شامیوں کا ایک خواب ہے!

0

ہرآدمی کی زندگی میں کوئی نہ کوئی بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے، اسے پورا کرنے کا وہ خواب دیکھتا ہے مگر کئی بار حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ لوگوں کا ایک اجتماعی خواب بھی بن جاتا ہے۔ شام کے امن پسند لوگوں کا بھی ایک اجتماعی خواب ہے کہ ان کے ملک میں امن قائم ہو۔ فضا 15 مارچ، 2011 سے پہلے جیسی ہو جائے کہ سانس لیتے ہوئے ٹھنڈی ہوا محسوس ہو، ہوا میں ملا بارود محسوس نہ ہو، بارود سانسوں کے سہارے اندر تک نہ پہنچے، گھٹن نہ پیدا کرے۔ آج کے شام کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے اسے ویران بنانے میں صدیاں لگی ہیں، اسے پوری دنیا نے مل کر ویران بنایا ہے۔ شام کو ویران بنانے میں بھلے ہی 10 برس لگے ہوں مگر یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ اسے ویران بنانے میں دنیا کے کئی ملکوں نے راست یا بالواسطہ رول ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھوں لوگوں کو دیگر ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں کی آبادی اتنی نہیں جتنے شامی مہاجر ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ وہاں 45 لاکھ شامی مہاجر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان کے کھانے پینے، رہنے سہنے کا خرچ اور ان کے بچوں کی تعلیم کے انتظامات کرنے کے لیے ترک صدر رجب طیب اردگان کو جو جتن کرنے پڑتے ہوں گے، اس سے وہی واقف ہوں گے یا ان ملکوں کے لیڈران واقف ہوں گے جہاں بڑی تعداد میں شام کے یا دیگر ملکوں کے مہاجرین نے پناہ لے رکھی ہے۔ ترکی کے بعد سب سے زیادہ شامی مہاجرین نے لبنان میں پناہ لے رکھی ہے۔ وہاں 9 لاکھ سے زیادہ شامی مہاجرین نے پناہ لے رکھی ہے۔ شامی مہاجرین کو پناہ دینے کے معاملے میں اردن تیسرے نمبر پر ہے۔ اس نے 6 لاکھ سے زیادہ شامی مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔ مصر نے بھی ایک لاکھ سے زیادہ شامی مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے اور وہ شامی مہاجرین کو پناہ دینے کے معاملے میں چوتھے نمبر پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ شامیوں کو پناہ دینے کے معاملے میں ٹاپ 3میں کوئی یوروپی ملک کیوں نہیں؟ سب سے زیادہ انسانیت اور انسانی حقوق کی باتیں تو یوروپی لیڈر ہی کرتے ہیں۔ یوروپی ممالک تو انسانیت کے تحفظ کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر جنگ تک کر ڈالتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ شام کی جنگ نے کئی ملکوں کی انسانیت پسندی کی حقیقت آشکارا کر دی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS