مسئلہ فلسطین پھر ٹھنڈے بستے میں

0

گزشتہ دنوں مغربی ایشیا کا دنیا کے دو سب سے بڑے اور بر سر پیکار ممالک امریکہ اور روس کی اعلیٰ ترین قیادت نے دورہ کیا اور سفارتی سرگرمیاں تیز ہو گئیں ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ خطہ دنیا کے دو بلاکوں کی توجہ کا مرکز اور محور ہے۔ امریکی صدر کے دورہ سے یہ امید ہوئی تھی کہ شاید اس دنیا کے حساس اور سنگین ترین مسئلہ فلسطین کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ کئی حلقوں میں یہ خبر بھی اڑائی جا رہی تھی کہ شاید امریکہ اور مغربی ممالک ایشیا میں بھی ناٹوں کی چھتری کی توسیع کرنے پر غور کریں گے، اسرائیل کے اعلیٰ عہدیداروں کے کئی عرب ممالک کے دورے اور بطور خاص اردن کے دورے سے بڑی امیدیں پیدا ہوئی تھیں۔
اردن کے شاہ عبد اللہ جو کہ مسئلہ فلسطین کے اہم فریق ہیں اور اپنے ملک میں دہشت گردانہ اور تخریبی سرگرمیوں سے بے چین تھے، نے ایک پڑوسی ملک کے خلاف محاذ آرائی سے اچانک اپنا دامن کھینچ لیا ، وہ ایران کے ساتھ بد گمان تھے، جیسا کہ قارئین کو معلوم ہو گا کہ اسرائیل امریکہ اوردیگر کئی مغربی ممالک ایران کے نیو کلیائی پروگرام سے خائف ہیں اور اسی بنیاد پر ناٹو کی توسیع چاہتے ہیں۔ جب کہ مصر اور دیگر کئی عرب ممالک محض اس بنیاد یعنی ایران سے مخالفت کی بنیاد پر ناٹو یا مغرب کا دم چھلہ کیوں بنیں؟ اردن اور کئی عرب ممالک نے برادر کشی کی سابقہ روش کو ترک کرتے ہوئے ایران کے تئیں معاندانہ رویہ ترک کیا ہے۔ اب اردن کو یہ لگتا ہے کہ فلسطین کے مسئلہ کو حل کئے بغیر یہ ممکن نہیں ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ایک معمول کے پڑوس جیسے روابط یا مراسم استوارکیے جا ئیں۔
عرب مبصرین کی رائے ہے کہ اردن میں ناٹو عرب اتحاد کی تجویز کے پس پشت اردن ہے۔ اردن عرب دنیا کا کوئی سرگرم ملک نہیں ہے۔ اقتصادی اعتبار سے بھی اردن کا شمار اہم معیشتوں یا بااثر ملکوں میں نہیں ہوتا ہے۔ شاہ عبداللہ کو لگتا تھا کہ اس نظریہ کو پیش کرکے وہ خطے میں کوئی قائدانہ رول تلاش کرلیں گے۔ سعودی عرب کے جانشین محمد بن سلمان نے خلیج میں حالات کا جائزہ لینے اور موڈ بھانپنے کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کی آمد سے قبل کئی عرب و پڑوسی ملکوں کا دورہ کیا تھا۔ اس میں اردن اور مصر کے علاوہ ناٹو کا ممبر ملک ترکی بھی شامل تھا۔ مغربی ممالک اس خطے میں اپنے عمل دخل بالا دستی یا قائم کرنے کی کوششوں میں اسرائیل پیش پیش تھا مگر اسرائیل کے اچانک سرگرم ہونے کا بھی وہی مقصد تھا جو دیگر مغربی ممالک کا تھا، یعنی ایران کوعالم اسلام اور مغربی ایشیا میں الگ تھلگ کردیا جائے۔ سعودی عرب نے اگرچہ دنیا کے تمام ملکوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے لیے بھی اپنی فضائی حدود کوکھول دیا ہے مگر وہ بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ کسی بھی جال میں نہ پھنسنے کی حکمت عملی پر کاربند ہے خاص طور پر کوئی ایسا جال جو ناٹو کے طرز کا ہو، ناٹو میں دنیا کے سب سے طاقتور اور سب سے خود غرض ممالک جو ہمیشہ اسرائیل کا ساتھ دیتے رہے ہیں، شامل ہوں یہی موقف مصر کا بھی ہے۔ مصر ابھی اسرائیل سے بہت سارے زخم کھایا ہوا ہے اور اس نے بڑی ہوشیاری سے اپنے علاقوں کو اسرئیل کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
پوری دنیا مصر کو اسرئیل کا حلیف سمجھتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مصر نے مغربی ایشیا ،عرب و مغربی دنیا اور روس بلاک کو بڑی دور اندیشی کے ساتھ حریفوں اور حلیفوں کو کنارے کیا ہے۔ اور مصر کی سفارت کاری کا سکہ جمایا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS