے اس کے ممکنہ خطرے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اگر بالغ ہی نہیں، بلکہ ملک کی پوری آبادی کو ٹیکہ لگانے کی نوبت آتی ہے تو ہمیں سال کے آخر تک 251کروڑ خوراک کی ضرورت پڑسکتی ہے یعنی جون سے ہر ماہ 35.9کروڑ یا روز کی ایک کروڑ 20لاکھ ڈوز۔
بلومبرگ ویکسین ٹریکر کے مطابق دنیا میں 1.8ارب لوگوں کو کورونا کا کوئی نہ کوئی ٹیکہ لگ چکا ہے۔ اس میں ہمارا بھی اہم تعاون ہے کیوں کہ ہندوستان دنیا میں سب سے تیزی سے 21کروڑ ٹیکے لگانے والا ملک ہے، لیکن ہمارے روز کے ٹیکہ لگانے کی شرح زیادہ سے زیادہ 38لاکھ ٹیکوں تک ہی پہنچ پائی ہے۔ اس رفتار سے تو ہماری پوری بالغ آبادی کو ہی اگلے سال جولائی تک ٹیکہ لگ پائے گا، بچے پھر بھی چھوٹ جائیں گے۔ لیکن حکومت نے جو ہدف طے کیا ہے، وہ ناممکن بھی نہیں ہے۔ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ٹیکوں کی مستقل سپلائی ہے۔ اگر اس رکاوٹ کو دور کرلیا جائے تو دسمبر تک ٹیکہ کاری کا ہدف پورا بھی کیا جاسکتا ہے۔
گزشتہ کچھ ماہ کا تجزیہ کیا جائے تو زمینی حقیقت اور سامنے کھڑے چیلنج کا فرق واضح ہوتا ہے۔ یکم اپریل تک ہندوستان میں ویکسین لگانے کی شرح پانچ فیصد تک پہنچی تھی یعنی ہم اپنے ہر100شہریوں میں سے 5کو ویکسین لگاپارہے تھے۔ چین، برازیل، روس جیسے ممالک میں بھی تب یہ شرح 6.5سے 9.5فیصد تک ہی پہنچی تھی۔ لیکن گزشتہ ماہ ختم ہونے تک یہ فاصلہ کافی بڑھ چکا تھا۔ ہماری ویکسین کی شرح 14فیصد تک ہی پہنچ پائی ہے، جب کہ برازیل اور چین میں یہ 30فیصد کی سطح کو چھو رہی ہے۔ برطانیہ اور امریکہ میں تو یہ اعدادوشمار سلسلہ وار 94اور 90فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔

بلومبرگ ویکسین ٹریکر کے مطابق دنیا میں 1.8ارب لوگوں کو کورونا کا کوئی نہ کوئی ٹیکہ لگ چکا ہے۔ اس میں ہمارا بھی اہم تعاون ہے کیوں کہ ہندوستان دنیا میں سب سے تیزی سے 21کروڑ ٹیکے لگانے والا ملک ہے، لیکن ہمارے روز کے ٹیکہ لگانے کی شرح زیادہ سے زیادہ 38لاکھ ٹیکوں تک ہی پہنچ پائی ہے۔ اس رفتار سے تو ہماری پوری بالغ آبادی کو ہی اگلے سال جولائی تک ٹیکہ لگ پائے گا، بچے پھر بھی چھوٹ جائیں گے۔ لیکن حکومت نے جو ہدف طے کیا ہے، وہ ناممکن بھی نہیں ہے۔

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان ممالک نے ٹیکہ کاری کی ایسی اونچی شرح کو حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا کیا جو ہندوستان نہیں کرپایا۔ اس کا جواب بالکل سیدھا ہے۔ جب ہندوستان سمیت دنیا کے دوسرے ممالک اس وبا سے نبردآزما تھے، تب یہ ملک ویکسین کے جلدی جلدی آرڈر کررہے تھے۔دسمبر2020آتے آتے امریکہ نے اپنی تقریباً پوری آبادی کے لیے ویکسین کا انتظام کرلیا تھا۔ اب وہاں 18سال سے کم عمر کے بچوں کو بھی ٹیکے لگ رہے ہیں۔ ویکسین کا ذخیرہ اتنا زیادہ ہوچکا ہے کہ امریکہ اب ضرورت مند ممالک کو 20کروڑ ڈوز دینے کی بات کررہا ہے۔ یہی کہانی ویکسین کو منظوری دینے والے پہلے ملک برطانیہ کی ہے۔ برطانیہ نے گزشتہ سال دسمبر میں فائزر اور اس کے اگلے ماہ ایسٹراجنیکا اور ماڈرنا ویکسین کو ایمرجنسی میں استعمال کرکے اپنی ٹیکہ کاری مہم کو جو رفتار دی، وہ اب تک برقرار ہے۔ فیکٹلی کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ 40کروڑ خوراکوں کے آرڈر دے چکا ہے جو اس کی ضرورت کا تین گنا ہے۔
اس معاملہ میں دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکہ کاری کرچکے چین کی کہانی بھلے ہی ہم سے مختلف ہو، لیکن اس کے چیلنجز ہمارے جیسے ہی ہیں۔ وہاں بھی ٹیکہ کی غیرمساوی تقسیم کا مسئلہ رہا، جس سے ٹیکہ کاری کا شروعاتی مرحلہ بری طرح متاثر رہا۔ لیکن اب اس نے رفتار پکڑلی ہے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق چین نے اب تک اپنے لوگوں کو 68کروڑ ڈوز لگا دی ہے، جس میں سے آدھی مئی میں ہی لگائی گئی ہے۔ آن لائن ریسرچ سائٹ آور ورلڈ اِن ڈیٹا کا بھی اندازہ ہے کہ عالمی ٹیکہ کاری میں چین کی حصہ داری اب ایک تہائی تک پہنچ گئی ہے۔ چین اب تقریباً ایک کروڑ90لاکھ ٹیکے روز لگا رہا ہے۔ اس کا بڑا کریڈٹ وہاں ون پارٹی سسٹم کے تحت اقتدار سنبھال رہی کمیونسٹ پارٹی کو دیا جارہا ہے، جس کا عملہ وہاں کے گاؤں گاؤں تک پھیلا ہوا ہے۔ بھلے ہی یہ عملہ بے رحمی کی حد تک سختی سے حکومت کے احکامات پر عمل کروانے کے لیے بدنام ہو، لیکن زمینی سطح پر ٹیکہ کاری کو رفتار دینے میں اس کا اہم تعاون رہا ہے۔ حالاں کہ تمام کوششوں کے باوجود بے حد بڑی آبادی کا دباؤ ہندوستان کی طرح چین پر بھی نظر آرہا ہے۔ اس کے باوجود حکومت ہند جہاں سال کے آخر تک اپنی 100فیصد بالغ آبادی کی ٹیکہ کاری کا حوصلہ دکھارہی ہے، وہیں چین نے اسی وقفہ میں 80فیصد آبادی کو ہی ٹیکہ لگانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
چین کی ہی طرح ہمارے گاؤں بھی ہمارے ہدف کی کامیابی کا محور ثابت ہوں گے۔ لیکن لاکھوں گاؤں والے ملک میں ٹیکہ کاری آسان چیلنج نہیں ہوگا۔ زمینی سطح کے انتظامات کے ساتھ ہی اس کا ایک بڑا معاشی پہلو بھی ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ اگر گاؤں گاؤں تک مفت میں ٹیکے پہنچانے کا کوئی مسئلہ ٹیکہ کاری میں آڑے آئے تو حکومت اس پر سبسڈی دینے پر غور کرے، جیسے اجّولا یا پی ایم آواس یوجنا میں ہوا ہے۔ اگر ویکسین کی ہر ڈوز کی قیمت 50روپے بھی طے ہوتی ہے تو منریگا کے دور میں یہ معاشی بوجھ بھی شاید اس بوجھ سے کافی ہلکا ہوگا جو کورونا دور میں دیہاتیوں کو اپنے کنبے کے ممبران کے تحفظ کی فکر کے تعلق سے پریشان کررہا ہے۔ حالات معمول پر آنے اور معیشت کے پٹری پر لوٹنے کے بعد حکومت اس رقم کو دیہاتیوں کو واپس لوٹانے کے امکانات کے دروازے بھی کھول کر رکھ سکتی ہے۔ آخر اس حقیقت کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے کہ گاوؤںمیں ہی ملک کی روح بستی ہے اور اگر روح ہی محفوظ نہیں رہتی ہے تو ملک کیسے محفوظ رہے گا؟

اُپیندررائے

(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS