سرزمین فلسطین: عظیم تاریخ اور مذہبی روایات : محمد توحیدخان ندوی

0

محمدتوحیدخان ندوی

فلسطین (Palestine) کی سرزمین روئے زمین کی قدیم ترین آباد بستیوں میں شمار ہوتی ہے، آثار قدیمہ کے جدید انکشافات کے مطابق یہ پہلی سرزمین ہے جہاں تقریباً گیارہ ہزار سال پہلے (9000، ق،م) انسان نے کھیتی باڑی اور مستقل زندگی گزارنے کا انداز اختیار کیا ، اسی سرزمین پر تقریباً آٹھ ہزار سال ق،م تاریخ کا قدیم ترین شہر ’ریحا‘ بسایا گیا جو مختلف تہذیبوں کے ساتھ آج بھی آباد ہے۔
فلسطین کا قدیم نام کنعان ہے جو دراصل حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے کا نام تھا ’ کنعان بن حام بن نوح‘ طوفان نوح کے بعد کنعان نے عراق سے ہجرت کی اور آکر جزیرہ العرب میں آباد ہوگئے اور یہیں ان کا قبیلہ آباد ہوگیا بعد میں ان کے قبیلے کے لوگ ان کے نام سے موسوم ہوگئے ۔پھر اسی قبیلے کے افراد ساڑھے چار ہزار قبل مسیح (4500 ق،م) جزیرہ العرب سے ہجرت کرکے فلسطین میں آکر آباد ہوگئے۔ جب سے آج تک مسلسل یہی عرب کے لوگ اس ملک کے آباد باشندے چلے آرہے ہیں۔ اسی طرح ایک اور عرب قبیلہ جس نے اس سرزمین کی طرف ہجرت کی اس کا نام ’فلستیا‘ تھا جس نے جزیرہ العرب سے ہجرت کرکے جنوبی فلسطین کو اپنا مستقر بنایا تھا۔ بعض مؤرخین کے نزدیک اس کا نام فلسطین اسی عرب قبیلے کی طرف نسبت کرکے بولا جانے لگا۔ ظہورِ اسلام کے وقت انھیں عرب قبائل نے اسلام قبول کیا تھا اور وہ خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ 15 ھ مطابق 636 عیسوی کے دور خلافت میں اسلامی نظام حکومت کے پابند تھے۔ اسلامی نظریات و اثرات کی برکت سے رفتہ رفتہ ان کے اندر ان کے قدیم رسوم و رواجات کی جگہ اسلامی ثقافت و معاشرت، دینی اقدار و روایات پھیلتے و مستحکم ہوتے چلے گئے ۔
دور ماقبل مسیح میں انھیں قبائل کی بابلی ، فارسی، رومی اور یونانی حکمرانوں سے جنگیں ہوتی رہیں جنھوں نے اپنی قوت و اقتدار کے بل بوتے پر اس زمین پر انسانی خون کی خوب نالیاں بہائیں، مگر عربوں کو مکمل طور پر اس سرزمین سے بے دخل و محروم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اسی درمیان حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام کا دور حکومت (تقریباً 79 سال) اس زمین کے لیے بڑے خیر وبرکت کا رہا، جنھوں نے موجودہ القدس (Jerusalem) میں خدائے واحد کی عبادت کے لئے معبد تعمیر کیا تھا، جس کی تکمیل ان کے فرزند حضرت سلیمان کے دور حکومت میں ہوئی، مگر کلدانی حکمراں نبوکدنضر نے 589 قبل مسیح میں شہر قدس پر حملہ کرکے اسے تہس نہس کردیا تھا اور سلطنت یہود کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور پھر رومی بادشاہ تیتوس (Titus) نے 70ء میں اس معبد داؤد (ہیکلِ سلیمانی) کو نذر آتش کرکے اس کے باقیات کو لے جاکر کہیں دور پھینک دیا تھا۔ اس کے بعد 135 ء میں ایک اور رومی بادشاہ ’ہادریان‘ نے شہر القدس سے یہودیوں کا مکمل خاتمہ کرکے اس شہر میں ان کا داخلہ تک ممنوع قرار دے دیا تھا، جب سے اور دور اسلام تک یہودی قوم کے لوگ کبھی اس زمین میں غالب و حاکم نہیں ہوئے پھر 15ھ میں حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے القدس میں آباد عیسائیوں کی گزارش پر یہودیوں کو وہاں سے دور دراز علاقوں میں بھیج دیا اور جب ہی سے برابر یہ بکھرے ہوئے مختلف ممالک میں زندگی گزار رہے تھے۔ یہاں تک صہیونی تحریک (Zionism) کے بانی و روح رواں تھیوڈر ہرزل (Theodor Herzl) کی پرزور تشہیر و ترغیب پر یہ دوبارہ پھر سرزمین فلسطین پر قابض ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں تک کہ 1948 میں تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے برطانیہ و فرانس کی سرپرستی میں اسرائیل کے نام سے یہودی ریاست (Jewish State) قائم کردی گئی مگر اس دوران بھی برابر عرب مسلمان قبائل یہاں آباد رہے اور آج تک تمام طرح کی بے سروسامانیوں و قربانیوں کے ساتھ آباد ہیں ۔
ظہورِ اسلام کے بعد سے 1948 تک مسلمان برابر 1200 سال سے زائد (636 تا 1948 ) ملک فلسطین کے حاکم رہے ۔البتہ اس دوران 91 سال(1099 تا 1187 ) تک القدس پر صلیبی حکمرانوں کا قبضہ رہا یہاں تک کہ غیور مصری مسلم حاکم سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صلیبیوں کے چنگل سے آزاد کرایا۔اس سر زمین کا سب سے اچھا دور حکومت انبیاء کرام اور ان کے سچے جانشین مسلمانوں کا رہا ہے، جنھوں نے پوری احساسِ ذمہ داری و رواداری کے ساتھ رعایا کے درمیان اتحاد باہمی اور امن و سلامتی کو قائم رکھا۔ حتیٰ کہ اپنے دشمنوں تک کے لیے عام معافی کے اعلانات کیے، مگر خدا کے دشمن ظالم حکمرانوں نے ہمیشہ اس مقدس زمین کی بے حرمتیاں کیں اور انسانی خون سے اسے لالہ زار کرتے رہے جن کے جانشین صہیونیت کے علمبردار یہودی آج بھی اس کی عظمت و تقدس کو خاک میں ملاکر انسانیت ، عدل و انصاف کا گلا گھونٹ رہے ہیں اور مسلم قوم کے خون کی ہولیاں کھیل رہے ہیں ۔
فلسطینیوں کی زمین پر اسرائیل کا تسلط
جیساکہ سطورِ بالا میں ذکر کیا گیا کہ اس خطے کے اصل باشندے عرب کے قبائلی افراد ہی ہیں جو تمام طرح کے تاریخی نشیب و فراز کے باوجود آج تک آباد چلے آرہے ہیں ۔اسرائیلی قبائل کی حکومت بس چند سال ہی رہی وہ بھی اس طرح کی انھوں نے یہاں کے پہلے سے آباد قبائل پر حملہ کرکے ان پر ویسے ہی قبضہ کرلیا جیساکہ رومی، فارسی، بابلی ،اور یونانی کرتے رہے، مگر اس کے باوجود عربوں کو یہاں سے مکمل طور پر بیدخل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکیؤ
1882 سے 1947 تک یہودی قبائل جبکہ انھیں جرمن و یورپین ممالک سے بڑی وحشت وبربریت کے ساتھ کھدیڑا گیا تھا، کو سرزمین فلسطین پر پناہ ملی اور وہ مختلف ممالک سے ہجرت کرکے آباد ہوتے گئے۔ اسی دوران فلسطینیوں کی مداخلت و مزاحمت کے باوجود صہیونیت کی طاقت و جبر کے ذریعے ارض فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ یہودی حصہ ، عربوں کا حصہ۔ چنانچہ پورے ملک میں سے 54 فی صد یہودیوں کو اور 45 فی صد عربوں کو دیا گیا، پھر صیہونیوں نے 1948 کو امریکہ و برطانیہ کی سرپرستی میں اپنے حصہ پر یہودی ریاست “اسرائیل” کے قیام کا اعلان کردیا اور فلسطینیوں کے تقریباً 500 شہر و قصبات و دیہات ختم کردیے اور 56 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرکے مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا اور آگے بڑھتے ہوئے اب 68 فیصد حصہ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
مسلح مزاحمت کا آغاز
بعد ازاں عربوں کی طرف سے فلسطینیوں کو مسلح مزاحمت کی ترغیب دی گئی اور انھوں نے اس کی کوششیں 1957 ہی سے شروع کردیں، مگر بے سروسامانی اور عرب ممالک کی منافقت، اسرائیل و امریکہ سے مقاربت کے نتیجے میں انھیں کامیابی نہیں مل سکی اور شہیدوں کا خون بہتا رہا۔ 1967 کی جنگ میں عربوں نے اپنا بیشتر حصہ کھودیا اور اسرائیل اپنے قبضوں میں مسلسل اضافہ کرتا رہا۔ چنانچہ اسرائیلی افواج متحدہ عرب فوج سے غزہ پٹی، مغربی کنارہ، مشرقی یروشلم، گولان پہاڑی اور جزیرہ نما سینا چھیننے میں کامیاب ہوگئیں ۔
اسرائیل نے اپنی ناجائز قبضہ مہم کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید تین لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو ملک بدر کرکے یہودیوں کے لئے نوآبادیات قائم کیں جن میں 2000 تک باون لاکھ یہودی بسائے گئے اور ان کی کالونیوں کی تعداد دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اس وقت پورے ملک فلسطین کے 74 فی صد حصہ پر یہودیوں کا قبضہ ہے اور 12 فی صد حصہ اصل فلسطینی قوم مسلمانوں کے قبضے میں ہے اور اس کے حصوں پر بھی پوری ڈھٹائی سے یہودی نوآبادیات کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔
آخر مجبور ہو کر 1967 کے بعد سے فلسطینی قوم کے جانبازوں نے ایک بار پھر مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کیا اور 1973 میں ایک بار پھر عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس میں جزوی کامیابی ملی، مگر عرب حکمرانوں کی غیر مخلص قیادت اور 1978 میں مصر و اسرائیل کیمپ ڈیوڈ معاہدہ نے مجاہدین مزاحمت کی کوششوں کو کمزور کردیا پھر 1980تا 1988 کی عرب خانہ جنگیوں نے بھی مزاحمت کی قوت کو مزید نقصانات سے دوچار کیا 1990 میں عراق کے کویت پر قبضے نے مزاحمت کاروں کی قوت کو بکھیر کر رکھ دیا۔
مگر تحریک مزاحمت کے علمبردار شیخ احمد یاسین کی کوششوں کے نتیجے میں ایک بار پھر 1987 تا 1989 اسرائیلی جارحیت کے خلاف تحریک مزاحمت کو گرم کیا گیا۔ 15 دسمبر 1989 کو ’حریۃ المقاومۃ الاسلامیہ” (حماس) کی بنیاد ڈالی گئی جس نے صرف قوم فلسطین ہی نہیں بلکہ اخوان المسلمین کے ساتھ مل کر پوری امت مسلمہ کے درمیان قبلہ اول کے مسئلہ پر بیداری پیدا کرنے میں زبردست پذیرائی و کامیابی حاصل کی اور اقوام متحدہ کی میزبانی میں صہیونی قیادت کو 1993 کے آس پاس غزہ ریحا معاہدے (اوسلو) پر مجبور کردیا اور مذاکرات کیے گئے مگر اسرائیلیوں کی مسلسل مسلح کارروائیوں کے نتیجے میں یہ معاہدہ بھی عملاً ناکام رہا نتیجتاً صہیونی عزائم کے خلاف 2000 میں دوبارہ پھر تحریک آزاد فلسطین کو طاقت ملی ،مگر حسب سابق اسرائیلی افواج نے پھر اس تحریک کو کچلنے کے لیے مظالم کا سلسلہ شروع کردیا۔ 3000 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے اور 45ہزار زخمی مگر اسرائیلی قوتوں کو اس تحریک مزاحمت کو کچلنے یا ختم کرنے میں ناکامی ہی ہاتھ آئی۔ادھر تحریک مزاحمت (حماس) کی پیش قدمی بڑھتی رہی اور اس نے فلسطینی عوام کی اکثریتی حمایت حاصل کرکے 2006 میں بھاری اکثریت کے ساتھ انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور غزہ پٹی پر اپنی حکومت قائم کرلی۔ یہ روز افزوں پیش قدمی اور مسلح مزاحمت عالمی قوتوں بالخصوص امریکہ و برطانیہ و فرانس اور اس کے آلہ کار اسرائیل کو اپنے لئے خطرہ معلوم ہورہی تھی تو انھوں نے اسے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرلیا اور اسے ختم کرنے کے لیے غزہ کے نہتے عوام کو آئے دن نشانہ بنانا اور ان کی نسل کشی کرنا شروع کردیا۔ رفتہ رفتہ ان کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرکے یہودی نوآبادیات کے قیام کی مہم بھی جاری رکھی، مگر حماس 2004 سے تاحال مسلسل اسرائیل سے مسلح مزاحمت کی لگام تھامے ہوئے ہے۔ ادھر غاصب اسرائیل نے تحریک مزاحمت کے مرکز غزہ پر بری بحری اور فضائی حملوں کے ساتھ ہی ساتھ 2007 میں اسے 41 کلومیٹر لمبی اور 10کلو میٹر چوڑی کھلی جیل میں تبدیل کرکے چاروں طرف سے محاصرہ قائم کردیا اور تاحال یہ محاصرہ قائم ہے اور اسرائیل نے حماس کو کچلنے کے لیے 2008، 2012، 2014، اور 2021 میں بھی حملے کیے جس میں ہزاروں فلسطینی شہید ہوئے۔
حالیہ جنگ 7، اکتوبر 2023 کو اس وقت ایک بار پھر بھڑک اٹھی جب حماس کے لڑاکوئوں نے اسرائیل کے اندر ایک ساتھ 5000 ہزار میزائل گراکر تقریباً دیڑھ ہزار اسرائیلیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جب سے ابھی 24 اکتوبر تک برابر جنگ جاری ہے جس میں 4000 سے زائد بے قصور فلسطینی بچے، عورتیں اور بوڑھے جام شہادت نوش کرچکے ہیں، 14 ہزار زخمی ہوئے ہیں اور دس لاکھ بے گھر ہوچکے ہیں اور غزہ کا 30 فی صد حصہ تباہ ہوچکا ہے مگر نہ تو فلسطینیوں کے عزم و استقلال میں کمی آرہی ہے اور نہ ہی امریکہ و اسرائیل کی جارحانہ خونریز درندگی اور سفاکانہ کارروائیوں میں کمی ہو رہی ہے۔ بظاہر جنگ کے اختتام کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ حماس کے لڑاکے ابھی بھی مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں، جنھوں نے 300 سے زائد اسرائیلی فوجی بھی یرغمال بنائے ہوئے ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے مقاصد کو بروئے کار لانا اور دشمن کو اپنی شرائط قبول کرنے پر مجبور کردینا چاہتے ہیں ۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS