معیار تعلیم کیلئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ضرورت

0

محمد فاروق اعظمی

ہندوستان کے ہرشہری کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے بلند بانگ نعرے کے ساتھ شعبہ تعلیم میں مکمل تبدیلی کاسلسلہ شروع کیے ہوئے ایک سال سے زائد کی مدت گزرچکی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کا نفاذ تو ہوگیا ہے لیکن تعلیم کا معیار بلند کرنے کے جو دعوے کیے گئے تھے، اب تک اس سمت کسی کوشش کا آغاز بھی نظر نہیں آرہاہے۔ ہندوستان میں تعلیم کی صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ سطح تک کی تعلیم کاجو معیار ہے وہ نہ دانش پیدا کررہی ہے اور نہ اس کی گود سے کلرک ہی نکل رہے ہیں۔ رسمی طورپر ڈگریوں کی تقسیم کا ایک سلسلہ ہے جس میں طلبا کی بھاری تعداد شامل ہوتی ہے اور ڈگری حاصل کرکے خود کو تعلیم یافتہ سمجھنے لگتی ہے۔ بین الاقوامی پیمانہ پر ملک کی اعلیٰ تعلیم کامعیار پرکھا جائے تو ماسوا چند ایک تعلیمی اداروں کے مجموعی طور پر اعلیٰ تعلیم کی حالت اطمینان بخش نہیں ہے۔دنیا کی 500ٹاپ یونیورسیٹیوں میں ہندوستان کے صرف تین تعلیمی ادارے ہی شامل ہیں جن میں بنگلور کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کا مقام 323واں، آئی آئی ٹی ممبئی کا405واں اورآئی آئی ٹی کھڑگپور کا 484 واں مقام ہے۔ اعلیٰ تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے حکومت نے چند ایک اقدامات بھی کیے جن میںNAAC میں اصلاح، یونیورسٹیوں کو گریڈ کے مطابق امداد دینا، آن لائن ڈگریاں دینے کے سلسلے میں ضابطے سازی وغیرہ شامل ہیں۔باوجود اس کے اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں کوئی قابل ذکر بہتری نہیں آئی ہے۔ملک میں فی الحال یونیورسیٹیوں کی تعداد 850ہے جن میں سے152مرکزی یونیورسیٹیاں ہیں، 316ریاستوں کی ہیں اور191پرائیویٹ یونیورسیٹیاں ہیں۔ ان سب یونیورسیٹیوں میںاعلیٰ تعلیم کا معیار مقرر کرنا اور ربط باہم کیلئے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یوجی سی )کام کرتا ہے۔گزشتہ ایک دہائی سے یو جی سی تنقید کی زد پر ہے۔ 1956 میںقائم ہونے والا یہ ادارہ یونیورسیٹیوں کی اتنی بڑی تعداد میں تعلیمی معیار بلند کرنے میں ناکام ثابت ہورہا ہے۔ اس صورتحال سے پریشان ماہرین تعلیم کے سامنے حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کی تجویز رکھی جسے اب تک پورا نہیں کیاگیا ہے۔
تعلیم کو بہتر بنانے بالخصوص اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے شعبہ کو دنیا سے ہم آہنگ بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں قائم ہونے والے اس کے نگراں اداروں میں شفافیت ہو اور وہ بدعنوانی سے پاک اپنے کام میں مخلص ہوں۔ہندوستان میںاعلیٰ تعلیم کی نگرانی میں کہنے کو تو یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کام کررہاہے لیکن اس ادارہ سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہورہی ہیں اور نہ ہی یہ ادارہ اپنی مفوضہ ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اداکرپارہاہے۔یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے پاس اعلیٰ تعلیم کے نام پر چل رہے فرضی تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی کرنے کا کوئی اختیاربھی نہیں ہے۔ مالی گرانٹ کے معاملے میں رشوت ستانی کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔ایسالگتا ہے کہ یو جی سی صرف اور صرف تحقیقات کیلئے مالی گرانٹ دینے کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔ اپنے اثر ورسوخ کا فائدہ اٹھاکر بہت سوں نے سائنسی اور غیر سائنسی تحقیقات کے نام پر فنڈ اکٹھا کرکے حقیقی تحقیقی کاموں کا مذاق بنادیاہے۔ یو جی سی کے مانیٹرنگ سسٹم پر بھی اکثرسوال اٹھتے رہے ہیں۔ 1956میں جس وقت یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا، اس وقت ہندوستان میں یونیورسیٹیوں کی تعدادفقط20تھی جو بڑھ کر اب 850 ہوگئی ہے۔کالجوں کی تعداد بھی 1950میں صرف 500تھی اب 40ہزار سے زائد کالج ہندوستان بھر میں ہیں۔ ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی تعدادبھی اسی تناسب سے بڑھی ہے۔ ایک محتاط جائزہ کے مطابق ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے طلبا کی مجموعی تعداد تقریباً 4کروڑ ہے۔ تعلیمی اداروں کی اتنی بھاری تعداد کی نگرانی اوربڑھتی ہوئی ضرورت کی شرح سے انفرااسٹرکچر اور ترقی کو جاری رکھنے میں یو جی سی کو سخت مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑرہاہے۔

ملک اور معاشرہ کی تعمیر و ترقی کیلئے لازم ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے شعبہ کو بہتر سے بہتر بنایا جائے۔ہندوستان میں بھی بین الاقوامی معیار کے مساوی معیاری تعلیم فراہم کی جائے۔ صرف روپے کمانے کیلئے قائم کیے گئے تیسرے درجہ کے تعلیمی اداروں پر لگام لگائی جائے اور فرضی تعلیمی اداروں سے ملک کو نجات دلائی جائے نیز اختراع اور تحقیق کی زیادہ سے زیادہ سرپرستی کی جائے، ریسرچ اسکالروں اور محققین کی سہولت کیلئے باقاعدہ ریسرچ کلسٹر قائم کیے جائیں اور ان سب کی نگرانی سیاست سے پاک ادارہ کرے۔

ان ہی سب وجوہات کی بناپر اہل علم و دانش اور ماہرین تعلیم نے اس ادارہ کو ختم کرکے اس کی جگہ ایک دوسرا باوقاراور بااختیار کمیشن قائم کرنے کی سفارش بھی کی تھی۔ماہرین کی سفارش کے بعد ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کی تجویز سامنے آئی، اس کا مسودہ بھی جاری کردیاگیا۔ ایچ ای سی آئی مسودہ بل میں شامل کی گئی تجاویزاگر روبہ عمل لائی جائیں تو اعلیٰ تعلیم کے معیار میں آئی گراوٹ کو کافی حد تک دور کیاجاسکتا ہے۔ اس قدم سے یو جی سی کے انسپکشن راج کا خاتمہ تو ہوگا ہی، تکنیکی اور غیر تکنیکی اعلیٰ تعلیم کے معیار میں تبدیلی بھی آئے گی۔ نئی تعلیمی پالیسی میں بھی اس کمیشن کی صراحت کی گئی۔ لیکن طویل وقت گزرنے کے بعدبھی اس کمیشن کا با عمل نہ ہونا اعلیٰ تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے افراد کیلئے سخت تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔
ملک اور معاشرہ کی تعمیر و ترقی کیلئے لازم ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے شعبہ کو بہتر سے بہتر بنایاجائے۔ہندوستان میں بھی بین الاقوامی معیار کے مساوی معیاری تعلیم فراہم کی جائے۔صرف روپے کمانے کیلئے قائم کیے گئے تیسرے درجہ کے تعلیمی اداروں پر لگام لگائی جائے اور فرضی تعلیمی اداروں سے ملک کو نجات دلائی جائے نیزاختراع اور تحقیق کی زیادہ سے زیادہ سرپرستی کی جائے، ریسرچ اسکالروں اور محققین کی سہولت کیلئے باقاعدہ ریسرچ کلسٹر قائم کیے جائیں اوران سب کی نگرانی سیاست سے پاک ایسا ادارہ کرے جس میں کسی لال فیتہ شاہی اور انسپکٹر راج کی گنجائش نہ ہو۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی صورت میں ہندوستان کو ایسا ایک ادارہ ملنے کی سبیل نظر آئی ہے۔ لیکن حکومت کی روایتی تساہلی اور سرد مہری کی وجہ سے اسے باعمل ہونے میں نہ جانے ابھی کتنا وقت لگے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS