دوسرے متنازع قوانین کی واپسی کامعاملہ

0

زرعی قوانین جن پر پچھلے ایک برس سے ہنگامہ برپاہے ، کسان جہاں احتجاج کررہے ہیں ،وہیں اپوزیشن پارٹیاں ان پر سیاست کررہی ہیں جبکہ مودی سرکارکل تک یہ کہہ رہی تھی کہ قوانین میں ترمیم تو کی جاسکتی ہے ، ان کو واپس نہیں لیا جاسکتا ،اب جبکہ ’گروپرو‘کے موقع پراچانک 19نومبر کو قوم کے نام خطاب میں وزیراعظم نریندر مودی نے اعلان کردیا کہ وہ کسانوں کو ان قوانین کے بارے میں ٹھیک سے سمجھانہیں پائے ، اس لئے وہ واپس لئے جائیں گے اوریہ واپسی پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں قانونی طریقے سے ہوگی ۔وزیراعظم کے اس اعلان کے بعد سرکار کے وزرااوربی جے پی کے لیڈروں کی بولیاں بدل گئیں۔یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کسان سرکار اورقوانین کونہیں سمجھ سکے یا سرکار کسانوں اوران کی تحریک کو نہیں سمجھ سکی ۔بہرحال زرعی قوانین کا مسئلہ حل ہوتا نظر آرہا ہے ، یہ دوسرا موقع ہے جب اراضی سے متعلق قوانین کو مودی سرکار واپس لے رہی ہے ، اس سے قبل 2015میں سرکارنے تحویل اراضی سے متعلق بل کو واپس لیا تھا ۔وہ بھی کسانوں کا ہی معاملہ تھا اوریہ بھی کسانوں کا ،جن حالات میں سرکار نے زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان کیا ہے ، ملک میں یہ پیغام جارہا ہے یا لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ زرعی قوانین کی طرح سرکاردوسرے متنازع قوانین خصوصاًسی اے اے۔ این آرسی کا قانون اوراین پی آرکے منصوبہ کو بھی واپس لے سکتی ہے۔سرکار کے مذکورہ اعلان سے سماج کاوہ طبقہ اس پہلو سے سوچنے لگاہے اوراسے امید کی کرن نظر آنے لگی ہے جس نے شہریت ترمیمی قانون ، این آرسی اوراین پی آر کے خلاف مہینوں تحریک چلائی تھی اور انتخابی فائدے کے لئے بعض سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کے بیانات بھی کچھ ویسے ہی آ رہے ہیں ۔یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ سی اے اے ، این آرسی اوراین پی آرکے خلاف شاہین باغ کے نام سے چلائی گئی طویل خواتین کی تحریک نے ہی کسانوں کو زرعی قوانین کے خلاف اتنی طویل تحریک چلانے کی راہ دکھائی اورحوصلہ دیا ،جس طرح شاہین باغ کی تحریک نے پوری دنیا میںتاریخ رقم کی تھی ، اسی طرح کسانوں کی تحریک نے نئی مثال قائم کی ۔
ابھی الیکشن کا موقع ہے اورملک میں جس طرح کے سیاسی ، سماجی اورمعاشی حالات ہیں، ان میںمذکورہ سوچ فطری ہے لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے جیساکہ لوگ سوچ رہے ہیں اوربیانات دے رہے ہیں ،کیونکہ زرعی قوانین کی واپسی کے اعلان کے دوسرے دن ہی اترپردیش کے موہن لال گنج سے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ اورمودی سرکار میں ہائوسنگ وشہری امور کے وزیرمملکت کوشل کشور نے صاف صاف کہہ دیا کہ زرعی قوانین کی واپسی کے اعلان کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کے پاس اب کوئی ایشو نہیں رہا ۔اگر وہ یہ سوچ رہی ہیں کہ زرعی قوانین واپس لئے جارہے ہیں تو سی اے اے ۔ این آرسی کا قانون بھی واپس لیا جائے گا یا جو بھی سی اے اے ۔ این آرسی کی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں ،وہ غلط فہمی کے شکار ہیں ۔ اس تعلق سے ابھی سرکار کے ایک وزیرکا بیان آیا ہے ۔ سینئر وزراخاموش ہیں ۔شاید یہ مطالبہ ایشونہیں بن پارہا ہے ، اس لئے سرکار میں خاموشی چھائی ہوئی ہے ۔ ورنہ جو باتیں سرکار کی طرف سے سی اے اے کے خلاف تحریک کے وقت کہی گئی تھیں ، ان سے زیادہ کسان تحریک اورکسانوںکے خلاف کہا گیا تھا۔بلکہ کسانوں کے خلاف کچھ زیادہ ہی قانونی کارروائی کی گئی لیکن آخر کار سرکار ہی پیچھے ہٹی ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ زرعی قوانین اورسی اے اے دونوں عوامی ایشو ہیں لیکن سی اے اے کو ایسا مذہبی رنگ دے دیا گیاجس سے اس کی عوامی پہچان ختم ہوگئی، جبکہ کسانوں کی تحریک کو طرح طرح کا رنگ دینے کی کوششیں ضرور کی گئیں، لیکن ناکام رہیں ۔ اس لئے کسانوں کی مانگ پوری ہوتی نظر آرہی ہے ۔ سماج کا ایک طبقہ اگر سی اے اے کی واپسی کی امید کررہا ہے تو دوسرے طبقات اس کے برعکس سوچ رہے ہیں ۔اسی لئے یہ معاملہ موضوع بحث نہیں بن پارہا ہے ۔ جب صورت حال ایسی ہوگی تو زیادہ امید نہیں کرسکتے ۔tlq
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS