ہندوستانی معیشت کے استحکام کی حقیقت

0

پروفیسر مشتاق احمد

حال ہی میں بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ میں یہ سرخیاں جلی حروف میں شائع ہوئیں کہ ہمارا وطن عزیز ہندوستان مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے لحاظ سے برطانیہ کو شکست دیتے ہوئے عالمی سطح پر پانچویں مقام کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ بلا شبہ یہ خبر ہندوستان کے ہر شہری کے لیے فخر وانبساط کا باعث ہے کہ ہم جس ملک کے غلام رہے، اس ملک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی بڑی پانچویں معیشت کا سہرا ہمارے سر بندھا ہے۔ دراصل ’بلومبرگ‘ کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق برطانیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہندوستان دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیاہے اور یہ نتیجہ انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کی بنیاد پر طے پایا ہے۔ ’بلومبرگ‘ کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک ہندوستان کی معیشت اس سال مارچ کے آخر میں 854.7 بلین ڈالر کی تھی جبکہ برطانیہ کی معیشت 814 بلین تک محدود تھی۔ غرض کہ حالیہ چند برسوں میں ہندوستان کی معیشت کو غیر معمولی استحکام حاصل ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان 140 کروڑ کی آبادی والا ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں انسانی وسائل کی طاقت نے کئی شعبے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم اپنی آزادی کے 75 برسوں بعد اس مقام پر پہنچے ہیں اور ہم یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہوگی۔ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کا یہ موقف ہے کہ 2047 تک ہمارا ملک ہندوستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں ہوگا۔ یہ سکے کا ایک پہلو ہے لیکن سکے کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کے عوام کی معاشی حالت اب بھی برطانیہ کے عوام کی معاشی حالت سے بہت ہی پست ہے،کیونکہ برطانیہ کے لوگوں کی فی کس آمدنی 47 ہزار ڈالر سالانہ ہے جبکہ ہمارے ملک کے لوگوں کی فی کس آمدنی 2,500 ڈالر سالانہ تک ہی محدو د ہے ۔ ایسی صورت میں ملک کی معیشت کے مستحکم ہونے کی خبر خوش کن ضرور ہے لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کے عام شہری کی زندگی دنوں دن پست سے پست تر ہوتی جا رہی ہے۔ غرض کہ غریب دن بہ دن غریب ہوتا جا رہاہے اور ملک کے چند گھرانے ملک کی بے تحاشہ معیشت کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ اس لیے اس طرح کا موازنہ عام شہری کے لیے خوشحالی کا باعث نہیں ہو سکتا ہے۔ ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح دنیا کے کئی چھوٹے بڑے ممالک کووڈ کے بعد معاشی بحران کے شکار ہوئے ہیں اور پھر یوکرین کی جنگ نے عالمی معیشت کو متاثر کیا ہے، ایسے نازک دور میں ہندوستان نے اپنی معیشت کے توازن کو برقرار رکھا ہے اور کئی طرح کے مسائل کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی اس کے پاس خاصہ زرمبادلہ ہے۔ آج ہندوستان اس حالت میں ہے کہ وہ اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کی بدولت دنیا کے کسی بھی ملک سے برآمدات کر سکتا ہے۔ اس لیے دنیا کے کئی معاشی تجزیہ کاروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہندوستان نے تمام عالمی چیلنجوں کے باوجود اپنی ترقی کی شرح کو نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ اسے مستحکم بھی کیا ہے ۔
جیسا کہ ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور اس وقت بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان چوتھے درجے کی ملازمت کے لیے بھی تگ ودو میں مصروف ہے۔ حال ہی میں مدھیہ پردیش میں ڈرائیور کی ملازمت کے لیے ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگاروں نے درخواستیں دی تھیں۔ ان میں جتیندر موریا نام کے ایک بے روزگار نے بھی درخواست دی تھی جبکہ وہ قانون کی ڈگری رکھتے ہیں۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ وہ قانون کی ڈگری رکھتے ہیں، پھر وہ ڈرائیور کی ملازمت کے لیے کیوں حاضر ہوئے ہیں تو اس کا جواب تھا کہ وہ قانون کی ڈگری کے بعد جج کے لیے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کر رہا ہے لیکن اس کی آمدنی اتنی نہیں ہے کہ وہ اس اخراجات کو پورا کر سکے۔ المناک صورتحال تو یہ ہے کہ محض ایک درجن چوتھے درجے کی ملازمت کے لیے دس ہزار سے زائد اعلیٰ ڈگری یافتہ نوجوانوں نے درخواستیں دی تھیں۔ اس تلخ سچائی کو بھی قبول کرنا ہوگا۔ حال ہی میں سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکناومی (سی آئی ایم آئی) کی رپورٹ کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح دسمبر تک 8 فیصد سے زیادہ تک پہنچ سکتی ہے ۔ واضح ہو کہ 1991 میں جب ملک کی معیشت بہت ہی بدحال ہوگئی تھی، اس وقت بھی بے روزگاری کی شرح اتنی نہیں تھی۔ ظاہر ہے کہ جب تک بے روزگاری کی شرح میں کمی واقع نہیں ہوگی، بالخصوص غیر منظم شعبے کے مزدوروں کی معاشی حالت میں بہتری نہیں آئے گی، اس وقت تک عام شہری کی زندگی میںبہتری نہیں آسکتی، اس لیے اس طرح کی خبریں کہ ملک فلاں شعبے میں نمایاں ہوگیا ہے، وقتی طورپر مسرت بخش ضرور ہوتی ہیں لیکن ملک کے عوام کی بہتری کے لیے یہ ضرور ی ہے کہ عام شہری کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدام اٹھائے جائیں اور اس طرح کے منصوبے تیار کیے جائیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار مل سکے۔ حال ہی میں حکومت نے بے روزگاروںکے لیے ایک پورٹل بنایا ہے جس پر 38 کروڑ سے زیادہ بے روزگاروں نے اپنا اندراج کرایا ہے۔ ایسی صورت میں ہندوستان کا دنیا کی ایک بڑی معیشت کی شکل میں ابھرنا جس قدر فرحت بخش ہے اسی قدر باعث تشویش بھی ہے کہ آخر ملک کی اکثریت عوام کو بنیادی سہولیات سے کب تک محروم رکھا جائے گا؟
بہر کیف، اس وقت ہندوستان میں جس طرح کی سیاسی فضا ہے اور عوام الناس کو طرح طرح کے سپنے دکھائے جا رہے ہیں اور روز بروز اشتعال انگیزی اور فرقہ وارانہ نعرے بازی کے ذریعے عوام کو بنیادی مسائل سے منحرف کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، ایسے وقت میں یہ خبر بھی کہ ہندوستان برطانیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کے پانچویں پائیدان پر پہنچ گیا ہے، عام شہری کے لیے زیادہ معنی نہیں رکھتی، کیونکہ جب تک عام شہری کی زندگی میں تبدیلی نہیں آئے گی اور عوام الناس کے جو بنیادی مسائل ہیں، ان کا حل نہیں ہوگا، اس وقت تک اس طرح کے معاشی ڈیٹا کا آنا اور ذرائع ابلاغ میں سرخیاں بننا لمحاتی مسرت کا باعث ہی بن سکتا ہے۔ ہندوستان جیسے دنیا کے ایک بڑے جمہوری ملک کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک میں امن و چین کا ماحول پیدا ہو اور عام شہری کو کم سے کم زندگی جینے کی بنیادی سہولیات میسر ہوں تب ہی ہماری آزادی کے لیے قربانیاں دینے والوں کے خواب شرمندۂ تعبیر ہوں گے کہ جب تک لاکھوں لوگ کھلے آسمان کے نیچے سردیوں میں شب وروزگزارتے رہیں گے اور لاکھوں گائوں میں صاف و شفاف پانی پینے کے لیے لوگ ترستے رہیں گے، اس وقت تک اسٹاک مارکٹ کا اچھلنا اور گرنا بے معنی ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ عام شہری کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اور بے روزگاروں کو روزگار مہیا کرانے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل تیار کیے جائیں اور تمام تر سیاسی مفاد سے اوپر اٹھ کر ملک وقوم کے مفاد میں ملک کی نفرت انگیز فضا کو سازگار بنایا جائے کہ ملک میں ایک طرف معاشی استحکام بلند ہو تو دوسری طرف ہمارے ملک میںجو قومی ہم آہنگی اور انسان دوستی مثالی رہی ہے۔ اس کا ستارہ بھی روشن رہے اور ہم دنیا میں امن و آشتی کے پیامبر کی حیثیت سے اپنی شناخت مزید مستحکم کرسکیں۔n
(مضمون نگار للت نرائن متھلا یونیورسٹی ، دربھنگہ کے رجسٹرار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS