فرانس :میرین لی پین کی گوگلی

0

فرانس کے صدارتی انتخابات میں اس وقت ایک اہم موڑ آیا جب دوروز قبل انتہاپسندانہ موقف رکھنے والی اور کافی حد تک مسلم مخالف سمجھی جانے والی خاتون امیدوار میرین لی پین کے رویہ میں تبدیلی محسوس ہوئی وہ ایک با حجاب خاتون کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے دیکھی گئیں۔ ایک عرب خاتون کے ساتھ ان کی تصویر نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی ہے ، کیونکہ فرانس کے مسلمانوں نے تمام 12امیدواروں کی مسلم مخالف پالیسیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دینے کا ارادہ ظاہر کیاہے۔ لی پین کا یہ قدم اس ووٹ کو اپنے حق میں ملانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہاہے۔
خیال رہے کہ فرانس میں ایک مرحلہ کے الیکشن 10 اپریل کو ہوگئے ہیں اور دوسرے مرحلے کی پولنگ 24اپریل کو ہوگی۔فرانس میں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہے اور پچھلے صدارتی الیکشن میں مسلمانوں نے ایمیوئل میکروں کو ووٹ دیاتھا اور ماہرین کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے ووٹوں سے ایمیوئل میکروں صدارتی محل میں پہنچے تھے۔مگر بعد میں کچھ دہشت گردانہ واقعات کے بعد فرانس میں غیر ملکی عرب اور افریقی نژاد شہریوں کو لے کر تعصب کی وجہ سے ایمیوئل میکروں کو کچھ ایسے سخت اقدام کرنے پڑے جن کی وجہ سے مسلمانوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا۔ فرانس میں بڑی تعداد میں عرب خاص طور پر تیونس اور افریقہ کے ساحلی علاقوں کی بڑی آبادی مقیم ہے۔ یہ لوگ بہتر زندگی ، اعلیٰ تعلیم کی تلاش میں فرانس میں مقیم ہوگئے تھے۔ مگر فرانس کی معیشت میں شاندار تعاون اور سرمایہ کاری کے باوجود اب چند سرپھرے لوگوں کی وجہ سے پوری مسلم برادری کو مشکل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔ بہرکیف اس الیکشن میں مسلم مخالف جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے اعلان کا اثر واضح انداز میں نظر آنے لگا ہے۔ ایمیوئل میکروں کو لگ رہاہے کہ اگر اس دفعہ ان کو عرب نژاد اور مسلم فرقے کا ووٹ نہیں ملا تو ان کی جیت کے امکانات معدوم ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا وہ ایک نہیں بلکہ دومرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کو تمام فرقوں کا نمائندہ صدر بننا زیادہ اچھا لگے گا۔ پچھلے مرتبہ کے الیکشن میں بھی ایمیوئل میکروں کا مقابلہ میرین لی پین سے ہوا تھا۔وہ فرانس کی سیاسی جماعت نیشنل ریلی کے سابق لیڈرجین میری لی پین کی بیٹی ہیں اور ان کو ان کے باپ کی وراثت کو جو دائیں بازوکے نظریات پر مشتمل ہے، کی پوری حمایت مل رہی ہے۔مگر اچانک ان کے موقف میں تبدیلی سے ملک کا سیاسی ماحول بدلنے کا امکان پیدا ہوگیاہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں لی پین کی تبدیلی کیاواقعی فرانس کے آئندہ پانچ سال کے سیاسی ماحول میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔پچھلے دنوں ایمیوئل میکروں نے فرانس کے سخت گیر عناصر کو خوش کرنے کیلئے کچھ ایسے جملے ادا کردیے تھے جس سے اقلیتوں میں بطور خاص مسلمانوں میں شدید ناراضگی ہے۔ ان کا یہ جملہ جس میں انہوں نے تقریباً 6 ملین مسلمانوں کی ناراضگی کا خطرہ مول لیا تھا، اس کی گونج آج بھی محسوس کی جارہی ہے۔انہوں نے غیر ذمہ دارانہ اندازسے کہاتھا کہ اسلام آج بحران سے گزررہا ہے اور پوری دنیا میں گزررہاہے۔میکروں نے فرانس کی اسلام اور خارجی اسلام میں تفریق کی تھی۔ انہوں نے کہاتھاکہ آئیڈیا لوجی جمہوریت کی دشمن ہے۔ انہوں نے سپریٹیزم لاء (Sepratism Law) نافذ کیا تھاجس پر مسلمانوں کے سوائمہ ، 50 اسلامک ماہرین اور پورے ملک کی پچاس نمائندہ تنظیموں کے صدور نے سخت اعتراض کیا تھا اور اس کو ناقابل قبول بتایا تھا۔فرانس کے لبرل اور آزادخیال سیاستدانوں اور سماجی ورکروں، ماہرین قانون نے بھی اس پوری کارروائی پراپنے تحفظات پیش کئے تھے۔اس قانون کے خلاف قومی اسمبلی میں بھی 1700تجاویزات آئی تھیں۔ مسلمانوں کی سب سے زیادہ ناراضگی حجاب کو لے کر تھی۔ حجاب مسلمانوں کے ہر طبقے اور سماج میں یکساں اہمیت رکھتا ہے اور اس حقیقت کے باوجود کہ فرانس ایک انتہائی ترقی یافتہ ، دولت مند اور فیشن ایبل ملک ہے۔حجاب مسلمانوں میں کافی مقبول اور محترم ہے، یہاں کی مسلم خواتین حجاب کے استعمال کو خواتین کی ذاتی اور شخصی آزادی کی علامت کے طور پر دیکھتی ہیں ، مگر ایک الٹرامارڈرن طبقہ حجاب کو ہی فرانس کے سماج اور یہاں کی ثقافتی اقدار کے منافی سمجھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اقدار کے اس ٹکرائو سے فرانس میں تہذیبی کے تصادم کا ماحول بن گیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں کی طرح فرانس میں بھی کووڈ 19-کے بعد روزگار کے وسائل اور مواقع میں کافی کمی آئی ہے اور بعض اوقات ایسا لگتاہے کہ اقدار کی یہ کشمکش سماج کو مفادات کے ٹکرائو کی سمت لے جارہی ہے۔ لہٰذا فرانس کے رواں صدارتی انتخابات نہ صرف یہ کہ سیکورٹی کونسل کے ویٹو کے حامی ملک کی سیاسی سمت ہی نہیں ،بلکہ سماجی میلان اور رویہ بھی طے کریں گے۔ (ش ا ص)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS