اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور امریکہ

0

اسرائیل کے صدر اسحاق ہرگویز امریکہ کے دورے پر ہیں اور انھوں نے ایوان کو بھی خطاب کیا ہے۔ صدر کا عہدہ علامتی ہے اور اصل اختیارات براہ راست عوام کی چنی ہوئی سرکار کے پاس ہوتے ہیں اور وزیراعظم انتظامی اور سیاسی سربراہ ہوتاہے۔ بین الاقوامی سیاسی حلقوں میں قیاس لگایاجارہاہے کہ امریکی صدر اور اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نتن یاہو کے درمیان شدید قسم کے اختلافات ہیں اوراس مرتبہ وزیراعظم کا عہدہ اختیار کرنے کے بعدبنجامن نتن یاہو اور صدر جوبائیڈن کے درمیان ملاقات نہیں ہوسکی ہے اور صدر اسرائیل دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پر لیپاپوتی کرنے کی کوشش ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسحاق ہرگویز کا دورہ اس وقت ہورہاہے جب اسرائیل کے اندر عدالتی اصلاحات لاگو کرنے کی کوشش ایک بار پھر شروع کی جارہی ہے اور بنجامن نتن یاہو ان اصلاحات کے بہانے ملک پر ’سخت گیر عناصر‘ کے استبدادی رجحان والے سیاسی گروہوں کی نظام حکومت پرموجودہ بالادستی مستقل طور پر بنادینا چاہتے ہیں۔اگرچہ امریکہ اور اسرائیل (دونوںملکوں) میں اسرائیل کے صدر کے دورے کو لے کر کافی گرم جوشی دکھائی دے رہی تھی۔ مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں سردمہری ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس وقت کئی سطح پر فریقوں کے درمیان کشیدگی ہے، اسرائیل کی اندرونی سیاست میں سخت گیر عناصر کی پالیسیاں امریکی صدر جوبائیڈن کے لیے دردسر بنی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ بنجامن حکومت مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کو بسانے پر انتہائی جارحانہ مہم برقرار رکھتے ہوئے ہیں، وہ بھی امریکہ کی پوزیشن کو خراب کررہے ہیں۔ مغربی کنارے پر جو یہودی بستیاں اسرائیل بنارہاہے وہ بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ موجودہ حکومت کے کئی وزراء اندرون ملک کے حالات اور مغربی کنارے اور فلسطینی عوام کے تئیں ایسے بیانات دے چکے ہیں جو صہیونی ریاست کے سخت گیرچہرے کو بے نقاب کرتے ہیں۔
اسرائیل مغربی کنارے،غزہ کی پٹی اور یروشلم میں بڑی شدت کے ساتھ فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کررہاہے۔ امریکہ 1992میں ہوئے اوسلومعاہدہ میں اہم مصالحت کار تھا اور اس کی کاوشوں کی وجہ سے اس وقت فلسطینی قیادت کو اسرائیل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے راضی کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس سمجھوتے کے ذریعہ دیرینہ فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنانا تھا۔ مگر آج صورت حال بالکل ایسی نہیں ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آجائے۔ سمجھوتے سے بندھے ہونے کے باوجود اسرائیل عملاً اس نظریہ کے خلاف ہے کہ فلسطین کی کوئی آزاد ریاست بھی معرض وجود میں آئے۔ مغربی کنارہ جہاں فلسطینی اتھارٹی کا ہیڈکوراٹر ہے، اس خطہ میں آزاد فلسطینی ریاست کو مرکزیت حاصل ہوگی مگر بڑے پیمانے پر وہاں بستیاں قائم کرکے اور دنیا بھر سے یہودیوں کو چن چن کر لاکر بسایاجارہاہے۔ اس کا مقصد کسی بھی ممکن فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات کی نفی کرناہے۔
1992کے بعد سے لگاتار اسرائیل کی کوشش رہی ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ کسی قسم کے روابط نہ رکھیں جائیں اوراگرکہیں ہیں تو ان کو کم ازکم کیاجائے۔ باقی عرب ملکوں کے ساتھ ابراہیمی سمجھوتے کرکے اپنی معیشت کی توسیع کی جائے اور اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنایاجائے۔ اسرائیل اس پالیسی میں کافی حد تک کامیاب بھی ہے، اس کی تازہ مثال مراقش کے ساتھ حالیہ گرم جوشی ہے اور مراقش کے فرمانروا نے بنجامن نتن یاہو کو اپنے ملک آنے کی دعوت دی ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کچھ عرب ممالک اپنی مجبوریوں اورضروریات کے پیش نظر اسرائیل کے ساتھ سمجھوتے کررہے ہیں۔ مگر مسئلہ فلسطین کے حل کی طرف اسرائیل کی توجہ نہیں ہے۔ اسرائیل اس ایشو کو قانون اور انتظامی مسئلہ قرار دے کر فلسطینیوں کے خلاف اس طرح کارروائی کرتا ہے جسے دہشت گردوں کے ساتھ کی جاتی۔ ہر روزنئی بستیوں کے قیام اور فلسطینیوں کے گھروں کو نیست ونابود کرنے کی خبریں آتی ہیں تو بنجامن نتن یاہو، سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان سے ملاقات کی تمنادل میں لیے ہوئے ہیں اور کئی دفعہ اس خواہش کا برملا اظہار بھی کرچکے ہیں۔
اسرائیل کے صدر ہرگویز نے صدر امریکہ کے ساتھ بات چیت میں ایک دلچسپ بات کہی۔ انھوں نے مغربی ایشیا یا وسطی وایشیا میں استحکام اور تال میل پیدا کرنے کے لیے کام کیے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔وسطی ایشیا میں قیام امن اور استحکام اسرائیل کو بہت عزیز ہے اور وہ بھی اپنی شرطوں اور اپنے مفاد میں۔ اس کو سب سے زیادہ خطرہ ایران کے نیوکلیئر ہتھیارسے ہے،دونوں لیڈروں نے اس حساس موقع پر ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر بطور خاص گفتگو کی۔ صدر امریکہ اس مسئلہ پر گفتگو کا کوئی موقع نہیں گنواتے ہیں۔ جب وہ اپنے صدر کے عہدے پر منتخب ہونے کے بعد خلیجی ملکوں کے جی سی سی سربراہ اجلاس میں شرکت کرنے کے بعد اسرائیل پہنچے تو مختصر ملاقات میں ایران کا وظیفہ پڑھنے سے نہیں چوکے۔ جبکہ اس وقت غزہ پٹی پراسرائیلی فوج نے کشت و خون کا بازارگرم کررکھاتھا۔مگر اب مغربی ایشیا میں برادرکشی پرکسی حد تک لگام لگنے کے بعد یہ احساس پیداہورہاہے کہ اسرائیل اس ماحول میں ہر اعتبار سے نقصان اٹھاسکتا ہے۔ اسی اندیشے اور قومی اندیشے کے باوجود اسرائیل کے رویہ میں بظاہر کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔ سعودی عرب نے بھی واضع کردیا ہے کہ آزاد خود مختار فلسطین ریاست کے قیام کے بغیر مغربی ایشیا میں اسرائیل کے ساتھ دیگر ملکوں کی طرح رواداری ممکن نہیں ہے۔ عربوں کا موقف اس ضمن میں بالکل واضع ہے۔ 2002میں بیروت میں عرب لیگ کے اجلاس میں جو قرارداد پاس کی گئی تھی، وہ ابھی بھی برقرار ہے۔ 22عرب ممالک نے کہا تھا کہ اگر فلسطینیوں کی آزاد ریاست قائم کردی جائے تو سب ممبرممالک اس کو تسلیم کرلیں گے۔ یہ منصوبہ اس وقت کے سعودی بادشاہ شاہ عبداللہ نے پیش کیا تھا۔ اس فارمولے کے تحت اسرائیل کو 1967میں قبضہ کی گئی زمین کو خالی کرناپڑے گا، اس فارمولے کے مطابق مشرقی یروشلم فلسطین کی راجدھانی ہوگی اور 3.8ملین فلسطینیوں کو اپنے گھر کو لوٹنا ہوگا مگر تمام عالمی اداروں، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود اسرائیل اس تجویز پر عمل درآمد کرنے کے لیے بالکل تیارنہیں۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS