مغربی افریقہ اور عرب ملکوں میں روس اور چین کا بڑھتاعمل دخل

0

افریقہ اورمغربی ایشیائی عرب ملکوں کی ترجیحات بدل رہی ہیں۔ اس تبدیلی کے کچھ عالمی،سیاسی اور ان ممالک کی خود کی اپنی مجبوریاں ہیں مگر حالات کا سب سے زیادہ فائدہ چین اٹھا رہاہے اور توانائی پیدا کرنے والے ملکوں کے ساتھ جس طرح اس کی قربتیں بڑھ رہی ہیں اور پورے خطے پر اثرانداز ہونے والی ہیں۔ مغربی افریقہ کے ایک اہم ملک الجیریا نے امریکہ اور مغربی ممالک کو جس انداز سے ٹھینگا دکھایا ہے، وہ اس خطے کی جیوپالیٹکس میں بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ فرانس اور الجیریا کے تعلقات میں تلخی اور مراقش کے ذریعہ اسرائیل کے کندھے پر سوار ہوکر مغربی ملکوں میں اپنی اپنی حمایت کا حاصل کرنا خطے میں دونوں مسلم ملکوں کے درمیان کشیدگی اور تصادم کی طرف توجہ دلانے والا ہے۔
الجیریاکے صدر عبدالحمیدتبون نے روس کا دورہ اور حال ہی میں چین کا دورہ کرکے باور کردیا ہے کہ ان کی حکمت عملی بالکل جداگانہ اور منفرد ہے۔ فرانس اور وہاں کے ارباب اقتدار سامراجی دور کے خمار(ہینگ اوور) کو توڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کو ابھی بھی لگتا ہے کہ اس نے افریقہ کے غریب، مفلوک الحال ملکوںمیں حکومت کرکے ان کو بدترین حالات سے دوچار کرکے بہت بڑا قابل فخر کارنامہ انجام دیا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ ان عرب مسلم افریقی ملکوں نے فرانس کو منہ توڑجواب دینا شروع کر دیا ہے اور اپنے وقار اور عزت نفس کو برقرار رکھنے کے لیے ہرممکن جتن کیا ہے۔ مغربی ممالک جمہوریت، انسانیت پروری کے نام پر جو اپنے مفادات اور فائدے کے لیے کھیل کھیل رہے ہیں، اس سے ذرا سی سمجھ بوجھ رکھنے والا واقف ہوتا جارہا ہے، پرفریب پردے چاک ہورہے ہیں اور مغربی طاقتیں جنھوں نے عالمی اداروں پر جو غیرمنصفانہ بالادستی اختیار کررکھی ہے، وہ بھی کسی جمہوری مزاج یا انسانی طرزعمل کی غمازی نہیں کرتے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی اداروں میں بھی جمہوری اصلاحات نافذ کی جائیں اور نظام کو منصفانہ بنایاجائے۔
روسی صدر ویلادیمیرپتن مغربی ممالک کی پابندیوں کو بے اثر کرنے اور ایک الگ حلقہ اثر بڑھانے کے لیے براعظم افریقہ کو ٹارگیٹ کررہے ہیں۔ افریقہ میں ہونے والے برکس اجلاس کے جنوبی افریقہ میں اجلاس پر اس وقت عالمی برادری کی توجہ ہے اور پتن ازخود اس اجلاس میں شرکت نہیں کررہے ہیں۔ اس کے باوجود چین اور روس افریقہ کے مختلف خطوں میں اپنا اثرورسوخ اور فوجی وجود کو فروغ دے رہے ہیں۔ مالے، لیبیا، برکینافاسو، الجیریا وغیرہ میں روسی فوجیوں کی موجودگی امریکہ اور اس کے حواریوں کو دردِسر دے رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 20ایسے افریقی ممالک ہیں، جن کے فوجیوں کو روس میں تربیت دی جارہی ہے۔
بہرکیف، آج کئی ملک ان جمہوری ت نوازوں سے فاصلہ اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ان میںسب سے بڑی مثال الجیریا کی ہے۔ الجیریا نے روس اور چین کی قیادت والے برکس اور شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن (ایس سی او)میں دلچسپی دکھا کر اپنی بدلی ہوئی راہ کا ثبوت دیا ہے۔
الجیریا افریقہ کا سب سے بڑا قدرتی گیس ایکسپورٹ کرنے والا ملک ہے جو نہ صرف پڑوسی یوروپی ملکوں کو قدرتی گیس اور توانائی کے وسائل فراہم کررہاہے بلکہ کئی ممالک اس کی توانائی پر منحصر ہیں۔ الجیریا نے اسے توانائی سیکٹر میں چین کی سرمایہ کاری کے دووازے کھول دیے ہیں۔ اس میں حال ہی میں الجیریا کی توانائی کمپنی سبوتار ٹریچ (Sonatarach)اور چین کی کمپنی ’شینو‘(Shinopee)کے درمیان سمجھوتہ عمل میں آیا ہے۔ خارجہ پالیسی اور اقتصادی معاونت کی اس حکمت عملی کا ثبوت یہ بھی ہے کہ اس سال جون میں ورچوئل برکس کانفرنس میں صدرالجیریا نے شرکت کی تھی۔ اس کا نفرنس میں روسی صدر پتن نے مغربی ممالک کی مفادات کو پورا کرنے والی پالیسی کی نکتہ چینی کی تھی اور برکس ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ چین کے حالیہ دورے میں الجیریائی صدر نے ایک بڑے ڈیلی گیشن کے ساتھ شرکت کی جو اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ الجیریا کی پالیسی کا محور اور مرکز برکس اور شنگھائی کارپوریشن جیسے عالمی ادارے ہیں۔یوروپی یونین یا اس کا بازار نہیں ہے۔
جنوبی افریقہ میں جلد برکس کی چوٹی کانفرنس جنوبی افریقہ میںہونے جارہی ہے۔ برکس کے ممبر ممالک میں چین، روس کے علاوہ برازیل اور ہندوستان اور جنوبی افریقہ ہیں۔
الجیریا اور یوروپی ممالک خصوصاً اسپین کے درمیان تعلقات اس وقت کشیدہ ہوگئے تھے جب اسپین مغربی صحارہ کے معاملہ پر مراقش کے موقف کو سراہنا شروع کردیا تھا حالانکہ اقوام متحدہ نے اسپین کو ایک غیرجانب دار ملک اور مصالحت کار کا رول دیا تھا۔ مگر اس نے مراقش کے ساتھ دیرینہ رشتوں کو نبھانا شروع کردیا اور غیرجانب دارانہ روش ترک کرکے اپنے مفادات کو پورا کرنا شروع کردیا۔ اسپین کی پارلیمنٹ نے مغربی صحارہ پر مراقش کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرلیاتھا۔ اس کے بعدالجیریا نے اچانک اسپین کو قدرتی گیس کی سپلائی روک دی تھی۔ اس فیصلہ کا اتنا بڑا اثر ہواتھا کہ یوروپی یونین کے کئی ممالک نے الجیریا پر زور ڈال کر دونوں ملکوں (الجیریا اور اسپین) کے درمیان پرانے اقتصادی اور سیاسی سمجھوتے کو بحال کرایاتھا مگر دونوں ملکوں میں ابھی بھی تلخی برقرار ہے۔ الجیریا نے مراقش کے اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے مراسم کو دیکھتے ہوئے ایران، روس اور چین کو اہمیت دینی شروع کردی اور ان کے ساتھ دفاعی شعبے میں تعاون شروع کردیا ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS