آسام حکومت کی فتنہ انگیزی

0

اقتدار اور دانائی دو الگ الگ چیزیں ہیں لیکن فی زمانہ جو صاحب اقتدار ہے وہ خود کودانائے روزگار ہی نہیں ارسطو و افلاطون کا ہم پلہ بھی سمجھنے لگتا ہے۔اپنے ذہن میں آنے والی ہرسوچ کو تاریخ کا دھارا موڑدینے والاخیال و فکرسمجھ کر اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے بے تاب ہوجاتا ہے۔ آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما بھی ایسے ہی لوگوں میں ہیں۔ وزارت اعلیٰ کامنصب جلیلہ سنبھالتے ہی ان کی فکر رساگل کھلانے کو بے تاب ہوگئی ہے اور نت نئے اقدامات اٹھانے لگے ہیں۔اب اچانک ان پر یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ اگر مسلمان خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کریں تو غربت اور پسماندگی دور ہوسکتی ہے۔ اپنے اقتدار کے30دن مکمل ہونے پر انہوں نے کہا کہ مسلمانوںکا تعلیم یافتہ طبقہ آگے آئے اور آبادی کم کرنے میں حکومت کی مدد کرے۔ ان کا خیال ہے کہ غربت میں اضافہ کی اہم وجہ مسلمانو ں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ان کی دانست میں مسلمانوں کی آبادی کم کرکے زمین پر گنجائش سے زیادہ بوجھ بھی کم کیا جاسکتا ہے اور اس کیلئے وہ آسام میں دوسری ریاستوں سے آکر بسنے والوں کی نشاندہی بھی کررہے ہیں اور ان کا اصل نشانہ بھی یہی طبقہ ہے۔آسام کے وزیراعلیٰ کاکہنا ہے کہ بڑھتی آبادی کے ساتھ قیام کے مسائل بھی سراٹھاتے ہیں جن کی کوکھ سے فساد پیدا ہوتا ہے۔سرکاری اراضی پر قبضہ اور اس جیسے دوسرے غیر قانونی کاموں کا سبب بھی بڑھتی ہوئی آبادی ہی ہے۔ ریاست کے تین اضلاع میں سرکاری اور جنگلاتی اراضی کو مسلمانوں کے مبینہ تجاوزات سے پاک کرنے کا ذکر کرتے ہوئے موصوف کا کہنا ہے کہ حکومت کسی بھی حال میں سرکاری اراضی پر تجاوزات کی اجازت نہیں دے سکتی ہے۔ ان کی حکومت قبضہ ختم کروائے گی اس لیے لوگوں کو حکومت پر تنقید کرنے کے بجائے چھوٹے کنبہ کی عادت ڈال لینی چاہیے۔
وزیراعلیٰ کی یہ اپیل ایسی نہیں ہے کہ اس سے سرسری گزر جایا جائے۔درحقیقت وزیراعلیٰ کے نزدیک نہ تو غربت مسئلہ ہے اور نہ مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کا کوئی دورہ ان پر پڑا ہے، اور نہ ہی وہ اتنے دانا و بینا ہیں کہ انہوں نے غربت کے خاتمہ کی کلید حاصل کرلی ہو۔ درحقیقت یہ اپیل کے پردے میں آسام کے مسلمانوں کو کھلی دھمکی ہے کہ وہ اپنی آبادی پر قابو پائیں ورنہ بصورت دیگر ان پر زمین تنگ کردی جائے گی۔
آسام میں بہرحال مسلمانوںکی قابل لحاظ آبادی ہے اور کئی ضلع میں وہ اکثریت میں ہیں۔ 2011کی مردم شماری کے مطابق آسام کی کل3.12کروڑ کی آبادی میں مسلمانوں کا حصہ34.2فیصد ہے۔جن میں سے ریاست کے قدیم مسلمان 2فیصد ہیں اور باقی ہندوستان کی دیگر ریاستوں سے آکر مقیم ہونے والے مسلمان ہیں جن میں سے اکثریت بنگلہ بولنے والوں کی ہے۔ مسلمانوں کی یہ اکثریت ریاست کے کل32اضلاع میںسے11میں مرکوزہے۔ یہی 11اضلاع آسام کی بی جے پی حکومت کے نشانہ پر ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ ان اضلاع سے مسلمانوں کی اکثریت کو کسی طرح سے منتشر کیاجائے۔اپنے اس مقصد کیلئے ہیمنت سرکار ان اضلاع میں تجاوزات ہٹانے کے نام پر مسلمانوں سے زمینیں اپنے قبضہ میں لے رہی ہے۔حالیہ دنوں ڈارنگ ضلع میں واقع سیپ جھر قصبہ میں180بیگھہ زمینوں سے مسلمانوںکو بے دخل کیاگیا جب کہ ہوجئی ضلع کے کاکی تارنگ، کریم گنج اور سوٹیاقصبہ میں2005بیگھہ زمینیں مسلمانوں سے خالی کروائی گئی ہیں۔بی جے پی نے حالیہ دنوں میں ہونے والے اسمبلی انتخاب میں مسلمانوں سے زمینیں خالی کرانے کا ایشوبھی اٹھایاتھا۔ انتخاب جیتنے کے بعد اپنے اس وعدہ کی تکمیل میں مسلمانوں پر زمین تنگ کرنی شروع کردی ہے۔حکومت کی اس جارحیت پر مقامی مسلم تنظیمیں احتجاج بھی کررہی ہیں اور گوہاٹی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سدھانشو دھولیا سے تجاوزات کے خاتمے کے معاملے پر از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
جہاں تک غربت بالخصوص مسلمانوں کی غربت اور پسماندگی کا سوال ہے تو وہ آبادی کی دین نہیں ہے بلکہ یہ غربت ایک مخصوص طبقہ کی حرص و ہوس اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا نتیجہ ہے۔ غربت دنیا میں ان جگہوں پر بھی ہے جہاں آبادی کم ہے۔غربت اور پسماندگی کا کوئی تعلق آبادی کی کمی بیشی سے قطعی نہیں ہوتا ہے۔ قدرت نے اس زمین پر ہر ذی روح کیلئے وافر وسائل مہیا کررکھے ہیں اگر حرص و ہوس اور لوٹ مار سے باز آکر ان وسائل سے سبھی کو فیض یاب ہونے کا موقع دیا جائے تو غربت خود بخود قصہ پارینہ بن جائے گی۔
آسام کی ہیمنت سرکار مسلمانوں کی غربت اور پسماندگی ختم کرناچاہتی ہے تواسے آبادی کم کرنے یا اجاڑنے کے بجائے ریاست کے وسائل میں مسلمانوں کوبھی حصہ دار بنانا چاہیے، ان کی بہتر تعلیم و تعلّم کا بندوبست کیاجانا چاہیے۔صرف سیاسی وزن کم کرنے کیلئے مسلمانوں کی آبادی کو ہدف تنقید و ملامت بنانا کسی بھی حال میں دانائی اور دانشمندی نہیں کہی جاسکتی ہے۔ وزیراعلیٰ ہیمنت بسواسرما اگر واقعی ریاست کی تاریخ کا دھارا موڑنا چاہتے ہیں وہ فتنہ و فساد نہیں بلکہ ریاست میں پرامن بقائے باہمی کی فضاقائم کرنے کی کوشش کریں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS