مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی کیوں؟

0

عقیدت اللہ قاسمی
اہل علم وفکر علوم جدیدہ کے اس نظام تعلیم کو کمیونزم ، سوشلزم ، سیکولزم ، مادیت، دہریت، یہودیت، نصرانیت ، ہندتو، کیٹلزم سرمایہ داری واشتراکیت جدیدیت اور کفر وشرک کے علمبرداروں کا بنا یاہوا ہے اور انہی کی تالیف وتصنیف کردہ کتابوں اور نصاب کے ذریعہ مسلمانوں کی تعلیم وتربیت اور پرورش کی جارہی ہے۔ اسلامی عقائد اور نصب العین کے لیے شروع ہی سے سم قاتل قرار دیتے آرہے ہیں۔ جہاں ایک طرف سرسید کی پیدائش سے بھی بہت پہلے امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے خلف الرشدشاہ عبدالعزیز سے جو خود سرسید کے الفاظ ہیں۔ اس زمانہ میں تمام ہندوستان میں نہایت نامی مولوی انگریزی کالجوں میں جا کر محض انگریزی زبان پڑھنے کے بارے میں فتویٰ پوچھا گیا تو جیسا کہ حود سرسید نے اسباب بغاوت ہند میں لکھا ہے!
’’ انہوںنے صاف جواب دیا کہ کالج جانا اور انگریزی زبان سیکھنا بموجب مذہب کے سب درست ہے۔ ان کا کہنا تھا۔ ’’ جائو انگریزی کالجوں میں پڑھو اور انگریزی زبان سیکھو، شرعا ہر طرح جائز ہے (اسباب بغاوت ہندص 20مطبوعہ مطبع مفید عام آگرہ)
مگر دیکھا گیا ہے کہ خود سرسید احمد خاں کے مطابق تمام لوگ جاہل او قابل اور اعلیٰ وادنی یقین جانتے تھے کہ ہماری گورنمنٹ کا دلی ارادہ اور اپنے ملک کی رسم ورواج پر لاڈالے۔ اور سب سے بڑا سبب اس سرکشی کا یہی ہے کہ ہر شخص دل سے جانتا تھا کہ ہماری گورنمنٹ کے احکام بہت آہستہ آہستہ ظہور میں آتے ہیں اور جو کام کرنا ہوتا ہے رفتہ رفتہ کیا کرتے ہیں۔ اس واسطے دفعۃ اور جبراً … دین بدلنے کو نہیں کہتے مگر جتنا جتنا قابو پاتے جائیں گے ۔ اتنی اتنی مداخلت کرتے جائیں گے اور جو باتیں رفتہ رفتہ ظہور میں آتی گئیں اس شہہ کو زیادہ تر مستحکم کرتی گئیں۔ سب کو یقین تھا کہ ہماری حکومت علانیہ جبراً مذہب بدلنے پر نہیں کرے گی۔ بلکہ خفیہ تدبیریں کر کے مثل نابود کردینے علم عربی وسنسکرت کے اور مفلس ومحتاج کردینے کے اور لوگوں کو جو ان کا مذہب ہے اس کے مسائل سے ناواقف کرا کر اور اپنے دین مذہب کی کتابیں اور رسائل اور وعظ کو پھیلا کر نوکریوں کا لالچ دے کر لوگوں کو بے دین کردیں گے ۔ 1837کی قحط سالی میں جو یتیم لڑکے عیسائی کیے گئے وہ تمام اضلاع ممالک مغربی وشمالی ہیں ادارہ گورنمنٹ کے ایک نمونہ گنے جاتے تھے کہ ہندوستان کو اس طرح پر مفلس اور محتاج کرکے اپنے مذہب میں لے آئیں گے۔
میں سچ کہتا ہوں کہ جب سرکار آنریبل ایسٹ انڈیا کمپنی کوئی ملک فتح کرتی تھی ، ہندوستان کی رعایا کی کمال رنج ہوتا تھا اور یہ بھی میں سچ کہتا ہوں کہ نشا اور اس رنج کا او رکچھ نہیں ہوتا تھا کہ لوگ جانتے تھے کہ جوں جوں اختیار ہماری گورنمنٹ کا زیادہ ہوتا جائے گا اور کسی دشمن اور ہمسایہ حاکم کے مقابلے اور فساد کا اندیشہ نہ رہے گا۔ ووں ووں ہمارے مذہب اور رسم ورواج میں زیادہ تر مداخلت کریں گے۔ ہماری گورنمنٹ کی ابتدائی حکومت ہندوستان (ابتدائی دور حکومت)میں گفتگو مذہب کی بہت کم تھی۔ روز بروز زیادہ ہوتی گئی اور اس زمانہ میں بدرجۂ کمال کو پہنچ گئی۔ ہر شخص دیکھتا تھا کہ یہ سب معاملے بموجب حکم اور بموجب اشارہ اور مرضی گورنمنٹ ہوتے ہیں ۔ سب جانتے تھے کہ گورنمنٹ نے پاددری صاحبوں کو ہندوستان میں مقرر کیا ہے ۔ گورنمنٹ سے پادری صاحب تنخواہ پاتے ہیں۔ گورنمنٹ اور حکام انگریزی ولایت زا جو اس ملک میں نوکرہیں وہ پادری صاحبوں کو بہت سا روپیہ واسطے خرچ کے اور کتابیں بانٹنے کو دیتے ہیں اور ہر طرح ان کے مددگار اور معاون ہیں اکثر حکام متعہد اور افسران فوج نے اپنے تابعین سے مذہب کی گفتگو شروع کی تھی۔ بعضے صاحب اپنے ملازموں کو حکم دیتے تھے کہ ہماری کوٹھی پر آن کر پادری صاحب کا وعظ سنو اور ایسا ہی ہوتا تھا۔ غرض کہ اس بات نے ایسی ترقی پکڑی تھی کہ کوئی شخص نہیں جانتا تھا کہ گورنمنٹ کی عمل داری میں ہمارا یا ہماری اولاد کا مذہب قائم رہے گا۔ پادری صاحبوں کے وعظ نے نئی صورت نکالی تھی ’ ’ تکرار‘ ‘ مذہب کی کتابیں بطور سوال جواب چھپنی اور تقسیم ہونی شروع ہوئیں۔ ان کتابوں میں دوسرے مذہب کے مقدس لوگوں کی نسبت الفاظ اور مضامین رنج زدہ مندرج ہوئے۔ ہندوستان میں دستور وعظ اور کتھا کایہ ہے کہ اپنے اپنے معبد یا دکان پر بیٹھ کر کہتے ہیں جس کا دل چاہے اور جس کی رغبت ہو وہاں جا کر سنے۔ پادری صاحبوں کا طریقہ اس کے خلاف تھا ۔ وہ خود غیر مذہب کے مجمع اور تیرتھ گاہ میلہ میں جا کر وعظ کہتے تھے اور کوئی شخص صرف حکام کے ڈرسے مانع نہ ہوتا تھا ۔ بعض ضلعوں میں رواج نکلا کہ پادری صاحبوں کے ساتھ تھانے کا ایک چپراسی جائے گا ۔ پادری صاحب وعظ میں انجیل مقدس ہی کے بیان پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ بلکہ عیر مذہب کے مقدس لوگوں کو اور مقدس مقاموں کو بہت برائی سے او رہتک سے یاد کرتے تھے جس سے سننے والوں کو نہایت رنج اور دلی تکلیف پہنچتی تھی اور ہماری گورنمنٹ سے ناراضی کا بیج لوگوں کے دلوں میں بویا جاتا تھا۔ مشنری اسکول بہت جاری ہوئے اور ان میں مذہبی تعلیم شروع ہوئی۔ سب لوگ کہتے تھے کہ یہ سرکار کی طرف سے ہیں۔ بعض اضلاع میں بہت بڑے بڑے عالی قدر حکام متعہد ان اسکولوں میں جاتے تھے اور لوگوں کو ان میں داخل اور شامل ہونے کی ترغیب دیتے تھے۔ امتحان مذہبی کتابوں میں لیا جا تا تھا اور طالب علموں سے جو لڑکے کم عمر ہوتے تھے پوچھا جاتاتھا کہ تمہارا خدا کون ہے؟ تمہارا نجات دینے والا کون ہے؟ اور وہ عیسائی مذہب کے مطابق جواب دیتے تھے۔ اس پر ان کو انعام ملتا تھا۔ ان سب باتوں سے رعایا کا دل ہماری گورنمنٹ سے پھرتا جاتاتھا۔

خودسرسید نے ایک سوال کھڑا کیا ہے کہ اگرلوگ اس تعلیم سے ناراض تھے تواپنے لڑکوں کو کیوں داخل کرتے تھے اور پھر خود اپنی طرف سے جواب دیا ہے۔
’’اس بات کوعدم ناراضی پر خیال کرنا نہیں چاہئے بلکہ یہ ایک بڑی دلیل ہے، ہندوستان کے کمال خراب حال اور مفلس اورنہایت تنگ اور تباہ حال ہوجانے پر۔ یہ صرف ہندوستان کی محتاجی اور مفلسی کا باعث تھا کہ اس خیال سے کہ ان اسکولوں میںد اخل ہوکر ہماری اولاد کو کچھ وجہ معیشت اور روزگارحاصل ہوگا۔ ایسی سخت بات جس سے بلاشبہ ان کو دلی اور روحانی غم تھا، گوارا کرتے تھے نہ کہ رضامندی سے۔‘‘
’’دیہاتی مکتبوں کے مقرر ہونے سے سب لوگ یقین سمجھتے تھے کہ صرف عیسائی بنانے کویہ مکتب جاری ہوئے ہیں۔ پرگنہ وزیٹر اور ڈپٹی انسپکٹر جوہرگائوں اور ہر قصبہ میں لوگوں کونصیحت کرتے پھرتے تھے کہ لڑکوںکو مکتبوں میں داخل کرو، ہر گائوں میں کالاپادری ان کا نام تھا جس گائوںمیں پرگنہ وزیٹر یا ڈپٹی انسپکٹر پہنچا اور لوگوں نے آپس میں یہ چرچا کیا کہ کالاپادری آیا اور عوام یوں خیال کرتے تھے کہ یہ عیسائی مکتب ہیں اور عیسائی بنانے کو بٹھاتے ہیں اور فہمیدہ آدمی اگرچہ یہ نہیں سمجھتے تھے مگریوں جانتے تھے کہ صرف اردو کی تعلیم ہوتی ہے۔ ہمارے لڑکے اس میں پڑھ کر اپنے مذہب کے احکام اور مسائل اور اعتقادات اور رسمیات سے بالکل ناواقف ہوجائیںگے اور عیسائی بن جائیںگے اور یوں سمجھتے تھے کہ گورنمنٹ کا یہی ارادہ ہے کہ ہندوستان کے مذہبی علوم کو معدوم کردے تاکہ آگے چل کر عیسائی مذہب پھیل جائے۔ اکثر اضلاع مشرقی ہندوستان میں ان مکتبوں کا جاری ہونا اور لڑکوںکا داخل ہونا صاف تحکمانہ ہوا اور کہہ دیا کہ گورنمنٹ کا حکم ہے کہ لڑکوں کو داخل کیا جائے۔(حوالہ رسالہ اسباب بغاوت ہند، ضمیمہ نمبر4،حیات جاوید، صفحہ 819 و 820)
سرسید نے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے لڑکیوں کے اسکولوں کے اجرا کے بارے میں لکھا:
’’لڑکیوںکی تعلیم کا بہت چرچا ہندوستان میں تھا اور سب یقین جانتے تھے کہ سرکار کا مطلب یہ ہے کہ لڑکیاں اسکولوں میں آئیں اور تعلیم پائیں اور بے پردہ ہوجائیں کہ یہ بات حد سے زیادہ ہندوستانیوں کو ناگوار تھی۔ بعض بعض اضلاع میں اس کا نمونہ قائم ہوگیا تھا۔ پرگنہ وزیٹر اور ڈپٹی انسپکٹر سمجھتے تھے کہ ہم سعی کرکے لڑکیوںکے مکتب قائم کردیںگے تو ہماری بڑی نیک نامی گورنمنٹ میں ہوگی۔ اس سبب سے وہ ہر طرح پر بہ طریق جائز وناجائز لوگوں کو واسطے قائم کرنے لڑکیوں کے مکتبوں کی فہمائش کرتے تھے اوراس سبب سے زیادہ لوگوں کے دلوں کوناراض اور اپنے خیالات کا ان کویقین ہوتا جاتا تھا۔‘‘
سرسید کے مطابق ’’ادھر دیہاتی مکاتب اور کالجوںکا یہ حال تھا کہ ان پر سب کو شبہ رواج دینے مذہب عیسائی کا ہورہا تھا کہ دفعۃ پیش گاہ گورنمنٹ سے اشتہار جاری ہوا کہ جوشخص مدرسے کا تعلیم یافتہ ہوگا اور فلاں فلاں علوم اور زبان انگریزی میں امتحان دے کر سند یافتہ ہوگا وہ نوکری میں سب سے مقدم سمجھا جائے گا۔ چھوٹی چھوٹی نوکریاں بھی ڈپٹی انسپکٹروں کے سرٹیفکیٹ پر جن کو ابھی تک سب لوگ کالاپادری سمجھتے تھے منحصر ہوگئیں اور ان خیالات کے سبب لوگوں کے دلوں پر غم کا بوجھ پڑ گیا اور سب کے دل میںہماری گورنمنٹ سے ناراضگی پیدا ہوگئی اور لوگ یہ سمجھے کہ ہندوستان کو ہر طرح بے معاش اور محتاج کیا جاتا ہے تاکہ مجبورہوکر رفتہ رفتہ ان لوگوںکی مذہبی باتوںمیں تغیر وتبدل ہوجائے۔‘‘
اس زمانہ میں بعض اضلاع میں تجویز ہوئی کہ قیدی، جیل خانوں میں ایک شخص کے ہاتھ کا پکا ہوا کھائیں جس سے ہندوئوں کا مذہب بالکل جاتا رہتا تھا۔ مسلمانوں کے مذہب میں اگرچہ کچھ نقصان نہیں آتا تھا مگر اس کا رنج سب کے دل پر تھا کہ سرکار ہر ایک کا مذہب لینے پر آمادہ اور ہر طرح اس کی تدبیر میں ہے۔
یہ سب خرابیاں لوگوںکے دلوں میں ہورہی تھیں کہ 1855 میں پادری ایڈمنڈ نے دارالامارت کلکتہ سے عموماً اور خصوصاً سرکاری معزز لوگوں کے پاس چٹھیات (چٹھیاں) بھیجیں جن کا مطلب یہ تھا کہ اب تمام ہندوستان میں ایک عملداری ہوگئی۔ تار برقی سے سب جگہ کی خبرایک ہوگئی۔ ریلوے ، سڑک سے سب جگہ کی آمدورفت ایک ہوگئی۔ مذہب بھی ایک ہی چاہئے۔ اس لئے مناسب ہے کہ تم لوگ بھی عیسائی ایک مذہب ہوجائو۔ میں سچ کہتا ہوں کہ ان چٹھیات کے آنے کے بعد خوف کے مارے سب کی آنکھوں میں اندھیرا آگیا، پائوں تلے کی مٹی نکل گئی، سب کو یقین ہوگیا کہ ہندوستانی جس وقت کے منتظر تھے وہ وقت اب آگیا۔ اب جتنے سرکاری نوکر ہیں اول ان کو کرسٹان ہونا پڑے گا اورپھر رعیت کو۔ سب لوب بے شک (بغیر کسی شک و شبہ کے) سمجھتے تھے کہ چٹھیاں گورنمنٹ کے حکم سے آئی ہیں۔ آپس میں ہندوستانی لوگ اہل کاران سرکاری سے پوچھتے تھے کہ تمہارے پاس بھی چھٹی آئی؟ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ تم بھی بسبب لالچ نوکری کے کرسٹان ہوگئے؟ ان چٹھیوںنے یہاں تک ہندوستانی اہلکاروں کوالزام لگایا کہ جن کے پاس چٹھیاں آئی تھیں وہ مارے شرمندگی کے چھپاتے تھے اور انکارکرتے تھے کہ ہمارے پاس تو نہیں آئی اور لوگ جواب میں کہتے تھے کہ اب آجائے گی۔ کیا تم سرکار کے نوکر نہیں ہو؟ اگر سچ پوچھو تو یہ چٹھیاں تمام ہندوستانیوں کے شبہات کو پکا اور مستحکم کرنے والی تھیں۔ چنانچہ انہوںنے کردیااوراس کے مٹانے کوکوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔
سرسید نے لکھا ہے کہ کچھ عجب نہ تھا کہ اس زمانے میں کچھ برہمی اور تھوڑا بہت فساد ملک میں شروع ہوجاتا۔ چنانچہ اس وقت کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جناب معلی القاب نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر بنگال نے بہت جلد خبرلی اور ایک اشتہار جاری کیا جس سے فی الجملہ لوگوں کے دلوں میں تسلی ہوئی اور وہ اضطرار جو ہوگیا تھا وہ دھیما ہوا۔ مگر جیسا کہ چاہئے ویسا قلع قمع اس کا نہ ہوا۔ لوگ سمجھے کہ بالفعل یہ بات موقوف ہوگئی پھر کبھی قابو پانے کے وقت پر جاری ہوگی۔(حوالہ مندرجہ بالاص 822)
(رسالہ اسباب بغاوت ہند۔ ضمیمہ نمبر 4حیات جاوید1917مطبوعہ ترقی اردو بیورو، نئی دہلی تیسرا ایڈیشن 1990)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS