ملک کی سیاست کا سیاہ باب

0

اشرف حسینی
ملک کی سیاست نے ایک عجیب سا رخ اختیار کرلیا ہے۔ سیاسی رہنمائوں نے سماج میں سیاست منافرت پھیلانے کے بعد اب ان بڑے ناموں کو داغدار کرنا شروع کردیا ہے جنہوں نے ملک و قوم کی خدمت میں ایک طویل عرصہ صرف کردیا۔ گویا اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ سیاست اور اقتدار اب ذاتی دشمنی نکالنے اور انتقام لینے کا ذریعہ بن گئی ہو۔ اب تک تو یہ محسوس ہورہاتھا کہ برسراقتدار جماعت یا اس کے اراکین کسی ایک خاص فرقے کو ہی نشانہ بنا رہے ہیں لیکن اب معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہوتا نظرآرہاہے۔ ماضی قریب میں اس کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملی ہیں۔
سب سے پہلے اس بات کا ذکر کرناہی مناسب ہوگا کہ پچھلے دنوں ایوان پارلیمنٹ میں اسمرتی ایرانی اور سونیا گاندھی کے بیچ جو کچھ ہوا وہ مذکورہ بالی باتوں کی تصدیق کے لئے کافی ہیں۔ معاملہ یہ تھا کہ اپوزیشن کے ایک لیڈر ادھیر رنجن نے صدرجمہوریہ دروپدی مرمو کے تعلق سے ایک اسٹیٹمنٹ دیا جس میں راشٹرپتی کے بجائے ان کی زبان سے راشٹرپتنی نکل گیا جس کی تلافی انہوں نے بعد میں کی اور معافی بھی مانگی۔ لیکن اس بات کو لے کر برسراقتدار جماعت نے اپوزیشن کی جوحالت کی وہ ناقابل بیان ہے۔ اور اس معاملے کو لے کرکچھ لوگوں نے جو رویہ اپوزیشن کی سب سے اہم لیڈر سونیا گاندھی کے ساتھ کیا وہ انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہے۔
یہ رویہ ہندوستانی پارلیمنٹ کی تاریخ میں پہلا ہے اور شاید آخری بھی ہو۔ برسراقتدار جماعت اور ان کی ہمنوا میڈیا نے خوب زور وشور سے یہ ہنگامہ کیا کہ کانگریس نے ایک قبائلی خاتون صدرجمہوریہ کی توہین کی۔ لیکن یہ بات بھارت کی تاریخ لکھنے والوں نے نوٹ کرلی کہ کس نے توہین کی اور کس کی توہین ہوئی۔ اور اس کے پیچھے کون لوگ تھے اور ان کاکیا مقصد تھا۔ بلکہ سونیا گاندھی جس بری طرح برسراقتدار نے پارلیمنٹ میں حملہ کیا، ان کے سامنے جس بری طرح شور مچایا اور ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ بہت بولتی ہے اور اس نے میرے بارے میں بہت کچھ بولا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا مقصد سونیا گاندھی کو خاص طورپر ٹارگیٹ کرنا تھا۔ اور اس کا اثر بھی دکھا، ہنگامہ کرنے والے اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے کیونکہ سونیا گاندھی اپنے ساتھ ہوئے اس برتائوکو برداشت نہ کرسکیں اور پارلیمنٹ چھوڑکر اپنی رہائش کی طرف لوٹ کرجانا ہی مناسب سمجھا۔ اس کے علاوہ ایک دوسری مثال یہ ہے کہ بی جے پی نے ملک کے سابق نائب صدر حامدانصاری پر کیچڑ اچھالی۔ انہیں ایسی کارروائی میں ملوث قرار دیا جوڈائریکٹ قومی سلامتی کے لئے خطرہ تھا۔ ان پر الزام لگایا کہ پاکستانی صحافی کے سامنے انہوں نے ایسی معلومات دیں جو آئی ایس آئی کے لئے مفید اور ملک کے لئے مضرہوسکتی تھیں۔
بی جے پی نے یہ سارے الزامات ایک پاکستانی صحافی کے حوالے سے لگائے۔ جبکہ بعد میں اس پاکستانی صحافی نے بھی ان الزامات کو غلط حامد انصاری پر حملہ قرار دیا۔دوسری طرف اپنا دفاع کرتے ہوئے حامد انصاری نے ان الزامات کویکسر مسترد کردیا۔ آپ غور کریں کہ ان الزامات کا کیا مقصد تھا اور ایک اعلی ترین منصب پر فائز رہ چکے شخص پر ایسے الزامات لگانا کیا معمولی بات ہے۔ اس کے علاوہ سی بی آئی ،ای ڈی اور دیگر سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ جو کھیل کھیلا جارہاہے وہ بھی بالکل ظاہرہے۔ ان ایجنسیوں کے کارروائی پر سوال نہیں ہے لیکن یکطرفہ کارروائی پر ضرور سوال اٹھ رہے ہیں۔ برسراقتدار جماعت پر لاکھ الزامات عائد ہوں اگرچہ وہ صحیح بھی ہوں لیکن کیا مجال جو سرکاری ایجنسیاں ان سے بازپرس کرنے کی جراء ت کرے۔ لیکن اگر یہی الزام اپوزیشن پارٹیوں میں سے کسی کے لیڈر پر لگ جائے یا صرف شک یا شبہ بھی ہوجائے تو یہ ایجنسیاں انہیں گرفتار کرکے کئی کئی دنوں بلکہ مہینوں تک پوچھ تاچھ کرتی ہیں۔ یہ اور اس طرح کی بے شمار مثال آئے دن آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سیاست دان کب کس کی عزت اچھال دیں اور کسے ذلیل کردیں اس کا کوئی بھروسہ نہیں۔ کیونکہ سیاست اب ذاتی منافرت تک پہنچ چکی ہے۔ آپسی چپقلش اور ذاتی عناد سے بھری ہوئی یہ سیاست کتنے لوگوں کو ذلیل کرے گی اور کتنے لوگوں کو سلاخوں کو پیچھے پہنچائے گی اس کا اندازہ لگاپانا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ یہ کھیل ذاتی طورپر بھی ہونے لگا ہے اور سرکاری ایجنسیوں کا استعمال کرکے بھی کیا جارہاہے۔ اور اب جبکہ یہ کھیل شروع ہوگیا تو اس کا اختتام کب اور کہاں ہوتا ہے اس کا اندازہ لگاپانا بہت مشکل ہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS