اہانتِ رسولِ اکرمؐ کے معاملہ سے ہندوتو کا نفاق بے نقاب

0

عبدالماجد نظامی

ہندوستانی مسلمانوں پر گزشتہ آٹھ برس کسی قیامت سے کم نہیں رہے ہیں اور ان کے خلاف عصبیت و کھلی عداوت کا جو ماحول آر ایس ایس اور اس کی تمام ذیلی تنظیمیں بشمول بھارتیہ جنتا پارٹی نے تیار کیا ہے، اس کی وجہ سے نہ صرف مسلمانوں کا ایمان و عقیدہ زد پر ہے بلکہ خود مسلمانوں کا اپنا وجود اس ملک میں خطرہ میں ہے۔ مسلمانوں کے خلاف زہرافشانی کا دائرہ صرف آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ان اوباشوں تک محدود نہیں ہے جن کی فکری سطح بہت نیچے اور تاریخ کی معلومات معمولی ہے بلکہ مسلم اقلیت کے خلاف زہر افشانی کی لت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ان لیڈران کو بھی پڑچکی ہے جو دنیا کی عظیم درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرکے لوٹے ہیں اور اہم وزارتوں کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ خود ملک کے وزیراعظم نریندر مودی کے بعض بیانات نے اس مہم کو جلا بخشی ہے۔ مثال کے طور پرگجرات فسادات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وہ نہ صرف مسلمانوں کو اشارتاً ’’کتے کا پلّا‘‘ کہہ چکے ہیں بلکہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جاری تحریک و احتجاج میں حصہ لینے والے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے اپنے حامیوں کو یہ بھی بتا چکے ہیں کہ کن لوگوں کو کپڑوں سے پہچانا جا سکتا ہے۔ اسی طرح 2017 کے یوپی اسمبلی انتخابات کے موقع پر شمشان اور قبرستان نیز رمضان اور دیوالی کا موازنہ کرکے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تفریق کی گہری لکیر پیداہونے میں ان عوامل کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ مسلمانوں کے وجود سے نفرت کا ماحول سنگھ اور بی جے پی نے کس قدر گہرائی اور شدت کے ساتھ اپنے ہم فکر افراد اور ممبران کے درمیان قائم کیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سی اے اے اور این آر سی کے نام پر جب پورے ملک کے مسلمانوں کو مسلسل خوف کے سایہ میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا تھا، اس دوران وزیر داخلہ امت شاہ لگاتار کہتے رہتے تھے کہ تمام بنگلہ دیشیوں کو بنگال کی کھاڑی میں پھینک دیا جائے گا۔ بنگلہ دیشی یا روہنگیا تشخص کا استعمال صرف ایک بہانہ ہوتا ہے، ورنہ نشانہ پر اصلاً ہندوستانی مسلمان ہوتے ہیں۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے جیسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت سنگھ اور بی جے پی کے رگ و پے میں پوری طرح سرایت کر چکی ہے۔ مسلمانوں سے نفرت کا عالم یہ ہے کہ ان کے صرف طرز لباس ہی سے نہیں بلکہ ان کے خورد و نوش کے طور طریقے، ان کی عبادت اور مقامات عبادت، نکاح و طلاق کے نظام، ان کی معاشی زندگی کے اصول و قواعد یہاں تک کہ ان کی شہریت اور دستوری حقوق گویا ہر شے سے آر ایس ایس اور بی جے پی کو انتہا درجہ کا بغض ہے۔ ایک طرف اوہام و خرافات کو تاریخ کا نام دے کر ان کی عبادتگاہیں مسمار کی جاتی ہیں تو دوسری طرف ہندوتو کے رنگ کو جبراً و قہراً ہر مذہب و کلچر پر تھوپنے کی ضد میں ملک کی صدیوں پرانی تہذیبی تکثیریت اور ثقافتی تنوع کو نیست و نابود کرنے کو اپنا مشن بنا رکھا ہے۔ پورے ملک میں گھٹن اور بے چینی کی جو فضا گزشتہ آٹھ برسوں میں پیدا ہوئی ہے، وہ آزادی کے بعد پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ الگ الگ ریاستوں اور مرکز میں لگاتار انتخابی جیت نے بی جے پی اور ان کے حامیوں کو ایسی جنونی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے کہ وہ یہ سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں کہ ملک کو تباہی کے کتنے گہرے غار میں وہ دھکیل رہے ہیں۔ اگر بی جے پی کو ملک کی تعمیر و ترقی کی فکر واقعتا دامن گیر ہوتی تو ان کے اعلیٰ ترین عہدیداران شدت پسندی کو لگام لگانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے اور خالص طور سے ترقیاتی معاملوں کو بڑھاوا دینے میں اپنی قوت صرف کرتے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ملک کی ترقی کا نعرہ صرف ایک جملہ تھا جس کا مقصد ہندوستان کے باشندوں کو جھانسہ میں رکھ کر اقتدار حاصل کرنا تھا تاکہ سنگھ کے ایجنڈوں پر مبنی ملک کی تعمیر نو کا خواب شرمندۂ تعبیر کیا جائے۔ سنگھ کے نظریہ کے مطابق چونکہ ایسے تمام مذاہب جن کا وجود اور ارتقا خالص ہندوستان کی سر زمین میں نہ ہوا ہو، اس کو ہندوستان میں رہنے کا حق نہیں ہے، اس لیے وقتاً فوقتاً مسلمان اور عیسائیوں کے خلاف خاص طور سے زہر افشانی جاری رہتی ہے۔ البتہ مسلمان نسبتاً سنگھی نظریہ کے حاملین کی نظر میں زیادہ بڑے دشمن ہیں۔ آر ایس ایس کے بانی دانشور ساورکر کی کتاب ’’ہندوتوا‘‘ کے مطابق مسلمانوں کی وطن پرستی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کے دین کی تعلیمات عرب دنیا سے آئی ہیں اور اسی لیے ان کی وفاداری بھی عرب کی سرزمین سے وابستہ ہے۔ ساورکر کے مطابق عقیدہ ہی شہریت کی بنیاد ہوتی ہے۔ اسی لیے ان کا ماننا ہے کہ اگر مسلمان صحیح معنی میں محب وطن ہیں تو انہیں اپنا قبلہ بدلنا ہوگا یعنی اپنی عوامی زندگی میں ان تمام ثقافتی علامتوں کو اختیار کرنا ہوگا جن کا تعلق ہندوازم سے ہے۔ سنگھ کی جانب سے بار بار گھر واپسی کا نعرہ دیا جانا، مغل حکمرانوں کو حملہ آور ہونے والے لٹیروں کی شکل میں پیش کرنا یا ان کی عبادت گاہوں کی تاریخی حیثیت پر سوالیہ نشان لگاکر انہیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا دراصل مسلمانوں کے خلاف جاری اس طویل نفسیاتی اور فکری جنگ کا حصہ ہے جس کے تحت ہندوستانی مسلمانوں کو ہمیشہ جرم کے احساس کے ساتھ زندہ رکھنے اور ان کے سامنے ترقی کے تمام راستے مسدود کرنے کی پالیسی کارفرما ہے۔ حال ہی میں بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما نے رسالت مآبؐ کی شان میں جو گستاخی کی ہے اور جس شدید حقارت کے ساتھ ٹیلی ویژن پر اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف اپنی گہری نفرت کا اظہار کیا ہے، وہ سنگھ کی تربیت گاہوں میں برسوں سے جاری ہے۔ بی جے پی اگر واقعی تمام مذاہب کا احترام کرتی جیسا کہ اس نے اپنے بدزبان ترجمان کی برطرفی کے موقع پر کہا تھا تو نوپور شرما کو اتنی جرأت ہی نہیں ہوتی کہ وہ ایسی گھناؤنی حرکت کا مرتکب ہوتی۔ فاشزم کی گود میں پل کر پروان چڑھنے والی نوپور شرما کو معلوم تھا کہ اسلام اور مسلمان کے خلاف زہر افشانی ایک ایسا مجرب نسخہ ہے جو مذہبی جنونیت کے نشہ میں سرشار ہندو معاشرہ کو ہمیشہ سرور کی ایک خاص کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے اور اس سے ووٹ کے راستے اقتدار کا راستہ آسان ہو جاتا ہے۔ اس نے خود وزیراعظم، وزیر داخلہ اور سابق وزیر خزانہ کو فرقہ پرستی سے لبریز بیانات دیتے ہوئے دیکھا اور سنا تھا بلکہ پارٹی کی ترجمان ہونے کی حیثیت سے پارٹی کے اندر چلنے والی بحثوں کا حصہ رہی ہوگی۔ لہٰذا اس نے رسالت مآبؐ کی شان میں گستاخی کرتے وقت یہ سوچا ہوگا کہ یہ ایک ماسٹر اسٹروک ثابت ہوگا اور مستقبل میں مزید انتخابی کامیابیوں کے لیے شاہ کلید ثابت ہوگی۔ بس نوپور شرما سے ایک چوک یہ ہوگئی کہ اس نے یہ اندازہ نہیں لگایا کہ ہندوستانی مسلمان جب اس کی گستاخی پر آواز احتجاج بلند کریں گے تو اس کی گونج عرب دنیا تک پہنچے گی اور ایسا سفارتی طوفان پیدا ہوجائے گا جس میں خود اس کا عہدہ باقی نہیں رہے گا۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ عرب ممالک نے ہندوستانی سفارت کاروں کو طلب کرکے ان کے سامنے اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے۔ قطر پہلا عرب ملک ہے جس نے اس سلسلہ میں اقدام کیا اور اپنی ناراضگی ظاہر کی اور پھر اس کے بعد یکے بعد دیگرے بے شمار عرب اور اسلامی ملکوں سمیت او آئی سی اور جی سی سی نے اپنے احتجاجات درج کرائے اور سخت ردعمل دیا۔ قطر کے اس اقدام کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس دن ہندوستانی سفیر کو قطر کی وزارت خارجہ نے طلب کرکے اپنی شکایت درج کرائی ہے، اس دن ہندوستان کے نائب صدر وینکیا نائیڈو قطر کے دورہ پر تھے اور اس واقعہ کا اثر یہ ہوا کہ ان کے اعزاز میں جو لنچ کا پروگرام رکھا گیا تھا، اس کو منسوخ کر دیا گیا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت میں خارجہ سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی غرض سے جس محنت اور عرق ریزی سے مشرق وسطیٰ بالخصوص خلیجی ممالک کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کو بہتر بنایا تھا، اس کو نوپور شرما کی گستاخ زبان نے ایک لمحہ میں زائل کر دیا۔ اس واقعہ سے بی جے پی کا یہ نفاق بھی دنیا کے سامنے ظاہر ہوگیا کہ وہ دراصل اپنے ملک کے باشندوں کے مذہب و عقیدہ کا لحاظ نہیں کرتی۔ اس کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ یہ پارٹی تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتی ہے۔ بی جے پی کا یہ دعویٰ تو درست ہے کہ ہندوستان کی تاریخ صدیوں سے مذہبی رواداری کے لیے معروف رہی ہے لیکن یہی بات بی جے پی کے سلسلہ میں کہہ پانا دشوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سنگھ اور بی جے پی نے صدیوں کی اس ہندوستانی روایت پر تیشہ زنی کا کام لگاتار کیا ہے اور آج بات اس مرحلہ تک پہنچ گئی ہے کہ مسلم اقلیت کے قتل عام کا اعلان کھلے عام ہوتا ہے لیکن حکومت وقت اس کی ضرورت تک محسوس نہیں کرتی کہ مبینہ مجرموں کو قانونی اعتبار سے سزا دے کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا ملک میں قائم کرے۔ اگر اس بار بھی اسلامی ملکوں نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار نہ کیا ہوتا اور عالمی سطح پر نریندر مودی کی امیج متاثر نہ ہوتی تو غالب گمان تھا کہ گستاخ رسولؐ نوپور شرما اور جندل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی جیسا کہ اس بات سے ظاہر ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مسلسل احتجاج کے باوجود بی جے پی نے تقریباً دس دنوں تک کوئی ایکشن نہیں لیا تھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بی جے پی اور سنگھ اسلام اور مسلم دشمنی پر مبنی اپنے نظریہ پر نظرثانی کریں تاکہ ملک کی ساکھ دنیا میں متاثر نہ ہو اور خود بی جے پی اور سنگھ کو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ورنہ نوپور شرما یا اس طرح کے دیگر مسلم مخالف عناصر کی ان حرکتوں سے ملک کو ایک بڑا نقصان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی برسوں سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کے ویٹو پاور ممالک کی فہرست میں بھارت کا نام بھی شامل ہو جس کے لیے انہیں تمام اسلامی ممالک سے اپنے حق میں ووٹنگ کی امید ہے مگر مسلم مخالف ذہنیت والے افراد کے ساتھ اگر سرکار نے اپنا رویہ سخت نہ کیا تو اس طرح کی کوششیں دیوانے کا ایک خواب بن کر رہ جائیں گی۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS