شام: سب کا اپنا اپنا مفاد!

0

عالمی سیاست میں انسانیت، انسانی حقوق، امن پسندی اور جمہوری اقدار وغیرہ کی باتیں اکثر باتوں سے زیادہ نظر نہیں آتیں۔ کہی نہیں جاتی مگر عالمی سیاست میں سب سے اہم چیز مفاد ہوتی ہے۔ کسی ملک سے دوستی یا دشمنی، کسی ملک کے حالات سے دلچسپی یا اس ملک کے کسی ایک فریق کی طرف داری میں دوسرے ملک کے مفاد تلاش کرنے پر حقیقت سمجھ میں آ جاتی ہے۔ تیونس میں 17 دسمبر، 2010 کو ایک گریجویٹ نوجوان البو عزیزی کی خود سوزی کی کوشش کے بعد حالات کے مارے ہوئے لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے اور تیونس کے حکمراں زین العابدین بن علی کو اقتدار چھوڑ کر جائے پناہ کی تلاش میں نکلنا پڑا تھا۔ تیونس کے عوامی احتجاج کے اثرات لیبیا، مصر، یمن، شام ، الجزائر، بحرین کے علاوہ بھی دیگر ملکوں پر پڑے تھے مگر تبدیلیاں عوام کی خواہشات کے مطابق نہیں ہوئیں۔ مصر میں حسنی مبارک نے اقتدار کی باگ ڈور چھوڑی، محمد مرسی جمہوری طریقے سے صدر چنے گئے مگر عبدالفتاح السیسی نے انہیں اقتدار سے ہٹا دیا، اس پر خود قابض ہو گئے اور عراقیوں کو جمہوری حقوق دلانے کے نام پر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے امریکہ نے مصر میں جمہوریت کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ لیبیا میں کرنل قذافی کو مار ڈالا گیا، ان کی تدفین گمنام جگہ پر کر دی گئی مگر ان سے بہتر لیڈر چننے میں یوروپی لیڈروں نے کیا مدد کی، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی سے کرنل قذافی کے اچھے تعلقات تھے، ان کے سرکوزی کی مدد کرنے تک کی خبر سامنے آئی تھی مگر سرکوزی کیوں کرنل قذافی کے خلاف ہو گئے، ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں حقیقت سامنے آئے۔ یمن میں علی عبداللہ صالح کو اقتدار کی باگ ڈور چھوڑنی پڑی مگر یمن کے حالات اور خراب ہو گئے۔ یمن دو مقامی طاقتوں کی پراکسی وار کا میدان بن گیا جبکہ شام تو کئی طاقتور ملکوں کی پراکسی وار کا میدان بن گیا ہے۔ وہاں امن بحال کرانے میں امریکہ اور روس نے تو کوئی خاص رول ادا نہیں کیا، سعودی عرب، ایران اور ترکی کا رول بھی قابل تعریف نہیں رہا۔
شام کے حالات خراب ہونے کے بعد سے ہی طاقتور ملکوں کی یہ کوشش رہی کہ موقع کا فائدہ اٹھالیں۔ روس کے ایران سے اچھے تعلقات ہیں، ایران بشارالاسد کا حامی رہا ہے، چنانچہ روس اور ایران دونوں کی یہی کوشش رہی کہ کسی بھی صورت میں بشار ہی اقتدار میں رہیں، ان کے ہاتھ سے اقتدار کی باگ ڈور کوئی چھین نہ پائے، چاہے شام پوری طرح تباہ ہی کیوں نہ ہو جائے، لاکھوں لوگ مار ہی کیوں نہ ڈالے جائیں۔ ایران کے بشار کی حمایت کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ لبنان میں اس کا اثر برقرار رکھنے میں حزب اللہ نے ہمیشہ ہی ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ حزب اللہ کو بشار حکومت کا تعاون ملتا رہا ہے۔ اسرائیل حزب اللہ کے خلاف ہے، اسرائیل کے امریکہ سے مستحکم تعلقات ہیں۔ اسرائیل کے درپردہ سعودی عرب سے بھی تعلقات کی بات کہی جاتی ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کافی اچھے ہیں، چنانچہ امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کی کوشش یہ رہی ہے کہ بشارالاسد کو کسی طرح اقتدار سے ہٹایا جائے۔ ان کی جگہ اقتدار کی باگ ڈور دوسرا لیڈر سنبھالے۔ ان تینوں ملکوں نے بشار الاسد کے خلاف کارروائی کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا اور ان کی کوشش رہی ہے کہ بشار مخالف لوگ مضبوط ہوں۔
ترکی کے شام کی جنگ سے دلچسپی لینے کی بظاہر دو وجہیں نظر آتی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ شامیوں کی بڑی تعداد کو اس نے پناہ دے رکھی ہے۔ شام کے حالات اگر اچھے ہوں گے تو شامی پناہ گزینوں کا بوجھ اس پر سے ختم ہوگا یا دھیرے دھیرے کم ہو جائے گا۔ شام سے ترکی کے دلچسپی لینے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ترکی کرد علیحدگی پسندوں سے پریشان ہے۔ اسے یہ شکایت رہی ہے کہ عراق کے کردستان علاقے کے کرد ترک علیحدگی پسند کردوں کی مدد کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں اسے لگتا ہے کہ حالات بہتر بنانے کے نام پر شام کے کرد اگرہتھیاوں سے لیس کر دیے گئے تو اس کے اثرات ترکی کے علیحدگی پسند کردوں پر پڑیں گے۔ اس سے ترک حکومت کی پریشانیاں بڑھ جائیں گی۔ ترک علیحدگی پسند کردوں کو قابو میں رکھنا آسان نہیں ہوگا ، اس لیے ترک سربراہ رجب طیب اردگان شامیوں کے لیے چاہے ہمدردی کا جتنا بھی اظہار کر لیں لیکن یہ بات مانی نہیں جا سکتی کہ ترکی کی شام سے دلچسپی صرف امن بحال کرانے کے لیے ہے۔
شام میں امن بحالی سے اگر طاقتور ملکوں کی دلچسپی ہوتی تو پھر وہاں امن بحال کیوں نہیں ہوتا مگر یہ بات بھلائی نہیں جانی چاہیے کہ ان ملکوں کے لوگ بہت مضبوط ہو جاتے ہیں جو تشدد کے ماہ و سال دیکھ چکے ہوتے ہیں اور یہ سمجھ چکے ہوتے ہیں کہ انسانیت کی باتیں کرنا ایک بات ہے اور انسانیت کے لیے کچھ کرنا دوسری بات ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS