پولیس اصلاح کی ضرورت

0

منصفوں کی باتیں لوگ بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ کہنے والی شخصیت اگر ملک کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ہوں تو پھر ان کی باتوں کی اہمیت سمجھی جا سکتی ہے، چنانچہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا کی یہ بات توجہ طلب ہے کہ ’پولیس کو اپنا رویہ ٹھیک کرناہوگا۔ اس کی شبیہ لوگوں میں اچھی نہیں ہے۔ تھانہ انسانی حقوق اور انسانی احترام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔‘ 8 اگست، 2021 کو نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی(نالسا) کے موبائل ایپ کے اجرا کے موقع پرچیف جسٹس نے یہ بات بھی کہی کہ ’انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جسمانی تشدد کا سب سے زیادہ خطرہ تھانوں میں ہوتا ہے۔ تھانوں میں گرفتار یا حراست میں لیے گئے افراد کو مؤثر قانونی امداد نہیں مل پا رہی ہے جبکہ اس کی اشد ضرورت ہے۔‘
چیف جسٹس کے مطابق، ’حراستی تشدد سمیت پولیس کے دیگر مظالم وہ مسائل ہیںجو اب بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ آئینی التزامات اور ضمانتوں کے باوجود گرفتار یا حراست میں لیے گئے افراد کو مؤثر قانونی مدد نہیں مل پاتی ہے جو ان کے لیے بہت نقصاندہ ثابت ہوتا ہے۔‘ حالات یہ ہیں مگر پولیس اصلاح کی طرف سنجیدہ توجہ کبھی نہیں دی گئی، البتہ برسوں سے پولیس کی اصلاح کی باتیں ضرور کہی جا رہی ہیں۔ وقتاً فوقتاً کچھ ایسی پیش رفت ہو جاتی ہے جو اصلاح کی امید بندھاتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ پولیس ملزمین کو بھی انسان سمجھنے لگے گی، وہ یہ مانے گی کہ لوگ پیدائشی مجرم نہیں ہوتے، اکثر حالات انہیں مجرم بنانے کی وجہ بنتے ہیں، اس لیے تھانے اصلاحی مرکز کی طرح کام کریں گے، جیلیں ایسی جگہ بن جائیں گی جہاں مجرم خود احتسابی پر مجبور ہوں گے، انہیں اپنے گناہ سے نفرت محسوس ہوگی، وہ جیل سے اچھا انسان بن کر نکلنے کی کوشش کریں گے، جیل سے نکلنے کے بعد گناہ سے پاک زندگی بسر کریں گے مگر ہوتا اس کے برعکس ہے۔ ایک بار جو پولیس کے ہاتھ لگ جاتا ہے، سمجھا جاتا ہے کہ اس کی زندگی خراب ہو گئی۔ اگر کوئی چھوٹا کریمنل جیل چلاجاتا ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ وہ بڑا کریمنل بن جائے گا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس پر بحث کی نہیں، اصلاح کی ضرورت ہے۔ بحث و مباحثے سے سماج نہیں بدلتے، اصلاح سے بدلتے ہیں اور اصلاح کرتے وقت یہ توجہ بالکل نہیں دی جانی چاہیے کہ قصوروار کس مذہب یا کس ذات کا ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہر چیز سیاست کی نذر ہو جاتی ہے۔
ہمارے ملک میں دیش پریم کی باتیں کرنے والوں کی کمی نہیں، یہ سمجھنے والے لوگ کم ہیں کہ ملک کی خوش حالی کے لیے ترقی ضروری ہوتی ہے اور ترقی کے لیے ضروری ہوتا ہے امن۔ امن قائم کرنے کے لیے انصاف قائم کرنے کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے، آج بھی ہے مگر ایسی صورت میں انصاف کے نظام کی کیا اہمیت رہے گی جب ملزمین کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے برسوں جیل میں گزارنے پڑیں گے۔ ایسا کئی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ 10 برس، 15 برس جیل میں گزارنے کے بعد عدالتوں سے ملزمین باعزت بری کر دیے گئے مگر کس نے یہ سوچنے کی زحمت کی کہ ان کے جیل میں رہنے سے ان کے گھروالوں کی زندگی تباہ و برباد ہوگئی، ان کے بچے اچھی طرح تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ اگر اس بات پر غور کیا جاتا کہ لوگ جھوٹے معاملوں میں پھنسائے کیوں جاتے ہیں تو پولیس کے خلاف کارروائی کی جاتی۔ انسان دوست لوگ کہتے رہے ہیں، کسی کو گرفت میں لینے اور اس کے خلاف کیس بنانے سے پہلے اگر پولیس اچھی طرح تفتیش نہیں کرتی تو پھر اس کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے مگر کئی لوگ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ایسا کرنے سے پولیس کا حوصلہ ٹوٹے گا۔ سوال یہ ہے کہ پولیس کا حوصلہ بڑھائے رکھنے کے لیے کیا گھروں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھتے رہنا چاہیے؟ کیا پولیس کا حوصلہ بڑھائے رکھنے کے لیے پولیس کی ہر ناجائز بات درگزر کر دینی چاہیے؟ ایسا اگر کرنا صحیح نہیں ہے تو پھر پولیس کی ذمہ داری کون طے کرے گا؟ غلط الزامات کی وجہ سے اگر کوئی بے قصور سزا کاٹتا ہے تو اس کے لیے پولیس کو کون جواب دہ بنائے گا، اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔
پولیس کے بارے میں ہندوستان کے چیف جسٹس نے جو باتیں کہی ہیں، وہ واقعی قابل غور ہیں۔چیف جسٹس این وی رمنا کی اس بات سے عدم اتفاق کی گنجائش نہیں ہے کہ ’ملک گیر سطح پر پولیس کو حساس بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔‘ امید کی جانی چاہیے کہ اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے کوئی پہل ہوگی۔ اگر وہ پولیس کی جواب دہی متعین کر دے، اگر وہ پولیس کے خلاف کارروائی کی راہ ہموار کر دے تو پھر تھانے ٹارچر کی جگہ نہیں رہیں گے مگر سوال یہ ہے کہ پھر سیاست دانوں کا خوف کہاں رہ جائے گا۔ یہ بات ناقابل فہم نہیں ہے کہ پولیس کا استعمال سیاست داں کس طرح کرتے رہے ہیں، اچھے پولیس والے کیوں پیچھے رہ جاتے ہیں اور خاموشی سے نوکری کرکے ریٹائر ہو جاتے ہیں، اس لیے پولیس کی اصلاح کرنے کے لیے سیاست سے اس کے رشتوں پر بھی غور کرنا ہوگا، ایسا نظام بنانا ہوگا کہ پولیس سیاسی اثرو رسوخ سے باہر رہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS