سوشلسٹ تحریک پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت

0

یوگیندر یادو
سماجوادی لیڈر ملائم سنگھ یادو کے انتقال پر ہمیں کچھ اہم سوالوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آج کے دور میں ہندوستان میں سماجوادی روایات کی کیا اہمیت ہے۔ یہ سانحہ اس وقت گزرا جب ہم 11اکتوبر کو مشہور سماجوادی لیڈر جے پرکاش نارائن کی 120ویں یوم پیدائش منا رہے تھے۔ ان کی آخری رسومات کے ایک دن بعد ملائم سنگھ یادو کے سیاسی گرو رام منوہر لوہیا کی 55ویں برسی تھی۔
اگرچہ ملائم سنگھ یادو جی کی سیاسی زندگی کے بارے میں کسی ایک اہم اور مستقل پائی جانے والی روایت کے بارے میں کہا جاسکتا ہے تو وہ ان کا اپنے آپ کو سماجوادی روایات سے وابستہ رکھنا تھا۔ اپنی پارٹی کو سماجوادی نام دینا اور سرخ رنگ کی ٹوپی پر اصرار کے علاوہ انگریزی کی بالادستی کو چیلنج کرنا اور رام منوہر لوہیا کے اصولوں پر کاربند رہنا وہ اہم چیزیں ہیں جن کو انہوںنے اپنی زندگی کو سماجواد سے جوڑے رکھا۔
آج کے سیاسی منظرنامے پر غور کریں تو ہمیں صاف دکھائی دے گا کہ سیاست دانوں میں کہیں بھی سماجوادی اقدار یا روایات کا شائبہ تک نہیں ہے۔ نئی نسل کے سیاستدانوں کو ہر وقت ہندوتو کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ لیبرل، بائیں بازو، نکسلوادی ، عورتوں کی آزادی ، گاندھیائی اور ماحول دوست روایات اور نظریات کی باتیں تو سنتے ہیں لیکن جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ سوشلسٹ کون ہوتے ہیں تو وہ بغلیں جھانکیں گے اور کچھ تو یہ کہیں گے کہ شاید یہ کمیونلزم کے ہم معنی کوئی لفظ ہے۔ جب ہم ہندوستان کے تعلیم یافتہ لوگوںسے سوشلزم کی بات کرتے ہیں تو وہ ہندوستان کے کسی سیاست داں کے بجائے(برطانوی لیڈر) برنی سینڈرس سے اپنے آپ کو جوڑنے کی کوشش کریں گے۔ وہ کسی ہندوستانی سماجوادی لیڈر جیسے رام منوہر لوہیا، جے پرکاش نارائن، آچاریہ نریندر دیو، یوسف مہرالی، مدھو لمے، جارج فرنانڈیز اور کشن پٹنائک سے اپنے آپ کو نہیں جوڑیں گے۔
وہ لوگ جو سوشلزم کو سمجھتے ہیں اور اس کو کمیونلزم سے جدا سمجھتے ہیں وہ بھی ہندوستان کے منفرد سوشلسٹ مومنٹ کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پوری دنیا کے جمہوریت پسند سوشلسٹوں کی طرح ہندوستانی سوشلسٹ ہمیشہ سرمایہ دارانہ نظام کی نابرابری اور کمیونسٹ ڈکٹیٹر شپ کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ہندوستان کا سماجوادی نظریہ دنیا بھر کے سماجوادی نظریات سے قدر مختلف ہے۔ ہندوستان کے سوشلسٹ سرمایہ دارانہ عدم مساوات اور کمیونسٹ ڈکٹیٹر شپ کے مخالف ہیں۔
بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کے سماجواد- بائیں بازوں کے(گہرے سرخ) کمیونسٹ نظریات کے مقابلے میں (کم سرخ) گلابی ہیں۔ سماجوادی لیڈروں نے جس طرح ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں گھل مل کر جدوجہد کی اور جس طریقے سے یہ لوگ گاندھی جی کے ساتھ رابطے میں آئے اس سے ان کے نظریات بالکل ہی بدل گئے۔ لہٰذا ہم ہندوستانی سماجواد کو صرف جمہوری سوشلزم کا ہندوستانی نظریہ نہیں قرار دے سکتے۔ یہ ایک منفرد سیاسی نظریہ ہے جو کہ اقتصادی مساوات ، ذات برادری اور صنفی برابری جیسے نظریات پر مبنی ہے۔ یہ آئیڈیالوجی سیاسی اور اقتصادی لامرکزیت سماج کو سامراج کے اثرات سے پاک کرنے اور پر امن مزاحمت جیسے اصولوں پر مبنی ہے۔ ہندوستان کا سوشلزم اپنے آپ میں دیسی سوشلزم ہے جو کہ اسی سرزمین میں پروان چڑھا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آج کے اس دور میں ہم پرانے وقتوں کی چیزیں اور تاریخ کو کیوں یادکرتے ہیں کیونکہ یہ آج کا دور سیاسی طور پر کمزور اور ایک منتشر تحریک کا دور ہے ہم کو آج کی مزاحمتی سیاست میںشامل ہونا پڑے گا۔
آج کے جمہوری نظام کو درپیش چیلنجز کو سمجھنے کے لیے ہمیں تین سیاسی نظریات کو تنقیدی نقطۂ نظر سے دیکھنا ہوگا ۔ اور وہ لوگ جو کہ ہمارے جمہوری اور آئینی نظام کو درپیش چیلنج اور مروج نظام کی مزاحمت کرنا چاہتے ہیں ان کو تین اصلاحی نکات پر بات کرنی ہوگی۔
اول یہ کہ ہندوستانی سوشلسٹ سخت اور پکے قوم پرست ہیں ۔ دراصل یہی بنیادی فرق ہے جو ان کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے مختلف اور جدا بناتا ہے۔ ہندوستان کے کمیونسٹوں کی جدوجہد آزادی میں کھٹی میٹھی وابستگیاں رہی ہیں۔ ا س کے برخلاف ہندوستان کے سوشلسٹوں نے کانگریس کی قیادت میں ہندوستان کے جدوجہدآزادی میں اہم رول ادا کیا۔ ان کی قوم پرستی ، تنگ نظری پر مبنی نہیں تھی۔ ہندوستان کے سوشلسٹ مثبت نقطۂ نظر کے حامل افراد کے اور قوم پرستی کو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے سامراج کے مخالف نظریات سے وابستہ رکھے ہوئے تھے۔ آزادی کے بعد ان کی قوم پرستی ملک کی تعمیر پر مبنی رہی۔ وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور آزادانہ خارجہ پالیسی کے حامی تھے لیکن وہ پنڈت جواہر لعل نہرو کی چین کے تئیں پالیسی پر نکتہ چینی سے گریز نہیں کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے 1962میں ہمیں نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ آج بی جے پی اور آر ایس ایس کی قوم پرستی ان کی تنگ نظری پر مبنی سیاست ہے جوکہ ملک او ر بیرو ن ملک کے گڑھے گئے دشمنوں کے خلاف ہے۔ یہ سیاست آزاد خیال بائیں بازو کے طبقے کو غلط جگہ محصور کرتی ہے۔ ہم بی جے پی کی جارحانہ قوم پرستی کا مقابلہ مبہم عالمی پالیسی کے ذریعہ نہیں کرسکتے ہیں۔ ہندوستانی سوشلسٹوں کی مثبت قوم پرستی آج کی فرضی شدت پسندوں پر مبنی قوم پرستی کا بہتر طریقہ سے مقابلہ کرسکتی ہے۔ ثقافتی خود پرستی کی سیاست کا جہاں تک تعلق ہے ، بی جے پی ہندوستانی تہذیب (ہندوتو تہذیب)پر اپنے فخر کرتی ہے۔ وہ ہر ایک ہندوستانی سے امید کرتی ہے کہ وہ ماضی کے سامراج کی تمام یادوں اور آثار کو مٹا دے۔
وہ ماضی کے سامراج واد میں مسلم دور حکومت کو بھی شامل کرتی ہے۔ وہ اس کے لیے دلائل بھی پیش کرتی ہے جو حقیقی بھی ہوسکتے ہیں اور تصوراتی بھی۔ اس کا مقصد ہے ہندوستان کی قدیمی تہذیب پر روز دینا اور اس پر فخر کرنے کی بات بھی کرتی ہے۔ یہ لوگ انگریزی زبان کے غلبہ پر حملہ آور ہوکر سماج کے بڑے طبقے پر اثر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بی جے پی پر نکتہ چینی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے نظریات بے کار اور کھوکھلے ہیں اس کی علامتیں بے محل اور تاریخ جھوٹی اور غلط ہے۔
مگر یہ طبقہ بی جے پی مخالفت میں کوئی متبادل پیش نہیں کرپاتا ہے جس سے کہ یہ بات ظاہر ہوسکتی کہ وہ ثقافتی خود پرستی کے اصول پر قائم ہے۔ جب وہ انگریزی زبان کا دفاع کرتے ہیں کہ تو اس سے یہ لگتا ہے کہ وہ اگرچہ سامراج واد پرست نہیں ہے لیکن اعلیٰ طبقے سے ضرور تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ ہندوستان کے سوشلسٹ اپنے انداز اور اپنے معنوں میں ہندوستان کی تہذیب وثقافت پر اپنی منفرد تشریح پیش کرتے ہیں۔ وہ انگریزی کی بالادستی کے مخالف تو ہیں مگر وہ ہندی کی اجارہ داری کے برخلاف ایک منفرد متبادل ثقافتی سیاست کانظریہ بھی پیش کرتے ہیں۔ وہ مذہب کی مخالفت کرتے ہیں مگر ایک مذہب کو نہ ماننے والے طبقے کی طرح مذہب کو حقارت سے نہیں دیکھتے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہندوستان کے مذہب کو ماننے والے طبقے کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ضرور ہیں۔
تیسرا عنصر سماجی انصاف کا ہے۔ خاص طور پر ذات پات پر مبنی نابرابری کے معاملے میں سوشلسٹ سیاستدانوں کی پوزیشن بالکل منفرد ہے۔ امبیڈکر کے علاوہ ہندوستان کے سوشلسٹوں نے سب سے پہلے اس بات کو اٹھایا کہ ہمارے سماج میں ذات پات کا نظام عدم مساوات کی توسیع کا سبب بن رہا ہے۔ لہٰذا انہوںنے پسماندہ طبقات (جس میں ایس سی ، ایس ٹی، او بی سی، اقلیتوں اور خواتین شامل ہیں) کے لیے مثبت فلاحی اقدام کیے جانے کی وکالت کی۔ منڈل کمیشن کی سفارشات کو عملے جامہ پہنانے کے لیے سماجوادی نظریات کی سیاسی پارٹیاں پیش پیش رہی ہیں۔ آج یہ وراثت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوگئی ہے۔ کیونکہ دلت- بہوجن اتحاد موجودہ سیاسی بالادستی کے خلاف ایک اہم مزاحمتی سیاست ہوسکتی ہے۔ آج کی سماجوادی کی تحریک ہمیں ملک کو متحد رکھنے کے لیے ایک نظریاتی اور سیاسی بنیاد فراہم کرسکتی ہے۔
آج بھی جب سماجواد کی تحریک اہم رول ادا کرسکتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا یہ سماجوادی تحریک اپنی تاریخی ذمہ داری کو نبھانے کی متحمل ہے۔ آزادی کے بعد سوشلسٹوں نے تمام استبدادی اور ڈکٹیٹیرانہ نظام، جو کہ کانگریس نے تھوپا تھا، کا مقابلہ کیا۔ اس وجہ ان کی حکمراں طبقہ کے خلاف جدوجہد کا نگریس کی مخالفت پر مبنی رہی ہے۔ اپنے دور کے دیگر سوشلسٹوں کی طرح ملائم سنگھ یادو بھی کانگریس کے سخت مخالفت تھے۔ مگر آج کے دور میں جب برسر اقتدار بی جے پی آئینی جمہوریت کو ختم کرنے اور ملک کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے در پر ہے۔ ہندوستان کے سماجوادی طبقہ کو آج نئے ہندوستان میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اپنے نظریہ پر از سر نو غور کرنا ہوگا۔
مضمون نگار سوراج انڈیا سوراج ابھیان کے بنیاد گذار اور سماجی رضاکار ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS