غزہ بحران کی بڑھتی شدت پر مغرب میں بے چینی

0
GAZA CITY:Palestinian youngsters flee Israeli soldiers during riots 26 November 1993 in Gaza City. The Palestinian uprising, "intifada" ("war of stones") against Israeli occupation of Palestinian areas broke out on December 1987 and lasted until 1993 when the Oslo peace accords were signed. (Photo credit should read PATRICK BAZ/AFP/Getty Images)

غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی جارحیت جاری ہے اوریہ جارحیت مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری طرف پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف زبردست مظاہرے ہورہے ہیں۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ہر ممکن طریقے سے اسرائیل کے جنگی جنون پر انکش لگانا چاہتا ہے، مگر اسرائیل اس قدر بے لگام ہوگیا ہے کہ جارحیت روکنے کی کوئی بھی کوشش کارگر ثابت نہیں ہورہی ہے۔ امریکہ کے صدرغزہ کی پٹی میں رسد اور طبی امداد پہنچانے کے لئے اپیل کرچکے ہیں، مگر اسرائیل اپنے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آرہا ہے۔ گزشتہ شب جنوبی غزہ میں رفح کے پاس بمباری میں کئی درجن بے گناہ فلسطینی جاں بحق ہوئے۔ گزشتہ شب کی اسرائیلی کارروائی میں 140 لوگوںکی موت کی خبر ہے۔ اس طرح 7؍اکتوبر کے حملہ کے بعد سے اب تک غزہ میں مرنے والوں کی تعداد 5791 ہوچکی ہے۔ الجزیرہ کا کہنا ہے کہ 24گھنٹوں میں اسرائیل کے حملوں میں 704 فلسطینیوںکی موت ہوچکی ہے۔ ادھر عالمی طاقتیں امریکہ، کناڈا، فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے اس جنگ کے بڑھنے کے خدشے کے پیش نظر آپس میں صلاح مشورہ شروع کردیا ہے۔ ان ممالک نے جوکہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ اور صنعتی ممالک کا اتحادہے، بین الاقوامی اصولوں اورانسانی حقوق کے تحفظ کا احترام کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان ممالک کی ایک ورچوول میٹنگ میں غزہ کے لوگوں کو انسانی ضروریات بہم پہنچانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ یہ میٹنگ صدر جوبائیڈن کی ایما پر بلائی گئی تھی۔ ان ممالک کو یہ ڈر ہے کہ یہ ٹکرائو پورے خطے کو اپنی زد میں لے لے گا اور اس کے بہت خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس میٹنگ میں شرکت کرنے والوںمیں امریکی صدر جوبائیڈن، کناڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو، فرانس کے صدر ایمانویل میکروں ، جرمنی کے چانسلر اولاف شولز، اٹلی کی وزیراعظم جورجیا میلونی اور برطانیہ کے وزیراعظم رشی سنک شامل ہیں۔ ان سربراہان مملکت اور حکومت کی شرکت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی ممالک اس تصادم کو لے کر کس قدر سنجیدہ ہوگئے ہیں۔ اس دوران یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ فرانس کے صدر ایمانویل میکروں اسرائیل پہنچے ہیں۔ اس تصادم میں فرانس کے تقریباً 40افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ جبکہ 9فرانسیسی شہری لاپتہ ہیں یا اغوا ہوچکے ہیں۔ظاہرہے کہ اسی وجہ سے کئی ممالک کو یہ ڈر ہے کہ یہ تصادم ان کی اندرونی سیاست پر بھی اثرانداز ہوسکتا ہے۔ جوبائیڈن کا حماس کے حملے کے بعد فوراً اسرائیل کا دورہ اور امریکی وزیر خارجہ کی مسلسل تل ابیب اور مغربی ایشیا کے ممالک میں موجودگی اور دورے اس بات کی دلیل ہیں کہ جوبائیڈن موجودہ صورت حال سے متفکر دکھائی دے رہے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ وہی جوبائیڈن ہیں جو سعودی عرب میں ہونے والی جی سی سی سربراہ کانفرنس کے موقع پر جب رملہ پہنچے تھے اور محمودعباس نے دو ریاستی فارمولہ کے نفاذ کو لے کر مذاکرات شروع کرنے کی بات کہی تھی تو صدر موصوف نے انہیں یہ کہہ کر خاموش کردیا تھا کہ ابھی وقت نہیں آیا ہے۔ مغربی ایشیا میں موجودہ صورت حال انتہائی دھماکہ خیز ہے۔ خطے کی کئی بڑی طاقتیں اس تصادم میں کود سکتی ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر فلسطینیوں پر مظالم کے دلخراش مناظر نے عالمی شعور کو جھنجھوڑ دیا ہے اور جس طرح اب تک مغربی ممالک یکطرفہ طورپر اسرائیل کی ڈفلی بجا رہے تھے ان کا رویہ محتاط ہوگیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مغربی ممالک اس وقت بیدار ہوئے ہیں جب غزہ میں حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ پانچ ہزار سے زائد بے گناہ، معصوم فلسطینی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ حادثات اور جارحیت میں مرنے والے افراد میں بچوں کی تعداد افسوسناک حد تک زیادہ ہے۔ اس کے باوجود ’عالمی لیڈروں‘کا ضمیر اب کروٹ لینا شروع کررہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسرائیل نے جو 75سال سے ارض فلسطین پر قابض ہے ، فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں کو صدمات سے دوچار کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا ہے۔ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ صہیونی ریاست کسی بیمار قیادت کی زد میں ہے جوکہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی سرپرستی میں اپنی سفاکی، بے دردی میں اپنے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ رہی ہے اور ہر روز نئے ریکارڈ وضع کررہی ہے۔
ادھر حماس نے دوضعیف العمر خواتین کو رہا کیا ہے۔ یہ رہائی انسانی بنیاد پر عمل میں آئی ہے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق حماس کی قید میں جو افراد ہیں ان کی تعداد 222 ہے۔ کئی حلقوں میں ان دونوں مغویہ افراد کی رہائی کے کچھ دلچسپ مناظر سوشل میڈیا پر ہیں، جن میں دکھایا گیا ہے کہ یہ دونوں خواتین بڑے والہانہ انداز میں القاسم کے جنگجوئوں سے وداع لے رہی ہیں۔ یہ مغربی میڈیا اور موقع پرست عناصر کی اس پروپیگنڈہ کی نفی کرنے والا ویڈیو ہے جو اس بات کی تردید کرتا ہے کہ حماس مقید افراد کے ساتھ بدسلوکی یا غیرانسانی حرکتیں کر رہا ہے۔ 7؍اکتوبر کے حملوںکے بعد صہیونی میڈیا نے جو آتنک مچایا تھا اور اس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح شیرخوار اسرائیلی بچوں کے تن سر سے جدا کئے گئے تھے۔ بدقسمتی یہ کہ دنیا کے طاقتور ترین سمجھے جانے والے صدر امریکہ بھی اس جھانسے میں آگئے۔ بعد میں امریکی سرکاری ذرائع نے ان خبروںکی تردید کردی کہ بچوں کے سر تن سے جدا کرنے کے واقعات اسرائیل میں پیش نہیں آئے ہیں۔ غزہ اور مغربی کنارے پر ایک طرف مسلح جدوجہد چل رہی ہے تو دوسری طرف عالمی سطح پر بھی خاص طورپر میڈیا میں پروپیگنڈہ جنگ چل رہی ہے۔ برطانیہ کے ایک مشہور ٹی وی اینکرپیٹرس ورکن کے مصر کے رہنے والے ایک دانشورہاشم یوسف کا انٹرویو کئی لاکھ مرتبہ سوشل میڈیا پر دیکھا گیا ہے جس میں انہوںنے بہت بے تکلفی اور پراثرانداز میں اسرائیل کی سفاکی اور مغربی میڈیا کی جانب داری کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اس کے بعد برطانیہ میں پی ایل اتھارٹی کے سفیر نے بھی بی بی سی کے جانبدار اینکرکی دھجکیاں اڑائیں اور ان کو یہ باور کرایا کہ ان کا رویہ صحافت کے غیرجانبدارانہ اصولوں کے قطعا ً منافی ہے۔ انہوں نے بار بار اس بات کو دہرایا کہ مغربی دنیا فلسطینیوںکے ساتھ جس طرح کا رویہ اختیار کر رہی ہے وہ روس یوکرین میں کی گئی ’جارحیت‘ کے خلاف اختیار کئے گئے رویہ سے قطعی مختلف ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مرنے والے کی قوم ، نسل، رنگ، علاقہ اور عقیدہ وغیرہ دیکھ کر مغربی دنیا اورمیڈیا اپنی رائے دے رہا ہے۔ ٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS