انسانیت کا’محافظ‘ایٹم بم! کیوں کہا جائے گا؟

0
RRS Urdu

سرخی پڑھنے پر تعجب ضرور ہوگا، ہونا بھی چاہیے، بم کو انسانیت کا محافظ کیسے کہا جائے گا؟ کیوں کہا جائے گا؟ وہ تو انسانوں کی جان ہی لیتا ہے، پھر اسے یہ کیوں کہا جائے مگر دنیا کے پچھلے 76 سال کے حالات پر نظر ڈالنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کہنا چاہیے۔ امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش نے اس بہانے سے عراق پر حملہ کیا تھا کہ اس کے پاس عام تباہی کے ہتھیار ہیں۔ عراق جنگ کے پہلے ہی تین سال میں 151,000 سے 1,033,000 تک عراقیوں کی جانیں جا چکی تھیں۔ جنگ کے 8 سال، 8 مہینے اور 29 دن میں مجموعی طور پر کتنے لوگوں کو جانیں گنوانی پڑیں، اس پر حتمی رپورٹ آج تک نہیں آئی ہے اور شاید کبھی آئے بھی نہیں، کیونکہ اس صورت حال میں جب کہ پانی اور پٹرول سے زیادہ سستاانسانوں کا خون ہو گیا ہو، لوگ گلی محلے ، چوک چوراہوں ، گھروں اور جیلوں تک میں مار ڈالے جا رہے ہوں، یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ عراق جنگ میں عراقیوں کی مجموعی ہلاکتوں کی حتمی رپورٹ آئے گی۔ اہم سوال یہ تھا کہ امریکہ نے عراق پر کیوں حملہ کیا جبکہ اس کے پاس عام تباہی کے ہتھیار نہیں تھے، اس نے شمالی کوریا پر حملہ کیوں نہیں کیا جبکہ اس کے پاس ایٹم بم تھے؟ اس کا راست جواب یہی ہے کہ امریکہ نے شمالی کوریا پر حملہ اسی لیے نہیں کیا، کیونکہ اس کے پاس ایٹم بم تھے اور عراق پر حملہ اس لیے کیا،کیونکہ یہ اطمینان اسے تھا کہ دندان شکن جواب نہیں ملے گا۔ عراق کے پاس اگر ایٹم بم ہوتا تو جارج ڈبلیوبش کو اسی طرح صدام حسین سے گفت وشنید پر مجبور ہونا پڑتا جیسے ڈونالڈ ٹرمپ کو کم جونگ-اُن سے گفت و شنید پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بموں کے حملوں کے 57 برس بعد 20 مارچ، 2003 کو عراق جنگ کی ابتدا نے یہ بتایا کہ ایٹم بم ترقی یافتہ اور طاقتور ملکوں کے لیے بے شک تباہی کا خزانہ ہوں، ان کی طاقت کے اظہار کا وسیلہ ہوں مگر پسماندہ اور کم طاقتور ملکوں کے لیے یہ ’رکشا کوچ‘ ہیں۔ یہ اگر ہوں تو پڑوسی ملک جنگ کرتے ہوئے گھبراتا ہے جیسے ہندوستان کے پاس ایٹم بم ہونے کی وجہ سے پاکستان جنگ کرنے کی حماقت نہیں کرنا چاہتا، وہ بھبکیوں سے کام چلانا چاہتا ہے مگر عالمی برادری اس کی بھبکیوں کی حقیقت سمجھنے لگی ہے۔
عراق جنگ کے بعد یہ سوال فطری طور پر پیدا ہوا ہے کہ کیا ملکوں کی بقا کے لیے ایٹم بم کا ہونا ضروری ہے اور اگر ضروری ہے تو پھر عالمی لیڈران انسانیت کی باتیں کیوں کرتے ہیں، ان کی باتوں کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ ظاہر سی بات ہے کہ ان کی باتوں کا مقصد دنیا کو بیوقوف بنانا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بیوقوف بنانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک تجارت سے طاقتور بنتے ہیں، ان کے خلاف دنیا بھر کے لوگوں میں اگر نفرت پیدا ہوجائے گی، انہیں لوگ انسانیت کے خلاف مان لیں گے، ان کی اشیا نہیں خریدیں گے تو پھر کتنے برسوں تک وہ طاقتور رہ پائیں گے؟ ایٹم بم تو ہوں گے، ان کی دیکھ بھال کے لیے وہ پیسے کہاں سے لائیں گے؟ ان کے اپنے ہی لوگ بے روزگاری اور مفلسی سے تنگ آکر سڑکوں پر نکل جائیں گے تو وہ کیا کریں گے؟ اس لیے ترقی یافتہ ممالک کے لیڈران انسانیت کی، جمہوریت کی باتیں ضرور کرتے رہتے ہیں مگر ان کے لیے سب سے اہم ان کا اپنا مفاد ہوتا ہے۔ امریکی فوجی عراق میں لوگوں کو صدام حسین سے آزادی دلانے کے لیے گئے تھے مگر مصر میں جمہوری طریقے سے محمدمرسی صدر منتخب کیے گئے اور اس کے باوجود انہیں ہٹا دیا گیا تو امریکہ نے اس وقت کے مصری جنرل الیسیسی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟ انہیں کیوں اقتدار ہتھیانے سے نہیں روکا؟ اس وقت اس کی جمہوریت پسندی کہاں چلی گئی تھی؟ کیا امریکہ کی جمہوریت پسندی وقت کے نئے تقاضوں کی مناسبت سے بدلتی رہتی ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ کم جونگ-اِل اور اس کے بعد ان کے بیٹے کم جونگ-اُن نے ایٹم بم کی اہمیت سمجھی، اسی لیے بار بار امریکہ کو دھمکانے کے باوجود شمالی کوریا بچا ہوا ہے مگر اس تلخ حقیقت کو بدلنے کی ضرورت تھی۔ ایٹم بموں کا بڑی تعداد میں بننا دنیا کے لیے بہتر نہیں تھا۔ ایٹم بم ہزاروں کی تعداد میں بن چکے ہیں۔ ان بموں کے خلاف کوئی چاہے تو باتیں کرے اور کرنا بھی چاہیے مگر اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ امریکہ کے پاس ہی اگر یہ بم ہوتے تو نہ جانے اور کتنا عراق بن چکا ہوتا، پچھلے 76 برس میں ایٹم بموں کی تباہی بتانے کے لیے دنیا کے پاس دوہی مثالیں نہ ہوتیں، کئی اور مثالیں ہوتیں اور امریکہ بہادر کے لیڈران اس وقت اسی طرح کی باتیں کرتے جیسے فلسطین پر اسرائیل کے حملوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے باتیں کرتے ہیں مگر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایٹم بموں نے دنیا کو بارود کی ڈھیر بنانے کا کام کیا ہے، خدانخواستہ اس ڈھیر میں کبھی چنگاری لگی تو پھر دنیا اسٹون ایج میں چلی جائے گی اور تب انسانوں کو یہ سوچنے کی مہلت مل پائے گی کہ کب ان سے کہاں غلطی ہوئی، انسانوں کی دنیا میں انسان آدمؑ کی اولاد بن کر بھی تو جی سکتے تھے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS