اپوزیشن اتحاد کا تماشا

0

اوڈیشہ کے وزیر اعلیٰ نوین پٹنائک نے بھارتیہ جنتاپارٹی کے خلاف اپوزیشن اتحادمیں شامل ہونے کے ہر امکان کو مسترد کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ بیجو جنتا دل آئندہ لوک سبھا انتخابات تنہا لڑے گی۔ نوین پٹنائک نے یہ اعلان وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نہ تو کسی اپوزیشن اتحاد میں شامل ہوں گے اور نہ کانگریس یا بی جے پی کے ساتھ جائیں گے بلکہ وہ ان دونوں ہی پارٹیوں سے مساوی فاصلہ برقرار رکھیں گے۔ معمر سیاستداں نے کسی تیسرے محاذ کی تشکیل کے امکان کو خارج قرار دیا۔
نوین پٹنائک کا یہ اعلان قومی سطح پر بی جے پی کے متبادل کے طور پر اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے کی نتیش کمار کی کوششوں کو ایک بڑا جھٹکا ہے کیوں کہ نتیش کمار نے کچھ دن پہلے ہی ان سے بھی ملاقات کی تھی اور سیاسی حلقوں میںیہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ ان دونوں لیڈروں نے بھارتیہ جنتاپارٹی کے خلاف حکمت عملی طے کرنے کیلئے ملاقات کی ہے اور نوین پٹنائک بھی اپوزیشن اتحاد میں شامل ہوں گے۔ لیکن وزیراعظم نریندرمودی سے ملاقات کے بعد نوین پٹنائک نے جو اعلان کیا ہے، اس سے ان تمام قیاس آرائیوںکاخاتمہ ہوگیا۔
اس سے قبل آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ اور وائی ایس آر کانگریس کے سربراہ جگن موہن ریڈی بھی یہی کچھ کہہ چکے ہیں۔ نوین پٹنائک ہوں یا جگن موہن ریڈی ان دونوں سیاسی لیڈروں کے عزائم اپنی اپنی ریاست تک محدود ہیںاور دونوںکا ہی یہ دعویٰ ہے کہ وہ کانگریس اور بھارتیہ جنتاپارٹی سے مساوی فاصلہ رکھیں گے۔ پٹنائک ملک کی کسی بھی ریاست کے سب سے طویل عرصے تک رہنے والے وزرائے اعلیٰ میں سے ایک اور بی جے پی کے سابق اتحادی ہیں۔ 2008 میں این ڈی اے سے باہر ہونے کے بعد سے انہوں نے کانگریس اور بی جے پی سے مساوی دوری برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم،پارلیمنٹ میں کئی اہم بلوں کو منظور کرانے میں انہوں نے بی جے پی حکومت کی حمایت بھی کی ہے۔اسی طرح وائی ایس آر کانگریس بھی جگن موہن ریڈی کی کانگریس برگشتگی کا نتیجہ ہے۔ اترپردیش کی سابق وزیراعلیٰ اور بہوجن سماج پارٹی کی سپریمو مایاوتی نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد سے ہی کانگریس اور اپنی ریاست میں اپوزیشن سماج وادی پارٹی سے دوری برقرار رکھی ہے۔ ان کا بھی کسی اپوزیشن اتحاد میں شامل ہونے کا امکان نظر نہیںآرہاہے۔ ادھر کبھی این ڈی اے کی سرگرم ساتھی رہ چکی ممتابنرجی کبھی تنہا انتخاب لڑنے کا اعلان کردیتی ہیں تو کبھی اپوزیشن کو ساتھ مل کر چلنے کی بات کرتی ہیں، یہی صورتحال نتیش کمار کے ساتھ بھی ہے، کل تک بھارتیہ جنتاپارٹی کے خیمہ کی طنابیں تھامنے والے نتیش کمار آج اس کے خلاف پیش پیش ہیں۔
لوک سبھا انتخابات میں صرف ایک سال باقی رہ گیا ہے لیکن اپوزیشن کی صف بندی اب تک مکمل نہیں ہوپائی ہے۔ 2019کے لوک سبھا انتخابات کے وقت بھی یہی صورتحال تھی۔ یعنی اپوزیشن اتحاد کی یہ مشق کم و بیش 5سال سے جاری ہے لیکن اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا ہے۔ فی الحال نتیش کمار، ممتابنرجی، اروند کجریوال اور اکھلیش یادو ہی اپوزیشن اتحاد کی کوششوں میںلگے نظرآتے ہیں لیکن ان لیڈروں میں سے زیادہ تر کو کانگریس سے تحفظات ہیںیا وہ اس خوف کے شکار ہیں کہ اگر کانگریس کی قیادت میں کوئی اتحاد بھارتیہ جنتاپارٹی کا متبادل بن کر ابھرتاہے اوراسے کامیابی ملتی ہے تو شاہ اور شاہ ساز بننے کے ان کے پوشیدہ عزائم پر پانی پھر جائے گا۔ لیکن ہندوستان کاسیاسی منظر نامہ آج بھی یہ بتارہاہے کہ کانگریس کو الگ کرکے کوئی بھی اپوزیشن اتحاد بھارتیہ جنتاپارٹی کے سامنے ٹھہرنے والا نہیں ہے۔ کانگریس اپنی موجودہ حیثیت میں بھی راجستھان، چھتیس گڑھ، ہریانہ، پنجاب، کیرالہ، مدھیہ پردیش، کرناٹک، مہاراشٹرا ور دوسری ریاستوںمیں مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے۔ ایسی صورتحال میں بھارتیہ جنتاپارٹی کے خلاف قومی سطح پر کانگریس کے بغیر کسی اتحاد کا تصور ہی بے معنی ہے۔ کانگریس سے فاصلہ کی بات کرنے والی سیاسی جماعتیں بھی اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن ان کے عزائم ان کے پائوں کی زنجیر بنے ہوئے ہیں۔اگر کانگریس کے بغیر کوئی اتحاد بن بھی گیا تو وہ ووٹروں کو بھارتیہ جنتاپارٹی کا متبادل دینے کے بجائے ایجنسیوں سے خوف زدہ ممتا، کجریوال،کے سی آر وغیرہ کے وقتی مفاد کاترجمان ہوگا۔
اب اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں بچی ہے کہ اگر اس بار نریندرمودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتاپارٹی نے جیت کی تاریخ دوہرائی تو اس کی اولین ترجیح ہندوستان کو ہندوراشٹر بناناہوگا۔ اگر یہ ہوگیا تو ہندوستان ایک سیکولر لبرل جمہوری نظام سے ایک بالادست آمریت میں بدل جائے گااوراس کے بعد نہ تو یہاں جمہوریت رہے گی اور نہ انتخابات کے موسم ہی انگڑائی لیں گے۔ ریاستوں میں حکمرانی بھی قصہ پارینہ بن جائے گی۔ کانگریس سے گریزکرنے والی علاقائی پارٹیوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کے بعد چراغوں میں روشنی ہی نہیں رہے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS