جس دیش کے ہر چوراہے پر دو چار بھکاری پھرتے ہوں

0

محمد حنیف خان

ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے، جو آئندہ ماہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک چین کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جائے گا۔یہ ملک زمانہ قدیم سے حد درجہ اہمیت کا حامل رہا ہے،آریہ، مسلم حکمراں، پرتگالی اور انگریز سب کی آمد کی وجہ یہ تھی کہ ملک سرسبز و شاداب تھا، اشیاء خورد و نوش کی یہاں بہتات تھی۔اس کی گود میں کھیلنے والی ہزاروں ندیوں نے سیرابی اور سرسبز وشادابی کا مکمل انتظام کر رکھا تھا اور میدانی علاقوں میں ہونے والی پیداوار بھوک مٹانے کے لیے کافی تھی۔
ایسا نہیں ہے کہ آج ملک قلاش ہوگیا ہے، آج بھی ہندوستان میں دوسری اقوام و ملل کے لیے دلچسپی کا بہت سامان ہے، دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہاں اپنے اسٹور اور صنعتی یونٹ قائم کر رہی ہیں، ایپل جیسی بڑی کمپنی نے یہاں اپنی صنعتی یونٹ قائم کردی ہے۔دنیا کا کوئی بھی ملک ہندوستان کی صنعتی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا ہے، جس کی وجہ یہاں کا بڑا بازار ہے۔ہندوستان دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے، دنیا کے بڑے امیروں میں ہندوستان کے کئی صنعت کار شامل ہیںجس سے آج بھی ملک کی صنعتی اہمیت کی سطح کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔
ان سبھی حقائق کے باوجود غربت و افلاس، تنگ دستی و قلاشی، بے روزگاری اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے دوری و مہجوری بھی اسی ملک کا مقدر ہے، یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ ہندوستان میں آبادی کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جس کے پاس آج بھی مکان نہیں ہے، وہ کھلے آسمان کے نیچے ٹھٹھرتے ہوئے سرد راتیں گزارنے پر مجبور ہے، آگ برساتا ہوا مئی جون کا سورج انہیں اور ان کے معصوم بچوں کو تڑپاتاہے، وہ سایہ اور ٹھنڈے پانی کے لیے پریشان ہوتے ہیں۔جنوبی دہلی کے مہرولی اور بدر پور روڈ پر تغلق آباد قلعہ کی حدود کے اندر اور باہر بنی کالونیوں کو ابھی چند دنوں قبل منہدم کیا گیا، یہ وہ افراد تھے جن کے پاس رہنے کے لیے نہ پہلے کوئی جگہ تھی اور نہ ہی اب کوئی جگہ ہے۔
یہ صرف دہلی کا معاملہ نہیں ہے، ہندوستان کا کوئی ایسا شہر یا قصبہ نہیں ہے جہاں اس طرح کی بستیاں نہ ہوں جو غیر قانونی طور پر قائم کی گئیں۔یہ بستیاں اس لیے وجود میں آتی ہیں کہ لوگوں کے پاس رہنے کے لیے جگہ نہیں، وہ سڑکوں کے کنارے ترپال تان کر رہتے ہیں، اسی میں ان کے بچوں کی پیدائش ہوتی ہے اور یہیں ان کے یہاں شادی بیاہ ہوتے ہیں، ان کی غربت کا عالم یہ ہوتاہے کہ جب ایسی بستیاں اجاڑی جاتی ہیں یا پھر سڑکوں کے کنارے سے انہیں ہٹایا جاتاہے تو وہ کسی غیر آباد جگہ کی تلاش میں مصروف ہوجاتے ہیں جہاں کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہ ہو، اب یہ لوگ اوور برج کے نیچے رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
حکومت دعوے تو کرتی ہے کہ اس نے لاکھوں لوگوں کو مکان دیے مگر ان لوگوں کو مکان کب ملے گا، یہ بھی ہندوستانی ہی ہیں، یہ بھی ہماری آبادی کا حصہ ہیں، حکومتوں کی ترجیحات میں یہ کب شامل ہوں گے۔اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ہاں جب الیکشن ہوتا ہے تو ہر پارٹی کے امیدوار ان بستیوں کا دورہ کرتے ہیں اور یقین دہانی کراتے ہیں کہ وہ ان کی بستی کو قانونی درجہ دلائیں گے، ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کریں گے مگر ان کی باتیں صرف ان کی بستیوں میں ہی ہوتی ہیں۔
ان بستیوں میں رہنے والے افراد کا معاملہ صرف ان کے سروں پر چھت کا ہونا نہیں ہے، اس کے ساتھ اور بھی بہت سے مسائل ہیں جنہیں یہ بستیاں جنم دیتی ہیں۔مثلاً شہر میں گداگری کو ان بستیوں سے ہی فروغ ملتاہے، یہاں پیدا ہونے والے بچے چلنے کے ساتھ ہی ہاتھ پھیلانا بھی سیکھ لیتے ہیں، گداگری کی یہاں قدیم روایت رہی ہے۔ اترپردیش میں توباضابطہ مانگنے والی ذاتیں بھی ہیں۔
پندرہ بیس برس قبل دیہی علاقوں میں یومیہ لوگ صبح صبح گھر گھر مانگنے آتے تھے، چھوٹے چھوٹے بچے ناچ گا کر مانگتے تھے، یہ برادریاں اب بھی موجود ہیں مگر انہوں نے اس پیشے کو اب شاید آبائی طور پر نہیں برقرار رکھا ہے، بلکہ اپنے آبا ؤ اجداد کی راہ پر چلنے کے بجائے وہ محنت و مزدوری کو ترجیح دینے لگے ہیں، اسی لیے اب شاذ و نادر ہی اس قماش کا کوئی فقیر نظر آتاہے۔
ایسا نہیں ہے کہ مانگنے کی روایت ختم ہوگئی ہے، وہ روایت اب مزید مضبوط ہوگئی ہے مگر اس کے اسباب الگ ہیں اور اس کے طریقے جدا ہیں۔دہلی کے تغلق آباد میں واقع ان بستیوں کی طرح ہر شہر کی بستیاں جہاں ایک طرف گداگروں کی فوج پیدا کر رہی ہے، وہیں یہ ایسے مجرمین کو بھی جنم دے رہی ہے جو عوام کے لیے مصیبت ہیں۔
شہر کا کوئی ٹریفک سگنل اور چوراہا ایسا نہیں ملتاہے جہاں دوچار بھکاری ہمہ وقت کھڑے نہ رہتے ہوں، اس میں مرد و خواتین اور بوڑھے و بچے سب شامل ہیں، ان میں بعض شیشے کی صفائی کرکے پیسے مانگتے ہیں اور بعض غبارے وغیرہ فروخت کرتے ہوئے بھیک مانگتے ہیں۔مساجد و مندر کے باہر تو عام بات ہے، خواہ دہلی کی درگاہ نظام الدین ہو یا پھر لکھنؤ میں شاہ مینا، متھرا کے مندر ہوں یا پھر بنارس کے گھاٹ ہر جگہ بھکاریوں کا اژدھام نظر آئے گا۔حالانکہ قانونی اعتبار سے گداگری جرم ہے۔مرکزی سطح پر کوئی ایسا قانون نہیں ہے، البتہ مہاراشٹر میں بامبے پریونشن آف بیگنگ ایکٹ 1959 قانون ہے اور اسی طرز پر دیگر 22 ریاستوں میں اپنے قوانین ہیں جو اس پیشہ کو قابل تعزیر قرار دیتے ہیں۔
بسا اوقات ایسا بھی ہوتاہے کہ میونسپل کارپوریشن یاضلع انتظامیہ ان گداگروں اور فقیروں کے خلاف مہم بھی چلاتی ہے اور ان کو شہر بدر بھی کرتی ہے، مگر ان کے خلاف کارروائی یا ان کو ایک جگہ سے بھگا دینا اس مسئلے کا حل تو نہیں ہے۔ جب تک کوئی پائیدار حل نہیں تلاش کیا جائے گا، اس سماجی لعنت سے ملک کو نجات نہیں مل سکتی ہے۔
2011میں ہوئی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں3لاکھ70ہزار گداگر تھے، جن میں شمالی ہند میں ان کی کثرت پائی گئی تھی مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مذکوروہ اعداد و شمار بعید از حقیقت ہیں۔اس تعداد سے زیادہ فقیروں کی تعداد تو صرف ایک شہر دہلی میں مل جائے گی۔
حکومت کو اب تسلیم کرنا چاہیے کہ اگر آبادی کے لحاظ سے ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا ملک ہو رہاہے تو اس کی کچھ الگ اپنی ذمہ داریاں بھی ہیں جنہیں اسے ادا کرنا ہی ہوگا ورنہ ایک دن وہ بھی آئے گا جب ہندوستان کے عوام کی اکثریت کے ہاتھ کسی نہ کسی صورت میں کٹورا ہوگا۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ گداگری نے ایک صنعت کی شکل اختیار کرلی ہے، اس کے پیچھے بڑے بڑے جرائم پیشہ افراد ہوتے ہیں جو مندر و درگاہوں کے ساتھ ہی اب ٹریفک سگنل تک پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں اور اس کو اپنی ملکیت تصور کرتے ہوئے وہ یہ پیشہ کراکر اس کا ایک معتد بہ حصہ اپنی جیب میں رکھتے ہیں،اس موضوع پر متعدد فلمیں بھی بن چکی ہیں، اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں ناول اور افسانے بھی لکھے جا چکے ہیں، جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ گداگری اور فقیری کے طریقہ کار سے اب عوام بھی واقف ہوچکے ہیں، ایسے میں حکومت نابلد ہوگی یہ ناقابل تصور ہے۔یہاں دو باتیں قابل لحاظ ہیں، اول حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کرے اور دوم جو افراد اس رذیل پیشے میں ملوث ہیں ان کے لیے معاشرے میں بہتر مواقع پیدا کرے۔
جمہوری حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کی سطح زندگی بلند کرے، ان کے لیے روزگار کے بہتر مواقع پیدا کرکے انہیں خود کفیل بنائے۔جس کے اظہار کا سب سے بہترین وقت الیکشن ہوتاہے، 2014 کے الیکشن کے بعد سے مرکزی حکومت روزگار کا وعدہ کرنا ہی بھول چکی ہے، ابھی کرناٹک میں الیکشن ہوئے جس میں ہر طرح کی باتیں ہوئیں، وعدے ہوئے، ریزرویشن سے لے کر مذہب تک کو موضوع بنایا گیا مگر وہ بنیادی ضروریات(علاج، تعلیم اورروزگار وغیرہ) جن کے فقدان میں خلقت کثیر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے، اس پر کسی نے بات نہیں کی، اب روزگار کوئی موضوع ہی نہیں رہا، اب سے بڑا موضوع مذہب، وطن پرستی، ریزرویشن(ذات و برداری) اور بدعنوانی ہے۔وہ لوگ گزشتہ دس برس سے بدعنوانی دور کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں جن کی جان پی ایم کیئر فنڈ پر لب کشائی کرنے میں نکلتی ہے۔ ہنڈن برگ جیسی رپورٹ پر وزیر اعظم خاموش رہتے ہیں۔
مہنگائی اور بے روزگاری دو ایسے اسباب ہیں جو عوام کو گداگروں کی قطار میں پہنچا سکتے ہیں، اس لیے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں ایک طرف گداگروں کو مرکز میں رکھ کر اسکمیں بنائی جائیں تو دوسری جانب عوام کی سطح زندگی کو مزید نیچے آنے سے بچانے کے لیے مہنگائی پر قابو پاکر انہیں روزگار مہیا کرائے جائیں۔جس میں مرکزیت ہنرمندی کو دی جانی چاہیے، حکومت کو چینی سفارت کار کا وہ جملہ حرز جاں بنا لینا چاہیے جس میں اس نے کہا تھا کہ ایسی آبادی سے کیا فائدہ جو غیر ہنرمند ہو، اس نے در اصل اس خبر پر طنز کیا تھا جب اقوام متحدہ نے اعلان کیا تھا کہ ہندوستان آبادی کے لحاظ سے جون میں دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔یہ سچ ہے کہ ایسی بڑی آبادی اور پانچ ٹریلین کی ایسی بڑی معیشت کا کیا فائدہ جہاں ہر چوراہے پر دو چار بھکاری پھرتے ہوں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS