جوہری اسلحوں کی تخفیف!

    0
    image:amarujala.com

    پہلا ایٹم بم جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرایا گیا تھا، چنانچہ فطری طور پر جاپانی ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس بم سے ہونے والی تباہی دیکھی ہے اور اس کے بعد کے اثرات کو بھی دیکھا ہے۔ وہ نہیں چاہیں گے کہ دنیا کے کسی اور شہر پر کبھی کوئی جوہری اسلحہ یا ایٹم بم گرایا جائے۔ دنیا کے کسی اور ملک کا کوئی انسان دوست آدمی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ ان بموں کا استعمال کبھی ہو مگر ایسی چاہت رکھنا ایک بات ہے، چاہت کا اظہار کرنا دوسری بات ہے اور اس اظہار کو مہم کی شکل دے دینا تیسری بات ہے۔ جاپانیوں نے یہ تینوں کام کیا ہے۔ انہوں نے یہ چاہت کی کہ دنیا سے جوہری اسلحوں کا خاتمہ ہو،اس چاہت کا اظہار کیا اور اسے مہم کی شکل دی، البتہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کے فوراً بعد وہ یہ کام نہیں کر سکے تھے، انہیں سنبھلنے میں وقت لگا مگر وہ ذرا سنبھل گئے، بری یادوں کے دائرۂ اثر سے ذرا باہر نکلنے لگے تو 1954 میں ایٹم بموں کو ختم کرنے کی تحریک شروع کی۔ یہ بات الگ ہے کہ ان کی تحریک کے باوجود ایٹم بم بنانے والے ملکوں کی تعداد بڑھتی رہی، ایٹم بموں کے ذخیرے میں اضافہ ہوتا رہا، البتہ جاپانیوں کو اپنی طرف سے جو کام کرنا تھا، انہوں نے کیا۔ دنیا کے طاقتور ملکوں، بالخصوص امریکہ اور سوویت یونین اور بعد میں روس نے یہ دکھانے کی کوشش بھی کی کہ جوہری اسلحوں کی تخفیف کے لیے وہ سنجیدہ ہیں لیکن اسی دنیا کی یہ حقیقت بھی ہے کہ جنگ نئے ہتھیاروں کی نمائش کے لیے لڑی جاتی ہے تاکہ اسلحوں کا کاروبار چلتا رہے تو ظاہر ہے، امریکہ، روس جیسے اسلحہ بیچنے والے ملکوں سے یہ امید تو کی جا سکتی ہے کہ کسی اور ملک کو، بالخصوص وہ ملک جو ان کے خیمے کا نہ ہو، ایٹم حاصل نہیں کرنے دیں گے لیکن یہ امید ان سے نہیں کی جا سکتی کہ وہ ایٹم بموں کے اپنے ذخیرے کو ختم کر دیں گے، اس لیے جوہری اسلحوں میں تخفیف کی کوئی تحریک کبھی پوری طرح کامیاب ہوگی، ایسا بالکل نہیں لگتا۔

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS